شیرو دادا کی سیکس ایجوکیشن


اگر کوئی پوچھے کہ کالج سے میں نے کیا کمایا تو بلا توقف کہوں گا شیرو دادا۔ شیرو دادا کالج کے پہلے دن میرا دوست بنا اور آج تک روح کا بھی ساتھی ہے۔ اب میرے ایک کرم فرما کی طرح شیرو دادا کی اصل دھونڈنے نہ نکل پڑیے گا۔ صاحبو شیرو دادا ہو، پروفیسر یا تائب میرزا، یہ نام اصل نہیں ہیں گو یہ کردار حقیقی ہیں اور میری زندگی میں رنگ ان ہی سے ہے۔ شیرو اور میں پہلے ہی دن دوست بنے اور دوسرے ہی دن نئے نئے بنے ’پیس مال‘ میں بھونڈی کرنے پہنچ گئے۔ اگر آپ ’بھونڈی‘ لفظ سے واقف نہیں تو فورا فرہنگ آصفیہ کے بجائے فون ڈائرکٹری تلاش کیجیے اور کسی لاہوری دوست کو فون ملائیں۔ شیرو دادا نے مجھے ملک شیک پلایا، اور دو تین گھنٹے سبحان اللہ ماشا اللہ کا ورد کرنے کے بعد ہم شیرو کی موٹر بائیک پر کالج واپس آئے۔ رستے میں شیرو نے کہا، بھائی کیا کمال جگہ ہے، ہم روز آئیں گے۔ میں نے کہا ہاں ضرور۔ کچھ دیر بعد بولا ملک شیک اچھا تھا۔ میں نے کہا ہاں۔ بولا تو بس پھر ایک دن تم پلانا ایک دن میں پلاؤں گا۔ میرا بے اختیار قہقہ نکلا اور معصوم شیرو میرا عمر بھر کا دوست بن گیا۔

شیرو کو دادا ہم اسکے ڈیل ڈول کی وجہ سے کہتے تھے۔ قدرتی طور پر ایسے کسرتی جسم کا مالک کہ لگتا تھا روز جم کرتا ہے۔ کھانے پینے کا شوقین تھا اور سادہ دل اتنا کہ اکثر ہماری وجہ سے پھنس جاتا۔ ایک دن یونہی پیس مال کی فوڈ کورٹ میں بیٹھے ایک پیاری سی لڑکی نظر آئی۔ میں نے کہا دادا اگر تو اس لڑکی سے پانچ منٹ بات کر لے تو ملک شیک میری طرف سے۔ دادا نے دو منٹ سوچا، ملک شیک کا ذائقہ تصور کیا، ایک سسکی اس کے لبوں سے نکلی اور دادا تیر کی رفتار سے اس لڑکی کی طرف گیا۔ ابھی دادا اس لڑکی سے شروع ہی ہوا تھا کہ ایک مرد ان کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا جو اتفاقاً لڑکی کا خاوند بھی تھا۔ ایک ہنگامہ برپا ہوا مگر شکر ہے کہ وہاں موجود باقی دوستوں نے معاملہ سنبھال لیا۔ ’اتفاق‘ سے جب لڑکی کا شوہر آیا اور دادا کا گریبان پکڑا تو مجھے باتھ روم جانے کی حاجت ہوئی۔ سو میں باقی کا منظر خود دیکھنے سے محروم رہا۔ دادا نے جب عین وقت پہ باتھ روم جانے پر ہر قسم کی گالی اور طعنہ دے دیا تو بولا چل اب ملک شیک پلا اور دو بنتے ہیں، ایک لڑکی کا اور دوسرا اس کے شوہر کا۔ اگرچہ دادا نے پورے پانچ منٹ بات نہیں کی تھی مگر میں نے دوستی کا پاس رکھا اور ملک شیک پلا دیا۔

ایک دن دادا انتہائی رونی صورت بنائے ہوے میرے پاس آیا۔ کچھ دیر افسردہ رہنے کے بعد بولا، یار رانے مجھے کوئی بیماری لگ گئی ہے۔ کیا ہوا دادا؟ میں نے فکر سے پوچھا۔ یار دو دن سے میں سوتا ہوں تو مجھے خواب میں گندی گندی باتیں آتی ہیں، درد ہوتا ہے اور میرا پیشاب نکل جاتا ہے۔ اتنا کہ کر دادا نے میرے کندھے پہ سر رکھا اور باقاعدہ آنسووں سے رو پڑا۔ اپنے دوست کی اس بیماری، اور اسکی ممکنہ موت کا سوچ کر میری بھی آنکھیں بھر آئیں۔ میرے حوصلہ دینے پر وہ سنبھلا اور بتایا کہ پرسوں رات جوہی چاولہ کی فلم دیکھی تھی جس میں اس نے گہرے گلے والی قمیض پہنی تھی۔ میرے دل میں آیا کہ اگر یہ تھوڑا اور جھک کر ڈانس کرے تو۔۔۔۔ بس یار لگتا ہے اللہ میاں اسی گندی بات سوچنے کی سزا دے رہے ہیں۔ یہ کہتے ہی دادا کی ہچکیاں پھر سٹارٹ ہونے لگیں۔

