جمہوریت : حور کا مکھڑا ہے یا پری کا جھمکڑا


\"awais یہ عمر و عیار، ٹارزن کی کہانیوں اور ہمارے بچپن کا دور تھا۔جب پریوں کا مسکن کوہ قاف ہمارے ذہن کے ایک بڑے رقبے پر قابض تھا، وہی دور جب کوئی دیو کسی پری کو اپنے قابو میں کر لیتا تھااور پھر کوئی ہیرو زنبیل لئے ہوئے اس پری کو چھڑانے جاتا تھا ۔ یہی وہ دور تھا جب ہمارا تعارف ”جمہوریت“سے ہوا۔ گھر کے ادبی ماحول کی وجہ سے جب روز اخبارات میں جمہوریت کے قصے نظروں سے گزرنے لگے تو کافی عرصہ تک اس الجھن کا شکار رہا کہ” جمہوریت“ کون سی حور پری کا نام ہے اور وہ کونسے ”دیو“ اور ”جنات” ہیں جو ہر وقت اس کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ کوئی اس کی ٹانگ کھینچ رہا ہے تو کوئی بازو، کبھی اپوزیشن کہتی کہ ”ملک میں جمہوریت نہیں” تو میں پریشان ہوجاتاکہ جمہوریت ملک میں نہیں تو پھر کہاں چلی گئی، کہیں اسے راستہ تو نہیں بھول گیااور شاید کوئی ”دیو“ اسے اغوا کر کے تو نہیں لے گیا ۔ ابھی میں ان بھول بھلیوں میں پھنسا ہوا ہوتا کہ حکومتی ترجمان کہہ دیتے ” ملک میں جمہوریت ہی ہے”۔ اب میں سوچتا کہ اگر ملک میں نظر آنے والی جمہوریت ہی ہے تو پہلے صاحب کو جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ جھوٹ بولنا تو بری بات ہے اور اللہ نے اس کی بڑی کڑی سزا رکھی ہے۔ ابھی میں اللہ کی سزا پر غور کر رہا ہوتا کہ اپوزیشن کا اگلا بیان آ جاتا ” حقیقی جمہوریت کے حصول تک چین سے نہیں بیٹھیں گے“ اور میں سوچتا کہ اب تو کھلی جنگ ہو گی ۔ بات تو دھمکیوں تک پہنچ چکی ہے مگر یہ جمہوریت تو ایک ہے اور یہ اتنے سارے عاشق اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر کیوں پڑے ہوئے ہیں۔ شاید جمہوریت بہت خوبصورت ہو گی ۔ پھر ایک دن تو حد ہی ہو گئی اخبارات میں ایک اور بیان آ گیا کہ ”حکومت نے جمہوریت کا خون کر دیا ہے”۔ میرا تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ سارا دن پریشان رہا ۔ ٹھیک سے کھانا بھی نہ کھا سکا ۔ گھر والے الگ پریشان تھے کہ معلوم نہیں صاحبزادے کو کیا ہو گیا ہے مگر انہیں کیا پتہ کہ ”جمہوریت کا خون ہو گیا ہے”۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اوروں کی طرح مجھ پر بھی عقدہ کھلتا گیا کہ جمہوریت کوئی گل رخ، گل زیبا نازنین نہیں جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے  سب عشاق بیتاب ہیں۔ سارے بھنورے پریشان ہیں اور تمام پروانے اس کی لو پر جل مرنے کو تیارہیں بلکہ جمہوریت تو موم کی وہ ناک ہے جس صاحب اقتدار کا دل کرتا اسے لمبا کر دیتا ہے، جس کا دل کرتا ہے اسے گول کر دیتا ہے اور جو چاہتا ہے ہاتھ مار کر اسے بالکل ہی چپٹا کر کے اس کے نقش و نگار بگاڑ دیتا ہے۔

کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ شاید بچپن کا وہ خیال ہی ٹھیک تھا کہ جمہوریت واقعی ایک حور پری ہے جس کو کبھی سیاستدان عوامی مینڈیٹ، سول مارشل لاء، روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر باندی بنا لیتے ہیں۔ اس کے لباس کو تار تار کر دیتے ہیں۔ اس کو جسم کو زخموں سے چور چور کر دیتے ہیں۔ اسے دیوار میں چنوا دیتے ہیں، اسے تختے کے ساتھ باندھ کر چاقو کے ساتھ اپنے نشانے کی مشق کرتے ہیں یا کبھی کسی مداری کی طرح اسے ڈبے میں بند کر کے اس کے جسم سے تلواریں آر پار کر کے پھر اسے ڈبے سے باہر زندہ سلامت نکال کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کبھی کوئی اسلام کے نام پر اس جمہوریت کو برقعہ اوڑھا دیتا ہے، یہ برقعہ شریعت کے باریک نقشی دبکے کی وجہ سے بھاری ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے جمہوریت کا چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس برقعہ میں جمہوریت کا سانس لینا دوبھر ہو جاتا ہے ۔ کبھی اس کے مغربی آقاﺅں کے اشاروں پر پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے جہاں اسے اندھیر کوٹھڑی میں رکھا جاتا ہے۔ سورج کی کرن تک اس کوٹھڑی میں نہیں پہنچ سکتی ۔ وہ اسی قید تنہائی میں ہوتی ہے پھر کوئی اور آمر اسے انجانے اشاروں پر مغربی طرز محفلوں میں سرخی پاﺅڈر، غازہ لگا کر تھرکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اب اس سب کے بعد آخر میں یہ اہل اقتدار عدل و انصاف، امن و آتشی کے تمام بت توڑ کر کلہاڑی اس حور پری جمہوریت کے کاندھے پر رکھ کر سوال کرتے ہیں ان بتوں کو کس نے توڑا ہے۔ کس نے ہمارے خداﺅں کی آنکھیں پھوڑنے کا جرم عظیم کیا ہے۔

ہمارے گھر کے نزدیک ایک چھوٹا سا پارک ہے۔ ویسے تو شاید وہ ایک چوڑی، لمبی سے گرین بیلٹ ہے لیکن اس جمہوری دور میں یہ بھی غنیمت ہے کہ عوام جن کو رہنے کے چھت میسر نہیں ان کو تھوڑی سی جگہ پر یہ سبز گھاس میسر آ سکے جہاں پر صبح کے وقت بابے واک کر کے، اخبار پڑھ سکیں اور شام میں خواتین اور بچے ہریالی انجوائے کر سکیں۔ کچھ سالوں پہلے اسی پارک کے درمیان میں ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا، کسی بھی سرکاری اجازت نامے کے بغیر۔ آج وہ پارک دو حصوں میں بٹا ہے اور اس کے درمیان یہ مسجد قائم ہے۔ آدھی جگہ پر مسجد ہے اور آدھی جگہ پر امام مسجد کا گھر، نیچے مدرسہ۔ اس جمہوری ملک میں آپ ان امام مسجد سے جاکر یہ سوال نہیں کر سکتے کہ آپ نے پبلک پارک کے درمیان میں یہ مسجد کیوں قائم کی کیونکہ یہ براہ راست اسلام پر حملہ ہو گا، اسی ملک میں آپ کسی سیاستدان سے یہ سوال نہیں کر سکتے کہ آپ کا خاندان آج پاکستان کے دس امیر ترین خاندانوں میں کیسے شامل ہو گیا ہے ۔ تسلیم کہ آپ لوگ کاروباری جینئس ہیں، جس کاروبار میں ہاتھ ڈالتے ہیں وہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہے تو پھر آپ کو تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ اس ملک پر حکومت کرتے ہوئے ہو گیا ہے آپ اس ملک کے مسائل کیوں حل نہیں کر پائے۔ آپ سیاستدان سے یہ سوال نہیں کر سکیں گے کیوں کہ یہ براہ راست جمہوریت پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اسی طرح آپ کسی جنرل سے یہ سوال نہیں کر سکتے کہ آپ کس قانون کے تحت حکومت میں آئے، آپ کی خاندانی جائیداد میں اضافہ کیسے ہوا اور آپ کے پاس لندن میں فلیٹس خریدنے کے لئے  رقم کہاں سے آئی۔ کیونکہ سوال ان جنرل سے ہو گا لیکن حملہ براہ راست آرمی پر تصور کیا جائے گا۔

قیام پاکستان کے بعد اب تیسری نسل معاشرے میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے  تیار کھڑی ہے کہ یہی دستور ہے، یہی قانون قدرت ہے ۔ بارہا مذاکروں، سیمیناروں میں ہم نے اپنے بزرگوں اور پچھلی نسل کے پرورداﺅں کو یہ کہتا سنا ہے کہ ہم اگلی نسل کو کیا جواب دیں گے کہ سقوط ڈھاکہ کیسے ہوا، 65ء کی جنگ کیسے ہوا۔ قائد اعظم کے گدی نشینوں کے ساتھ اس ملک میں کیا سلوک ہوا، وغیرہ وغیرہ۔ مگر ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ اب ہمیں اپنی جھوٹی نمود اور نمائش کے بت کو سر بازار پھوڑ کر کلہاڑا اپنے کندھے پر رکھ لینا چاہیے۔ قوم کو یہ اختیار دینا چاہیے کہ وہ خود اپنے اندر سے خود سے بہتر چن لیں۔ جو جمہوریت کو پاکیزہ لباس پہنائے۔ اسے خوشبو لگائے اور اس کے زخم دھو کر اسے اس کے مقام عظیم پر فائز کرے اور اس کے ہر حکم کو سر آنکھوں پر رکھے۔ قوم کے ہر فیصلے کو سر آنکھوں پر رکھنا ہی جمہوریت ہے۔ عوام کا اپنی مرضی سے دھاندلی کے بغیر حکمرانوں منتخب کرنے کا حق ہی جمہوریت ہے۔ جو عوام کو ملنا چاہیے۔ یہی عوام کی خواہش ہے، یہی ہماری خواہش ہے، یہی بابائے قوم کا خواب تھا اور جمہوریت واقعی بڑی خوبصورت ہے شاید حوروں سے بھی زیادہ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments