عورت مظلوم نہیں ہوتی


ہر طرف ہے ایک ہی نعرہ” مجرم کہیں کا بے شرم آوارہ”۔ ہمیں اب ذرا ایک عورت نہیں منصف کی حیثیت سے سوچنے کی ضرورت ہے شاید۔ انسان اچھے برے ہرطرح کے ہوتے ہیں اور عورت بھی اس ہی دنیا کا حصہ ہے وہ کوئی کسی الگ دنیا سے نہیں آئی ہے کہ صرف اس ہی کو ظلم و ذیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر آپ کو شکایت ہے تو اس وقت کی رائج حکومت سے کیجئے۔ انصاف فراہم کرنے والے اداروں سے کیجئے اور خود سب سے زیادہ اپنے اندر پائی جانے والی بےحسی سے کیجئے جو یکطرفہ انصاف چاہتی ہے۔ انصاف تو مرد عورت دونوں کے ساتھ ہونا چاہیئے۔ ظلم کرنے والے نے ظلم کیا کیسے؟ بات اس پر ہونی چاہیئے نہ کہ عورت عورت کا راگ الاپ کر ظلم کرنے والے سے زیادہ مظلوم کی مظلومیت پر آہ وبکا کی جائے۔ اس سے آپ عورت کو خود کمزور تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے خاندان کے دکھ و درد میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ جس ظلم کی کہانی بار بار لکھی یا پڑھی یا بیان کی جاتی ہے وہ آپ کے لئے تو شاید انصاف قائم کرنے کا پیمانہ ضرور ہو لیکن مظلوم کے ساتھ نہ صرف اس کے وجود کا تمسخر بلکہ خاندان کے ساتھ بھی صرف ترس اور ہمدردی اور بےچارگی کے چار لفظوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

درد دل رکھنا خدا کی بڑی نعمت ہے کہ ہم بحیثیت انسان دوسرے انسان کے درد کو محسوس کرسکیں چاہے مرد ہو یا عورت اور اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے بھی ہمت و حوصلہ رکھیں اور نسلی۔ لسانی اور فرقہ وارانہ امتیاز کئے بغیر انسانیت کے پرچم اور اس کی سربلندی کےلئے اپنی زندگی میں نئی فکر کا بیج بوئیں۔ مظلوم کے ساتھ ظلم اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ مظلوم ہوتا ہے بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ وہ اس تحفظ سے محروم ہوتا ہے جوحکوت۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معاشرے میں پائے جانے والے افراد کو بحیثیت قوم اس شخص کوفراہم کرنا چاہیئے ۔ اچھا کیا ہے برا کیا ہے اتنا تو ہم نے بچپن میں ہی ماں باپ کے زیر سایہ رہ کر سیکھ لیا۔ چند جماعتیں پڑھ کر جان لیا۔ مگر برا کیا ہے اور سب سے بدترین کیا ہے یہ ہم اب خود اپنے اوپر تجربہ کرکے سیکھ رہے ہیں۔ مشعال خان کے ساتھ کیا ہوا؟ مارنے والوں نے متحد ہوکر مارا۔ متحد ہوکر بچایا نہیں۔ کون پولیس؟ کون جامعہ کی انتظامیہ؟ سب کے سب اللہ کو پیارے ہوگئے تھے اور جاگ رہا تھا انسان اور اس کا اندھا پیغام۔ مذہب کی آڑ میں لوگوں کو اشتعال دلانا اور دین و دنیا کا درس دے کرلوگوں کے نفس کو بھڑکا نے کا عمل؟ کیسے؟ سب سو رہے تھے کیا؟ جب کئی لوگوں کا مجمع مل کر ایک آدمی کو بےدردی سے مارے گا اسلحے اور طاقت کے زور پر تو وہ تو طاقت رکھتے ہوئے بھی کمزور ہی پڑجائے گا۔ اس کو مظلوم نہ کہیں وہ تو مجبور تھا۔ اس کی توہین نہ کریں۔ آپ خود ظالم ہیں۔

ننھی زینب کی عصمت دری کے نام پر پیسے کمانے والا میڈیا یہ بھول گیا کہ وہ ہر تھوڑی دیر بعد نیوز میں زینب کی تصویر اور ریپ کی دل دہلا دینے والی داستان سنا سناکر اس ماں کے جگر کے کتنے ٹکرے کررہا ہے جو بیٹی کو ہنستا کھیلتا چھوڑ کر گئی تھی۔ بنت حوا کی کتنی بیٹیاں کیا اس لئے درندہ صفت لوگوں کا نشانہ بن رہی ہیں کہ وہ مظلوم ہوتی ہیں۔ نہیں ہر گز نہیں۔ جب ایک مجرم کو آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے تو لاکھوں مجرم پیدا ہوتے ہیں۔ قصور میں کیا یہ پہلا واقعہ تھا؟ کیا اس سے قبل بچوں کا لرزہ خیز زیادتی اسکینڈل حکومت کی نظروں سے اوجھل تھا؟

عورت کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔ عورت بدچلن باغی۔ عورت کمزور۔ عورت ایسی عورت ویسی۔ ارے عورت بہت طاقتور ہے کیوں بار بار تذلیل کرتے ہو عورت کی؟ آپ کا معاشرہ ظالم ہے۔ حکومت ظالم ہے۔ معاشرتی نظام پارہ پارہ ہے۔ انصاف پہلے ماں باپ پھر معاشرہ دیا کرتا ہے۔ بچے پیدا کرکے سڑکوں پر بےیارومددگارچھوڑ دینے والے ماں باپ کیا بچوں کے ساتھ ظلم و ذیادتی کے ذمےدار خود نہیں؟

کیا مرد قتل نہیں ہوتا؟ عزت نہیں لٹتی؟ جعلی پولیس مقابلوں میں درندگی سے نشانہ نہیں بنایا جاتا؟ یہاں مرنے والے کو مظلوم بنا کر اللہ شکر تیرا حق ادا ہوگیا میرا کی تحریک چل رہی ہے۔ لکھنا ہے تو ظالموں کے لئے لکھیں۔ اس معاشرتی نظام کے لئے لکھیں جو عورت کو محکوم اور مرد کو حاکم بنا کر مرد و زن کے رشتے کو غلام اور بادشاہ بنادیتا ہے۔ یہ بدترین تربیت اور فرسودہ روایات کا ہی شاخسانہ ہے جو ہمیں بار بار یہی تسلی دیتا ہے مرد کو برا کہو وہ کچلنا چاہتا ہے۔ عورت کی آواز دبانا چاہتا ہے۔ ارے بھائیو!بچے تم پیدا کرتے ہو۔ تربیت تمھاری خون تمھارا بیٹی کو کیا دینا ہے اور بیٹے سے کیا کہنا ہے تمھاری اپنی مرضی۔ کس کو بادشاہ بنایا کس کو غلام یہ بھی تمھارا فیصلہ۔ اگر تمھاری بیٹی مظلوم ہے تو ظلم پہلے تم نے کیا پھر معاشرے نے۔

عورت بھی قتل کرتی ہے۔ ڈاکے ڈالتی ہے یونہی جیلیں خواتین سے نہیں بھری ہیں۔ بس بات یہ ہے عورت کا شور کم مچتا ہے مرد کیلئے یہ نرم گوشہ رکھا نہیں جاتا کیونکہ وہ بطورحاکم زیادہ مشہور ہوتا ہے اورعورت پر اپنا تسلط چاہتا ہے جوکہ صحیح بات بھی ہے لیکن اس میں خرابی ہمارے معاشرتی نظام میں پائی جانے والی ناہمواری کی ہے مرد کی نہیں۔ اس کی تربیت میں ہی فقدان ہوتا ہے عورت سےمحبت۔ نرمی اور برابری کے سلوک کا۔

انصاف کی بالادستی نہ ہونے کو مرد کے ذمے نہیں ڈالیں۔ مرد اگر دندناتا پھررہا ہے تو یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت ہے۔ مرد کی نہیں۔ یقینا مجرم کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیئے چاہے مرد ہو یا عورت۔ قصہ مختصر مظلوم سے زیادہ ظالم کی فکر کریں ۔عورت عورت کا رونا آپ کو خود ایک کمزور عورت بنا رہا ہے۔ ہماری عورت مجبور ہے، مظلوم نہیں۔ کبھی ماں باپ کے ہاتھوں اور کبھی شوہر کے ہاتھوں اور کبھی ان فرسودہ روایات کے ہاتھوں جو نسل در نسل چلی آرہی ہیں۔ اپنی بیٹی کو حق مانگنا سکھائیں۔ اپنے حق کے لئے لڑنا سکھائیں۔ سچ کو سچ اورجھوٹ کو جھوٹ کہنا سکھائیں۔ اہمیت دیں۔تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔ ہمت و حوصلہ دیں اس کے سر پرشفقت کا ہاتھ رکھیں۔ معاشرتی برائیاں ایک طرف لیکن انسان کی جان اور مال اور عزت کا تحفظ ریاست اور اس کے ادروں کی ذمےداری ہوتا ہے۔ اس نظام کے خلاف متحد ہوں۔ مرد کے خلاف نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).