پھول سی بیٹی جو کوئلہ بن گئی…


یہ بھیانک واقعہ چند ہی روز پہلے کا ہے، جس کی فیس بک پر موجود دو منٹ سولہ سیکنڈ کی وہ مختصر وڈیو مکمل طور پر دیکھنا میرے بس کی بات نہیں۔ دل پر پتھر رکھ کر میں بمشکل ایک منٹ ہی دیکھ سکا، کیونکہ میں نے اپنی آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ جلن بھی محسوس کی اور اپنی جلتی ہوئی آنکھیں بند کرلیں۔ اس آگ کی تپش میں نے اپنی آنکھوں سے لیکر دل تک محسوس کی ہے، جس میں ڈیڑہ سالہ یاسمین اپنی ماں کی نظروں کے سامنے جل کر کوئلہ بن گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آگ لگی تو ماں اپنی ڈیڑہ سالہ بچی کو بچانے کے لئے آگ سے لڑتی رہی۔ وہ آگ پر تو قابو نہ پاسکی لیکن اپنے جگر کے ٹکڑے کو جلتے دیکھ کر بے ہوش ہوگئی۔ ہوش آیا تو معصوم بیٹی جل کر کوئلہ بن چکی تھی۔ تب تک وہاں کچھ لوگ تو پہنچ چکے تھے لیکن بچی کے ساتھ ساتھ سب کچھ راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا۔

راکھ کے اس ڈھیر میں کوئلہ بنی ہوئی بچی کی ماں کے خواب بھی شامل ہونگے، جو اس نے اپنی پیاری سی بیٹی کے مستقبل کے لئے دیکھے ہوںگے۔ وہ انہی خوابوں کی تعبیر کے لئے بچوں سمیت، مزدوری کی غرض سے بلوچستان کے شہر خضدار کے کسی علاقے سے وہاں آئی تھی۔ کوئلہ بنی ہوئی ڈیڑہ سالہ بچی کے قریب ہی ماں بے ہوشی کی حالت میں پڑی تھی۔ لوگوں نے کوئلہ بنی بچی کو ٹاٹ کی پرانی بوری سے ڈھانپ دیا۔ فیس بک پر موجود وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہوش میں آنے کے بعد درد کی ماری ماں کس طرح اپنی کوئلہ بنی بیٹی کو دہشت سے اٹھاتی ہے اور سینے سے لگا کر کیسے تڑپتی ہے۔ مجھ میں تو دو منٹ سولہ سیکنڈ کی وہ پوری وڈیو دیکھنے کی ہمت نہیں تھی، چنانچہ میں اس ماں کے درد بھرے وہ لمحات بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ میں نے وڈیو سے تو نظر ہٹالی، لیکن اس درد کو اپنے دل کے اندر اب تک تیر کی طرح چبھتے ہوئے محسوس کر رہا ہوں۔

ڈیڑھ سالہ یاسمین کا کنبہ براہوی زبان بولنے والے ان خانہ بدوشوں کے گروہ میں شامل ہے، جس نے گندم کی کٹائی کے دنوں میں مزدوری کی کی غرض سے، لاڑکانہ سے 28 کلومیٹر کے فاصلے پر لالو رائنک گوٹھ میں آکر پڑاؤ ڈالا ہے لیکن جلی ہوئی بچی کا باپ مزدوری کے لئے بلوچستان کے شہر تربت گیا ہوا تھا۔ اس درد انگیز واقعہ کے دوسرے دن میں نے معلومات حاصل کی تو اس وقت تک، کوئلہ بنی بچی کا دکھی باپ وہاں تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ مزدور باپ کو ان قیامت کے لمحات میں بھی جہاز پر تو آنا نہیں تھا۔ اسے تو غم کا بھاری بوجھ دل پر اٹھاکر، اپنی حیثیت کے مطابق سفر کی مشکلآت سہتے ہوئے ہی آنا تھا۔ باپ نے آکر دیکھا بھی کیا ہوگا، اپنی ڈیڑہ سالہ لاڈلی بیٹی کا چہرہ تو اس نے نہیں دیکھا ہوگا۔ دیکھا ہوگا تو کوئلہ بنا ہوا چھوٹا سا وجود۔ کوئلے کی آنکھیں، جن میں زندگی کی کوئی رمق نہیں ہوگی۔ اس دکھی باپ کو اپنی پیاری سی لاڈلی بیٹی کی لاش کو انسانی نعش کے روپ میں دیکھنا تو نصیب نہیں ہوا ہوگا۔ اس کے پہنچنے تک تو شاید کوئلے کے اس وجود میں موجود خون کی تھوڑی سی نمی بھی خشک ہوچکی ہوگی اور وہ اپنی پھول معصوم بیٹی کے وجود کو چھوتے ہوئے بھی ڈرا ہوگا کہ کہیں اس کے چھونے سی اس کی بیٹی ٹوٹ نہ جانے!

لالو رائنک گوٹھ پہلے لاڑکانہ ضلع میں تھا اور اب ضلع قمبر شہداد کوٹ کا حصہ ہے۔ میں ایک مرتبہ لالو رائنک گوٹھ جا چکا ہوں، اس لئے مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ وہاں سے موجودہ ضلع ہیڈ کوارٹر قمبر کا فاصلہ بمشکل دس بارہ کلومیٹر ہی ہوگا، لیکن خانہ بدوش غربا کے لئے وہاں سے کوئی فائر بریگیڈ نہیں پہنچ سکی۔ سبب جاننے کے لیے میں نے اس علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک لکھاری دوست کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ قمبر کے فائر بریگیڈ عملے نے پون گھنٹے تک فون ہی نہیں اٹھایا۔ جب فون اٹھایا تو کہا کہ ان کی گاڑیاں ناکارہ ہیں، وہ دوسری جانب کے شہر وارہ کے فائر بریگیڈ سے رابطہ کریں، لیکن صد افسوس کہ دس جھونپڑیاں اور ایک ننہی سی جان جل کر کوئلہ بننے تک فائر بریگیڈ کی کوئی گاڑی امید کی کرن بن کر نہیں پہنچی۔۔۔ میرے لکھاری دوست کی دی ہوئی معلومات کے مطابق فائر بریگیڈ کی گاڑیاں تو ناکارہ کھڑی ہوئی ہیں لیکن ان گاڑیوں کے ایندھن کے اخراجات باقاعدہ خرچ ہو رہے ہیں!

حیدرآباد میں رہائش پذیر، قمبر سے تعلق رکھنے والے میرے سوشل ورکر دوست ذوالفقار قادری نے اس سانحے کا سنا تو خدمت خلق کے جذبے سے وہاں جا پہنچے اور نہ صرف بچی کے باپ سے رابطے کی تگ و دو کی بلکہ امدادی کیمپ میں بھی کام کرنا شروع کردیا۔ علاقے کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے جذبے سے اناج اور کپڑوں کے علاوہ لاکھوں روپے نقد رقم بھی جمع کر لی۔ چندے کی اس رقم میں سے ہر خاندان کو ستاسی ہزار روپے دئیے گئے، جبکہ جل کر کوئلہ بنی ہوئی بچی کے والدین کو دو لاکھ چودہ ہزار روپے ملے۔ بیشک علاقے کے درد مند لوگوں نے ان کی مدد کرکے بہت اچھا کام کیا لیکن اگر لاکھوں روپے کی پوری رقم بھی اس کے ہاتھ میں تھمادی جاتی تو کیا وہ رقم اس کے درد کا مرہم بن سکتی تھی؟ جواب یقینا نفی میں ہی ہے۔

مامتا کی ماری اس ماں کے قدموں میں دنیا کی ساری دولت لاکر ڈالی جائے تب بھی اس کے درد کا مداوا ممکن نہیں ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ جوابدہ تو علاقے کے بے تاج بادشاہ، وہ نواب اور جاگیردار بھی ہیں، جو ہمیشہ سے عوام کو اپنا غلام ہی سمجھتے رہے ہیں۔ قمبر اور شہداد کوٹ کے وہ جاگیردار اور نواب، جو اسمبلی کے ایوانوں تک بھی پہنچتے ہیں، وہ جوابدہ ہوتے ہوئے بھی ذمہ داری قبول نہیں کریں گے۔ ان نوابوں اور جاگیرداروں کو تو صرف ووٹ سے مطلب ہے۔ انہی نوابوں کے ایک نوابزادے نے کچھ عرصہ قبل اپنے ووٹرز سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ، “پانچ سال میں ایک مرتبہ تم لوگ ہمیں ایک ٹکے کا ووٹ ہی تو دیتے ہو۔ اس کے بدلےمیں ہم تمہیں بہت کچھ دیتے ہیں۔” ووٹ کا تقدس اس طرح پامال کرنے والے جاگیرداروں اور نوابزادوں نے اپنے علاقے کے عوام کو کیا دیا ہے، اس کا اندازہ تو وہاں کے پسے ہوئے لوگوں کی ناگفتہ حالت دیکھ کر ہی ہو جاتا ہے، لیکن وہاں کے نوابوں اور جاگیرداروں کا ان غریب خانہ بدوشوں سے لیا لینا دینا، جو ان کو ایک ٹکے کا ووٹ بھی نہیں دے سکتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).