میں نے حوصلہ دیا کہ اللہ رحیم ہے اس سے معافی مانگ اور اس جمعرات میرے ساتھ داتا دربار چل۔ ویسے دادا پیشاب تو بچوں کا بھی نکل جاتا ہے، پریشان نہ ہو۔ دادا نے روہانسا ہو کر کہا کہ نہیں یار یہ مختلف بیماری ہے۔ میں نے چیک کیا ہے شلوار اکڑ گئی ہے جیسے کلف لگی ہو۔ اور اتنا بڑا نشان۔ پہلے دن تو میں نے چھپا کر دھو دی تھے پر کل رات والی لایا ہوں۔ یہ کہ کر دادا نے کالج بیگ کھولا اور دائیں بائیں دیکھتے رازداری سے مجھے شلوار دکھائی جس پر کلف سے ہندوستان کا نقشہ بنا تھا اور کشمیر کی لائن آف کنٹرول کی درست نشان دہی ہو رہی تھی البتہ چین  ہندوستان کا حصہ ظاہر ہو رہا تھا۔ میں بیماری کی اس نوعیت، شدت اور پھیلاؤ پر مزید پریشان ہو گیا۔ صاحبو یہ اندازہ تو آپ کو ہو گیا ہو گا کہ میں بھی دادا جیسا ہی معصوم تھا بلکہ ابھی تک ’محروم‘ بھی تھا۔

دادا کا ایک بڑا بھائی بھی تھا۔ میں نے کہا شاذب بھائی کو بتا وہ کسی ڈاکٹر وغیرہ پہ لے جائیں۔ دادا نے فورا کہا نہیں نہیں وہ سو سوال کرے گا اور امی ابو کو بھی بتا دے گا۔ اور میرے باپ نے تو میری ہی غلطی نکال کر مارنا ہے۔ خبردار اس کو نہ بتائیں۔ بلکہ تجھے آنٹی کی قسم ہے کسی کو بھی اگر بتایا تو۔ کافی سوچ بچار کے بعد طے پایا کہ کسی دور کے علاقے کے کسی انجان ڈاکٹر کے پاس جایا جائے تاکہ راز راز ہی رہے اور علاج ہو سکے۔ اب ہم بائیک پہ بیٹھے اور مختلف جگہیں سوچتے مسترد کرتے سمن آباد کے ایک کلینک پہنچے۔ مگر وہاں رش زیادہ تھا۔ ایک اور کلینک میں ڈاکٹر سرعام ہی بیٹھا تھا اور ہماری گفتگو دوسرے بھی سنتے جس سے ہمیں شرم آتی۔

آخر ملتان روڈ کے ایک ویران سے کلینک پہنچے جہاں پر ایک ایسا ڈاکٹر بیٹھا تھا جو نہ جانے کیوں بیٹھا تھا۔ چھوٹے سے کلینک میں بس ڈاکٹر تھا یا اس کا کمپاونڈر اور دونوں ہی گرمیوں کی دوپہر میں نیم غنودگی میں تھے۔ ہماری آواز سن کر پہلے تو کمپاونڈر جاگا اور پھر ڈاکٹر جو کرسی میں نیم دراز مریض ہی لگتا تھا، فورا ڈاکٹر ہو گیا۔ دونوں نے حیرت اور خوشی بھری آنکھوں سے ہمیں اور ایک دوسرے کو دیکھا اور ڈاکٹر نے فورا رائٹنگ پیڈ پر کچھ لکھنا شروع کر دیا۔ پھر بولا جی کیا مسئلہ ہے؟ اب ہم دونوں جو ڈاکٹر کے پاس سٹول پر بیٹھے تھے گم سم ہی بیٹھے رہے۔ ڈاکٹر نے پھر زرا زور سے پوچھا، کیا تکلیف ہے؟

