مسئلہ ووٹ کی عزت کا


ہم شاید دنیا کی واحد جمہوریت ہیں، جہاں کی حکمران جماعت اپنے اتحادیوں اور ایک اپوزیشن جماعت کے ساتھ مل کر پکار بلند کر رہی ہے ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘۔۔۔ برسراقتدار جماعتوں اور اپوزیشن میں ان کے ہم خیال عنصر کا مخاطب کون ہے۔۔۔ اس سے پاکستان کا ہر باشعور شہری واقف ہے لیکن نام لینے سے گریز کیا جاتا ہے۔۔۔ اشاروں کنایوں میں تھوڑی سی بات ہو جاتی ہے۔۔۔ البتہ اتنا ضرور کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ریاست کے اندر ریاست پائی جاتی ہے جو بظاہر نظر نہیں آتی مگر محسوس بہت ہوتی ہے۔۔۔ اس کی کارفرمائی سامنے دکھائی دینے والی حکومت سے کہیں زیادہ ہے اسی کی بدولت ماسوائے ایک یا دو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی کوئی پارلیمنٹ اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکی اور وزیراعظم تو کوئی ایک بھی پانچ سال تک اپنے آپ کو عہدے پر برقرار نہیں رکھ سکا۔۔۔ اگر کوئی عوام کے ووٹوں کی طاقت سے برسراقتدار آیا ہے تو عوام کو اپنے ووٹوں کی آئینی و جمہوری طاقت کی بنا پر اسے ہٹانے اور اس کی جگہ دوسرے کو لانے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ا س کا فیصلہ ہمیشہ دوسری قوت نے کیا ہے جس کا آئین میں ذکر نہیں نہ اس کے پاس مینڈیٹ ہے پاکستانی سیاست کا یہ تضاد اب اس حد تک کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ ووٹ یعنی عوام کی رائے اور ان کے آئینی و جمہوری اختیار یعنی حق حکمرانی کا مسئلہ شدت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ حیرت کی بات ہے یہ سب کچھ اس ملک اور ریاست کے اندر ہو رہا ہے جو وجود میں ہی ووٹ کی طاقت کے بل بوتے پر آئی تھی۔۔۔ اگر 1945-46ء کے ہندوستان گیر انتخابات میں برصغیر کے مسلمان یک آواز ہو کر اپنے لیے علیحدہ ملک کے حق میں ووٹ نہ دیتے تو انگریز سامراج اور ہندو برہمن و بنیے کی مشترکہ طاقت کے منہ سے پاکستان کا نوالہ چھینا نہیں جا سکتا تھا۔۔۔

مگر آزاد ریاست کی حیثیت سے ہماری ستر سال کی تاریخ کے دوران قوم و ملک کو سب سے بڑا المیہ یہی در پیش رہا ہے کہ ووٹ کی طاقت نے ہمیں پاکستان تو لے دیا مگر بعد میں اسی طاقت کو عملاً پامال کر کے رکھ دیا گیا ہے۔۔۔ آزاد و خود مختار اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ایک دن اس حرماں نصیبی کا گواہ ہے۔۔۔ آج صورت حال یہ ہے تین بار منتخب ہونے والا وزیراعظم پکار پکار کر کہہ رہا ہے مجھے کیوں نکالا۔۔۔ نکالنے والے کون ہیں۔۔۔ ظاہر ہے ملک کے اصل مالک عوام نہیں۔۔۔ کرپشن کا بڑا اور بار بار دہرایا جانے والا الزام ہے جو اس پر لگایا جا رہا ہے۔۔۔ وہ کہتا ہے ایک پیسے کی بدعنوانی کی ہو تو بتاؤ جواب میں ہماری سب سے بڑی عدالت انصاف نے ایجنسیوں کی مدد سے اقاما نکال کر دکھا دیا۔۔۔ یہ لو، تم نے جلا وطنی کی حالت میں بیٹے کی کمپنی میں ملازمت اختیار کی تھی تمہارے نام پر تنخواہ درج تھی اسے وصول نہ کرنے کے باوجود اثاثے کے طور پر کاغذات نامزدگی میں ظاہر کیوں نہیں کیا، اتنے بڑے قومی جرم کی پاداش میں آئین کے اندر ایک سابق ڈکٹیٹر کی مسلط کردہ ترمیم 62 ایف ون کے تحت نا اہل قرار پاتے ہو اور ہماری تشریح کے مطابق یہ نا اہلی عمر بھر کے لیے ہو گی۔۔۔ لوگ انگشت بدنداں ہیں اللہ تعالیٰ کفر کی معافی دے دیتا ہے۔۔۔ یہ جج حضرات ایک جانے پہچانے سیاستدان کی معمولی درجے کی فروگزاشت سے صرف نظر کرنے کو تیار نہیں۔۔۔ یا اصلاح کے بعد اسے اگلا موقع نہیں دینا چاہتے۔

منگل 17 اپریل کو نوا زشریف کی صدارت میں ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے زیر عنوان منعقد ہونے والے اور پونے چار گھنٹے تک جاری رہنے والے سیمینار میں ریاست پاکستان، اس کے منتخب نمائندوں اور عوام کو در پیش یہی المیہ زیر بحث تھا۔ سیمینار اتنا بھرپور تھا کہ ہال میں تل رکھنے کو جگہ نہیں تھی۔۔۔ گیلری بھری پڑی تھی۔۔۔ بہت سے سامعین آخر دم تک کھڑے رہے۔۔۔ سفارتکار کارروائی دیکھنے اور سننے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ پاکستان کے قریب ترین اور انتہائی قابل اعتماد دوست و ہمسایہ ملک عوامی جمہوریہ چین کے سفیر محترم بنفس نفیس

موجود تھے۔۔۔ یوں ہمارے ملک کے روشن ضمیر سیاستدانوں اور اہل دانش کی آواز بیرونی دنیا کی حکومتوں تک بھی پہنچ رہی تھی۔۔۔ سیمینار سے خطاب کرنے والوں میں جہاں بار ایسوسی ایشن کے سابق منتخب عہدیداروں یعنی سینئر ترین وکیلوں کا نام تھا وہیں چنیدہ اہل دانش تھے لیکن میلہ سیاستدانوں نے لوٹ لیا جو ظاہر ہے ووٹ کو عزت نہ ملنے کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا گروہ ہے۔۔۔ حکمران اتحاد سے تعلق رکھنے والے سربر آوردہ سیاسی رہنما مثلاً نیشنل پارٹی بلوچستان کے حاصل بزنجو، ملی پختونخوا پارٹی کے محمود خان اچکزئی اور جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن تو سٹیج پر موجود تھے تقریریں بھی انہوں نے زبردست کیس لیکن اپوزیشن جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخار حسین نے ایسا جذباتی رنگ باندھا کہ پورا ہال بار بار تالیوں سے گونجتا رہا۔۔۔ انہوں نے کہا ہماری جماعت روز اول سے ووٹ کی حرمت اور طاقت کو منوانے کی خاطر جدوجہد کرتی چلی آ رہی ہے۔۔۔ آخر تک کرتی رہے گی۔۔۔ اسی لیے حکومت کی مخالف جماعت ہونے کے باوجود سیمینار میں اظہار خیال کی خاطر چلا آیا ہوں۔۔۔ انہوں نے نواز شریف کو مشورہ دیا ہمیں بلایا ہے تو دوسری اپوزیشن جماعتوں کو بھی دعوت نامہ بھیجا ہوتا۔۔۔ اگر وہ بلانے کے باوجود نہیں آئے تو دوبارہ بلکہ بار بار ان کے پاس جائیں کیونکہ یہ صرف آپ اور ہماری جماعت کا مسئلہ نہیں تمام قومی و صوبائی پارٹیوں کا ہے۔۔۔ نواز شریف کا فرض ہے سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں تا کہ ووٹ کی عزت کے حوالے سے پوری قوم کی سیاسی و عوامی قیادت تک آواز جائے۔۔۔

میاں افتخار حسین نے بڑے جذباتی لیکن مؤثر انداز میں دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنے بیٹے کی شہادت کا ذکر کیا ۔۔۔ کہا اس سب کے باوجود دہشت گردی کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کی خاطر ڈٹے ہوئے ہیں کیونکہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔۔۔ اثنائے تقریر انہوں نے ووٹ کی عزت پامال کرنے والی طاقت سے مخاطب ہو کر کہا نواز شریف کو جتنا دیوار کے ساتھ لگاؤ گے وہ اتنا ابھرے گا۔۔۔ تالیوں کی گونج تھی کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔۔۔ پختون تحفظ موومنٹ کے مطالبات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا اس کے تمام مطالبات میں سے ایک بھی غیر آئینی نہیں البتہ پیش کرنے کا انداز جذباتی ہے۔۔۔ ظاہر ہے جوان خون ہے۔۔۔ مگر ان سے بات تو کرو۔۔۔ انہیں پاکستان کے قومی دھارے میں لانے کی کوشش تو کرو۔۔۔ ان کی تحریک نقیب اللہ کے قتل کی وجہ سے اٹھی ہے۔۔۔ تعجب ہے اس کا مبینہ قاتل پولیس افسر راؤ انوار سپریم کورٹ کو خط لکھ کر مطالبے کرتا ہے۔۔۔ اسے ہوائی جہاز کے سفر کی سہولتیں پیش کی جاتی ہیں جبکہ نواز شریف کو حکم دیا جاتا ہے بذات خود ہماری عدالت کے سامنے حاضری دے۔۔۔ یہی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ راؤ انوار کی پشت پر کوئی بڑا نیٹ ورک اس کی حفاظت کر رہا ہے۔

مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی اور حاصل بزنجو صاحبان کے خیالات اس باب میں نپے تلے اور جانے پہچانے ہیں۔۔۔ سیمینار کے دوران اپنی تقاریر میں انہوں نے انہیں بڑے مؤثر طریقے سے پیش کیا اور واضح کیا ووٹ کو عزت نہ ملنے اور پاکستانی عوام کے فیصلوں کا احترام نہ کرنے کی بنا پر دنیا بھر میں ہمارے ملک کی جمہوری شناخت قائم نہ ہو سکی۔۔۔ ڈکٹیٹر کو اپنے آئینی اقتدار کو جواز مہیا کرنے کی خاطر اس ملک کو امریکہ کی باندی (Client) ریاست بنانا پڑا۔۔۔ اس کی جنگیں لڑنے پر مجبور ہوا۔۔۔ اندرون ملک یکجہتی نہ مل سکی وطن اپنی اصل جغرافیائی حالت میں جو قائم نہ رہ سکا سو علیحدہ۔۔۔ اس پر اتفاق رائے تھا اگر روز اوّل سے عوام کی حاکمیت تسلیم کر لی جاتی اور ووٹ کو عزت دے دی جاتی تو یہ دن شاید دیکھنے نہ پڑتے ۔۔۔ ان سیاسی رہنماؤں کی جو صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں تقریروں کے دوران میں سیمینار میں اندراندرون اور شہری سندھ کی نمائندگی کرنے والے کسی ایک بھی سیاسی رہنما یا مدبر کی عدم موجودگی کو محسوس کرتا رہا۔۔۔

سیمینار کے منتظمین کو بھرپور کوشش کے ساتھ اس امر کو یقینی بنانا چاہیے تھا تا کہ ووٹ کی عزت جیسے اہم موضوع کو مکمل قومی نمائندگی حاصل ہوتی۔۔۔ توقع رکھنی چاہیے کہ آئندہ ایسے مواقع پر ہر طبقہ فکر اور تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے اصحاب فکر و سیاست کو ایک سٹیج پر اکٹھا کرنے کا اہتمام کیا جائے گا۔۔۔ سابق اور تاحیات نا اہل قرار دیے جانے والے وزیراعظم نواز شریف کا صدارتی خطاب غیر جذباتی طرز استدلال اور ملکی تاریخ کے ٹھوس تاریخی حقائق سے بھرپور تھا۔۔۔ انہوں نے کہا کہ ستر برس کے دوران بتیس برس چار فوجی جرنیلوں کی حکمرانی میں گزرے اوسطاً ہر ایک کے حصے میں آٹھ سال آتے ہیں۔۔۔ سول اور منتخب وزرائے اعظم کو ملا کر اڑتیس سالوں کا عرصہ ملا۔۔۔ مگر ان میں سے کسی ایک کو بھی پانچ سال کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔۔۔ پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہا۔۔۔ نہ ووٹ کی عزت کا پاس و لحاظ نہ ملکی ترقی کی خاطر ٹھوس اور پائیدار نتائج برآمد ہوئے۔۔۔ آج یہ عالم ہے کہ انتظامی امور میں عدلیہ کی مداخلت اس قدر بڑھ چکی ہے حکومتی مشینری تقریباً منجمد ہو کر رہ گئی ہے۔۔۔ عام سرکاری ملازموں کے تبادلے اور تقرریاں کرنا مشکل تر ہو گیا ہے جبکہ عدالتوں کے اندر لاکھوں مقدمات زیر سماعت چلے آ رہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں۔۔۔ انہوں نے نوجوان نسل پر زور دیا کہ انہیں ووٹ کو عزت دو تحریک کا ہراول دستہ بننا ہو گا۔۔۔ 2018ء کے انتخابات میں جمہوری قوتوں کی کامیابی کو یقینی بنانا ہو گا۔۔۔ یہ سب کچھ درست مگر نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو اس امر پر بھی غور کرنا چاہیے کہ بلوچستان کابینہ میں اوپر سے مسلط کی گئی ’’انقلابی‘‘ تبدیلی اور سینیٹ کے چیئرمین کے طور پر نامعلوم شخصیت کو لا بٹھانے کی خاطر ووٹ کو عزت نہ دینے کے جو نئے ’’تخلیقی‘‘ تجربے کیے گئے ہیں ان کا سدباب کیسے ہو گا۔ آپ بے شک بھاری اکثریت لے لیجیے لیکن اگر پولیٹیکل انجینئرنگ کے نئے ہتھکنڈوں کے ذریعے اسے غیر مؤثر بنا کر رکھ دیا گیا تو اس کا علاج کون کرے گا۔

بشکریہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).