چیف جسٹس سے از خود نوٹس لینے کی اپیل


نوٹ : ( اس تحریر کے حوالے سے تمام تر ثبوت فراہم کیے جائیں گے جس کے لئے چیف جسٹس صاحب سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ از خود نوٹس لے کر بلوچستان کی عوام کو ظلم کی چکی میں پسنے سے نجات دلائے )

قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان کی عوام انتظامیہ کی کرپشن اور رشوت گردی سے تنگ آچکے ہیں بدقسمتی سے بلوچستان میں میڈیا کا کوئی وجود ہے ہی نہیں جو ایسے کرپٹ ترین آفیسران کی کرپشن اور رشوت گردی کو بے نقاب کرے نہ سیاسی نمائندگان عوام کی داد رسی کرتے ہیں ایسی صورتحال میں اگر چند باہمت لوگ عدلیہ کا رُخ بھی کریں تو انتظامیہ کے کرپٹ آفیسر انصاف فراہم کرنے والے جج صاحبان سے ایک بکرے کی ہڈی پر انصاف خرید لیتے ہیں جس کے سبب وسیع پیمانے پر بلوچستان کی عوام میں مایوسی پھیل چکی ہے تنگ آکر کچھ لوگ بغاوت کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور کچھ مزید ظلم کی چکی میں پسنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں پہلے اپنے ہونٹ سی رکھنے کی بدولت ظلم کی وہ شدت نہیں ہوتی مگر جب ایسے کرپٹ آفیسران کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں جب انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سے انصاف نہ ملنے کے بعد ظالم کا ظلم غرور بن کر غریبوں پر برستا ہے اس طرح غریبوں کی زندگیوں کو عذاب بنا دیا جاتا ہے انسان اگر مرنا چاہے تو موت نہیں آتی اور اگر جینا بھی پڑے تو موت سے بھی بدتر زندگی جینا پڑتی ہے

بلوچستان کے شہر سبی میں ایک کرپٹ ترین آفیسر موجودہ تحصیلدار مسمی تحصیلدار نصیر نے عوام کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں عوام داد رسی کے لئے تحصیل میں پہنچتے ہیں تو ایف آئی آر درج کرنے کی بولی لگتی ہے کسی پر جھوٹا کیس کرکے ذلیل کرنا ہو تحصیلدار کے لئے معمول کا کام ہے حیرت ہے سبی کا ڈی سی بھی تحصیلدار کے خلاف ایکشن نہیں لیتا یا پھر لے نہیں سکتا کئی بیگناہ لوگوں پر جھوٹے مقدمات کرکے ان کی زمینیں اپنے حمایتی لوگوں کے نام کر دی گئیں اور کئی بیگناہ لوگوں کو حوالات میں بند کرکے کیس واپس لینے پر مجبور کیا گیا، بہت سوں کو جھوٹے کیسوں میں عدالتوں کی دھول چٹائی گئی مگر حیرت ہے کوئی بھی شخص تحصیلدار کیخلاف مقدمہ عدالت میں لے جائے تو جج صاحبان بھی ڈنڈی مارتے ہوئے وقت کے جابر تحصیلدار کو مقدمے سے بری الذمہ قرار دیتے ہے جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے ایک بلوچستان ہے جہاں کا عدالتی نظام غریبوں کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے غریبوں کو ذلیل کر رہا ہے غریب بیچارا بیگناہ ہونے کے باوجود جیلوں میں سڑتا رہتا ہے اور اپنی تمام تر جمع پونچی اپنے جان کی خلاصی کے لئے کیسوں پر خرچ کردیتا ہے غربت کے مارے یہ لوگ کھل کر جی سکتے ہیں نہ اچھی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور نہ کسی ظلم کیخلاف بولنے کی ہمت رکھتے ہیں

1969 میں ون یونٹ کا خاتمہ کرکے بلوچستان کو صوبے کی حیثیت دی گئی جس کے بعد موجودہ عدالتی نظام کا ڈھانچہ وجود میں آیا مگر بدقسمتی سے تب سے لے کر آج تک کرپٹ عناصر کا عدالتی نظام پر اثر و رسوخ چھایا ہوا ہے جس کے سبب کرپٹ تفتیشی نظام عوام الناس کا خون چوس رہا ہے اور یوں عوام پر ناختم ہونے والے ظلم کی داستان جاری ہے عدالتوں سے غریب عوام کو انصاف ملنا محال ہوگیا آپ سن کر حیران ہوں گے کہ جس تحصیلدار یا آفیسر شاہی کیخلاف عدالت میں مقدمہ چل رہا ہوتا ہے جج اسی آفیسر کو تفتیش کا حکم جاری کرتا ہے اس بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ آفیسر اپنے خلاف کیا تفتیش کرے گا اور عدالت میں کیا رپورٹ پیش کرے گا یوں سمجھیں اندھیر نگری ہے وہ غریب عوام جو عدالتوں کی پیچیدگیوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے وہ خاک انصاف حاصل کر پائیں گے

آخر میں صرف اتنا کہنا ہے اگر حالات کو سنجیدگی سے نہ دیکھا گیا ایسے واقعات کو اہمیت نہ دی گئی اور کرپٹ آفیسران کیخلاف ایکشن نہ لیا گیا تو آنے والے دنوں میں بلوچستان کے حالات اور بھی بگڑ سکتے ہیں جس کی تمام تر ذمہ داری کرپٹ حکام، رشوت خود انتظامیہ اور آفیسر شاہی پر عائد ہوگی عوام میں بڑی تیزی سے مایوسی کی پھیلتی لہر پر قابو پانے کے لئے کرپٹ عناصر سے نجات دلانے ہوگی اور بیگناہ لوگ کی آواز پر رشوت خور اور جھوٹے مقدمات میں غریبوں کو پھنسانے والے آفیسران کیخلاف فوری ایکشن لینا ہوگا ورنہ جنہوں نے اپنی تمام تر جمع پونچی جھوٹے مقدمات پر لگانے کے باوجود انصاف نہیں لے سکے ایسے غریب لوگوں کے پاس اب بیچنے کو صرف اپنی زندگیاں باقی ہیں اس لیے عوام کے مطالبات کو سنجیدہ لیتے ہوئے کرپٹ تحصیلدار کیخلاف فوری ایکشن لیا جائے تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکے۔

چیف جسٹس صاحب آپ کی آسانی کے لئے دو کیسز کا حوالہ دے رہا ہوں آپ ان کیسز پر کرپٹ تفتیشی آفیسران کو بلائیں اور ان سے پوچھیں کہ انہوں نے کیسے تفتیش کرکے بیگناہ لوگوں کو حوالات میں بند کیا مزید بھی ہر طرح کے ثبوت پیش کیے جائیں گے عوام اب عدالتوں کے چکر نہیں لگا سکتے پسماندہ صوبے کے غریب لوگ بیچارے ڈسٹرکٹ کورٹ پر اپنا تمام مال و متاع خرچ کر دیتے ہیں اور ہائی کورٹ میں انصاف کے حصول کے لئے اپیل بھی دائر نہیں کرسکتے تو وہ غریب سپریم کورٹ تک کیسے پہنچ پائیں گے جہاں تک پہنچتے پہنچتے بیچارے غریبوں کو اپنے گھر تک نیلام کرنا پڑتے ہیں اپنے بچوں کی تعلیم قربان کرنا پڑتی ہے اس ظلم کا شکار فردِ واحد نہیں خاندان کے خاندان نسلوں کی نسلیں علاقوں کے علاقے ظلم کا شکار ہیں اب تاخیر کرنا حالات کو بگاڑ کی طرف دعوت دینا ہے اب عوام کی بے بسی جواب دے چکی ہے۔

مقدمہ نمبر 22/2017 لیویز تھانہ تلی ضلع سبی اور
مقدمہ نمبر 24/2017 لیویز تھانہ تلی ضلع سبی کی از سر نو تفتیش کی جائے

چیف جسٹس صاحب آپ کی آسانی کے لئے دو مقدمات کا حوالہ دیا جارہا ہے آپ سے درخواست ہے کہ ان کیسز پر سو موٹو نوٹس لیں چیف جسٹس صاحب یہ بلوچستان کے غریب عوام کی درخواست ہے امید ہے آپ بلوچستان میں ہونے والی نا انصافیوں کیخلاف ضرور ایکشن لیں گے۔

ایک مظلوم و مجبور بے بس بلوچ کی فریاد

محمد امین مگسی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).