اب کے دادا نے التجائی نظروں سے مجھے دیکھا۔ میں ممننایا کہ سر یہ میرے دوست کو عجیب سی بیماری لگ گئی ہے۔ ڈاکٹر نے دادا کا ڈیل ڈول دیکھا اور ایک لمبا سا اچھاااا کہا۔ پھر بولا تم خود بتاؤ کیا ہوا۔ میں نے بھی کہا ہاں دادا کھل کر بتاؤ تاکہ ڈاکٹر صاحب صحیح طرح سمجھ سکیں۔ اب دادا نے آنکھیں جھکائیں اور ساری داستان یوں شرمندہ سا ہو کر تیز تیز سنائی جیسے سولہ دسمبر سن اکہتر کی شام نیوز کاسٹر نے خبریں پڑھیں ہوں گی۔ بات کرتے کرتے دادا نے بیگ سے شلوار بھی نکال لی۔ آنکھیں شرم سے میری بھی جھکی تھیں۔

اچانک ایک قہقہے کی آواز آئی اور ساتھ ہی ٹھاہ کی ایک آواز۔ دیکھا تو ڈاکٹر کرسی سمیت فرش پر گرا ہوا تھا اور پیٹ پکڑ کر زور زور سے ہنس رہا تھا۔ گھبرا کر نظر گھمائی تو کمپاونڈر بھی منہ پر ہاتھ رکھے یوں ہنستا تھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ ہم گھبرا کر بھاگ کھڑے ہوتے ڈاکٹر اٹھا اور اگلا ایک گھنٹہ اس نے ہمیں وہ سب کچھ بتایا، سمجھایا بلکہ کاغذ پہ بنا کر دکھایا جو کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ شرم سے ہمارے کان لال ہوتے تھے اور جسم میں چیونٹیاں دوڑتی تھیں۔ اور ہاں اس ڈاکٹر نے ہم سے فیس بھی نہ لی اور جاتے جاتے مشورہ دیا کہ کیلے اور دودھ زیادہ استعمال کرو۔

بلاشبہ ہمارے معاشرے میں جنسی تعلیم کی ضرورت ہے۔ تاکہ نوجوانی کے اسرار ایک زحمت سے زیادہ فطری چیز لگیں اور ہم ان بدنی تبدیلیوں کے لیے تیار ہوں جو قدرت لاتی ہے۔ وہ خواہ لڑکے کے مسائل ہوں یا لڑکی کے۔ ہماری تہذیب کو مدنظر رکھتے ہوے ان معلومات کی تعلیم بہت ضروری ہے۔ مجھے حیرت ہے اگر کوئی مذہب کے نام پر اس کی مخالفت کرے کہ خود صحائف مین بھی جنسی تعلیم دی گئی ہے اور عربی بولنے سمجھنے والے بچے چھوٹی عمر سے اسے پڑھتے ہیں۔ خود مدارس میں رائج درس نظامی میں جنسی تعلیم موجود ہے۔ بلکہ عزیزم شاد مردانوی نے بتایا کہ تقریباً نابالغ عمر میں ہی ان کو مدارس میں یہ تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ یقین کیجیے جنسی تعلیم ایک نوجوان ہوتے بچے/بچی کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ دینی یا دنیاوی تعلیم۔

صاحبو، آج دادا کے تین بچے ہیں، میں بھی شادی شدہ ہوں اور اس بات کو پندرہ سال بیت گئے۔ لیکن ہم آج بھی اس واقعہ کو یاد کر کے ہنستے ہیں کہ ہم اپنی لاعلمی کی وجہ سے کتنا خجل ہوئے۔ سوچتا ہوں کاش ہم ایف سی کالج کے بجائے بیکن ہاوس میں ہوتے تو میں شیرو دادا کی شلوار دیوار پر لگا دیتا اور لکھتا ’یہ بھی فطری ہے‘۔ شاید کوئی ہمارے ’مسائل‘ پر بھی کالم لکھ دیتا۔

انعام رانا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

انعام رانا

انعام رانا لندن میں مقیم ایک ایسے وکیل ہیں جن پر یک دم یہ انکشاف ہوا کہ وہ لکھنا بھی جانتے ہیں۔ ان کی تحاریر زیادہ تر پادری کے سامنے اعترافات ہیں جنہیں کرنے کے بعد انعام رانا جنت کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ فیس بک پر ان سے رابطہ کے لئے: https://www.facebook.com/Inamranawriter/

inam-rana has 36 posts and counting.See all posts by inam-rana

Subscribe
Notify of
guest
12 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments