پھر سے سرائیکی (جنوبی پنجاب؟) صوبہ بنانے کا مطالبہ عام


پنجاب کو پنجاب کیوں اور کب کہا جانے لگا، اس بارے میں تو مورخ ہی جانتے ہوں گے البتہ عام شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ فارسی زبان کا لفظ ہے جو مغلوں سے پہلے ہندوستان پر حملہ آور ہونے والے افغان جنگجووں نے ہی متعارف کروایا ہوگا یعنی جہاں پانچ دریا ہیں۔

سکھ مذہب وضع ہوا، ان کی مغلوں سے ٹھن گئی خاص طور پر اورنگ زیب عالمگیر سے، یوں انہوں نے اپنی زبان، جسے وہ پہلے سے ہی پنجابی کہنے لگے تھے کی وساطت سے اپنی خواہش کردہ سرزمین کو بھی پنجاب نام دے دیا تھا۔

جب سکھ قابض ہو گئے تب پنجاب کابل سے سندھ تک پھیلا ہوا تھا، کشمیر بھی پنجاب کا حصہ تھا اور ملتان بھی، بلکہ پنجاب تبت کے مشرق تک تھا۔
انگریز نے سکھوں کی حکومت تمام کرنے کے بعد پنجاب کے رقبے کو محدود کر دیا تھا۔ ہندوستان کی حکومت نے مستحکم ہونے کے بعد اپنی طرف آنے والے پنجاب، جسے پاکستان میں بسنے والے پنجابی عموما مشرقی پنجاب کہتے ہیں، کو تین ریاستوں میں منقسم کر دیا یعنی پنجاب، ہریانہ اور ہماچل پردیش میں۔

پاکستان کے حصے میں آنے والا مغربی پنجاب بھی پنجاب کہلایا کیونکہ اب یہ ایک نئے آزاد ملک کا حصہ تھا۔ یہ پنجاب راولپنڈی سے آگے اٹک سے لے کر ملتان سے بہت دور رحیم یار خان تک پھیلا ہوا ہے۔ کہیں جا کر صادق آباد سے آگے اوباڑو سے صوبہ سندھ شروع ہوتا ہے۔ ایک دور میں پنجاب کے اس علاقے میں ایک علیحدہ ریاست ہوا کزتی تھی بہاولپور اور اس ریاست میں بولی جانے والی زبان کو ریاستی کہا جاتا تھا۔ میرا قصبہ علی پور بھی ریاست بہاولپور کا حصہ تھا، اس لیے ہم جو زبان بولتے تھے وہ ریاستی کہلاتی تھی۔

ملتان سے جھنگ تک کی زبان کو ملتانی۔ جھنگ سے آگے کی زبان کو جھنگوچی اور اسی طرح دریا خان سے آگے بولی جانے والی زبان کو ڈیرہ وال کہتے تھے۔
مغربی پاکستان کے صوبوں کو ایوب خان نے ون یونٹ میں ضم کر دیا تھا۔ چند برسوں بعد ملتان میں ہوئی ایک ادبی میٹنگ میں تمام لہجوں کو اکٹھا کرکے ایک نام دے دیا گیا یعنی سرائیکی جو سندھی زبان کے لفظ سے ماخوذ تھا یعنی سندھ کے ایک سرے کی زبان۔

تحریک اگر چلی تھی تو ریاست بہاول پور کو ایک علیحدہ یونٹ بنائے جانے کی۔ سرائیکی یونٹ کی کوئی بات کہیں نہیں تھی۔ البتہ تمام لہجوں کو ایک نام سرائیکی بخشے جانے کے بعد بالائی پنجاب کے دانشوروں نے شدو مد سے ثابت کرنا شروع کیا کہ سرائیکی زبان میں شامل کیے جانے والے سارے لہجے درحقیقت پنجابی زبان کے ہی لہجے ہیں۔ سرائیکی نواز دانشور ڈٹ گئے کہ ہماری زبان یکسر مختلف زبان ہے۔ ان کی دلیل تھی کہ سرائیکی زبان کی گرائمر پنجابی زبان کی گرائمر سے مختلف جبکہ سندھی اور فارسی کی گرائمر کے زیادہ نزدیک ہے جیسے لفظ کھایا کے پنجابی متبادل لفظ کھادا کی گردان یوں ہوگی:

”میں کھادا، توں کھادا، اوس نے کھادا، اونہاں نے کھادا“
اس کے برعکس سرائیکی زبان کے متبادل لفظ کھاون کی گردان یوں ہوگی:
” کھادم، کھادس، کھدوس، کھدونے“ یعنی فاعل فعل میں ضم ہو جاتا ہے۔

معاملہ زبان کا نہیں تھا بلکہ سرائیکی کے مختلف لہجوں کو جس زبان یعنی پنجابی کے لہجے بتایا جاتا تھا، اس زبان پنجابی کے بولنے والوں کی بالا دستی کا تھا۔ سکھوں سے انگریزوں تک نے شمالی یا بالائی پنجاب کے لوگوں اور علاقوں کو اہمیت دی تھی بلکہ پنجابی بولنے والے سرائیکی علاقوں میں بہت بڑے بڑے زمیندار بنا دیے تھے۔ کھر، گورایا، ہنجرا مثالیں ہیں۔ باقی بڑے زمینداروں میں بلوچ سردار، پیر صاحبان اور سید جیسے گیلانی، قریشی، مخدوم وغیرہ تھے جنہوں نے انگریزوں کے علاوہ سکھوں اور مغلوں سے بھی فیض پایا تھا۔

صوبہ بہاولپور کی تحریک چونکہ ایک محدود علاقے کے لیے تھی اس لیے تاج لنگاہ اور زمان جعفری نے سرائیکی صوبہ کی تحریک شروع کی تھی۔ یہ تحریک لوگوں میں کچھ زیادہ مقبول نہیں ہو سکی تھی۔

کسی بھی علاقے کی شناخت اس علاقے کی ثقافت ہوا کرتی ہے۔ زبان بھی ثقافت کا ایک حصہ ہے۔ سرائیکی علاقے کی ثقافت کی پہچان کو عام کرنے اور مقبول بنانے کی خاطر تونسہ کے استاد فدا حسین گاڈی، ملتان کے مظہر عارف، بہاولپور کے عرفان، ڈیرہ اسماعیل خان کے مظہر نواز اور کوٹ ادو کے ڈاکٹر مجاہد مرزا نے باقی بہت سے دوستوں کے ساتھ مل کر ”سرائیکی لوک سانجھ“ نام سے ایک تنظیم کی داغ بیل ڈالی تھی۔

اس تنظیم کے روح رواں گاڈی صاحب تھے، فعال رہنما مظہر عارف تھے۔ میں اپنے طور پر اپنے علاقے سے اس تنظیم کے حق میں جو کچھ کر سکتا تھا کیا کرتا تھا۔ شروع کے اجلاس جام پور اور تونسہ کی ایک بستی غالباً سوکڑ میں ہوئے تھے۔ کوٹ ادو سے میرے ساتھ مظہر گورمانی، نعیم چشتی اور عابد چوہدری شریک ہوتے تھے۔ چند سالوں بعد عاشق بزدار صاحب کی وساطت سے ان کے گاؤن مہرے والی میں سرائیکی میلہ منایا جانے لگا۔

گاڈی صاحب جنہیں سب وہاں کی زبان میں استاد جی ہی کہتے مگر میں اپنی مادری زبان اردو کے توسط سے ماسٹر صاحب کہتا، زور دیا کرتے تھے کہ لوک سانجھ کو سرائیکی علاقے کی ثقافت اجاگر کرانے کا ذریعہ ہونا چاہیے، اسے سیاست کا حصہ نہ بنایا جائے کیونکہ اس طرح اس تنظیم کے مخالف پیدا ہو جائیں گے۔ ان کی ملتان میں زیادہ ملاقاتیں زمان جعفری سے ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ بحث کے دوران سرائیکی صوبہ کی مخالفت نہیں کرتے تھے مگر حق میں بھی کوئی بات نہ کرتے۔
میں گاڈی صاحب کو اپنا اتالیق سمجھتا ہوں جیسے پٹھانے خان کو۔ کیونکہ ان دونوں سے میرا سیاسی تعلق نہیں تھا۔ سیاسی تعلق اعزاز نذیر اور جام ساقی سے تھا۔

میں 1991 میں ملک سے چلا گیا تھا۔ مظہر عارف نے اسلام آباد میں ایک این جی او بنا لی تھی۔ گاڈی صاحب انتقال کر گئے تھے۔ بہت عرصے بعد مظہر نواز سے ملاقات ہوئی تو وہ سرائیکی صوبہ تحریک میں شامل ہو چکا تھا۔ ساتھ ہی سرائیکی لوک سانجھ میں بھی فعال تھا۔ میرے ٹوکنے پر تھوڑا سا کھسیانا ہوا پھر دلائل دینے لگا۔ خوش رہو بھائی، بناؤ سرائیکی صوبہ، مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔

ابھی چند دنوں پہلے سرائیکی صوبہ کی جگہ مشرف کے دور میں ابھرنے والے خوشحال سیاستدان خسرو بختیار نے، بہت بڑے مگر نسبتاً روشن خیال زمیندار بلخ شیر مزاری، ایک اور بڑے زمیندار سیاستدان نصراللہ خان دریشک اور دوسروں کے ساتھ مل کر ”جنوبی پنجاب صوبہ محاذ“ کے نام سے ایک پریس کانفرنس میں ایک علیحدہ انتخابی فورم بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ہمارے دوست سرائکی صوبہ کے مطالبے کے لیے فعال ہو چکے ہیں۔ زبردست۔

صوبے کیوں بنائے جاتے ہیں، ظاہر ہے سرکاری انتظامی معاملات کے بوجھ کو کم کیے جانے کی خاطر۔ صوبہ بنانے میں ہئیت مقتدرہ کا فائدہ ہوتا ہے۔ مگر درحقیقت آصف زرداری کے عہد میں اٹھارویں ترمیم منظور ہو جانے کے بعد این ایف سی ایوارڈ کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل کیے گئے۔ ان پر مرکز یا وفاق کی گرفت ڈھیلی کی گئی، بعض معاملات میں صوبوں کو یکسر خود مختار قرار دیا گیا۔ کچھ وسائل بھی ان کی دسترس میں دے دیے گئے۔ اگرچہ ان تمام سہولیات پر ابھی مکمل عمل درآمد نہیں ہو پارہا مگر ایک آس ضرور بندھی ہے کہ صوبے اپنے طور پر اگر کرنا چاہیں تو اپنے حالات، درست کر پا سکیں گے۔

ایک طرف ہمارے دوست کہتے ہیں کہ صوبہ بنوائے جانے سے پہلے، صوبہ بن جانے کے بعد کے یعنی پوسٹ پروونس معاملات پر بحث ہونی چاہیے تو دوسری طرف صوبہ بنوائے جانے کی تحریک کو بھی فعال تر کرنے کے حق میں ہیں۔
صوبہ بننے سے ایک نیا گورنر بنے گا، ایک نیا وزیراعلٰی، کچھ بیوروکریٹ زیادہ ہو جائیں گے مگر ان پر حالات کو درست کرنے کی خاطر زیادہ زور ڈالا جا سکے گا، شاید صوبہ کے حامیوں کی یہ منطق ہو۔

مگر سیاست کے گرگے عوام کی سیاست کرنے والوں سے زیادہ تیز بھی ہیں، زیادہ با اثر بھی اور کائیاں تو وہ ہیں ہی۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ دراصل پہلے سے موجود سیاسی پارٹیوں کی گرفت کو کمزور کرنے کی خاطر ہے۔ صوبہ بنے گا تو مظہر نواز تو گورنر نہیں بنایا جائے گا، خسرو بختیار شاید بن جائیں۔ یوں سٹیٹس کوو برقرار رکھے جانے کی غرض سے نئی طرح کی کوششیں شروع ہیں۔ اگر ہمارے دوست جانتے بوجھتے بھی اس عمل میں معاون ہو گئے تو پتہ نہیں وہ خود کو کیونکر معاف کر پائیں گے۔

سرائیکی صوبہ بنائیں گے تو پوٹھوہار، ہزارہ نام کے صوبے بھی بنانے ہوں گے۔ بیوروکریسی، فوج، اور سیاست میں شامل بالائی پنجاب کے لوگ، اسی طرح خیبر پختونخواہ کے بیوروکریٹ، جرنیل اور سیاستدان بھی نئے صوبے بنائے جانے کی مخالفت کریں گے۔ اردو بولنے والے کراچی حیدرآباد کو ملا کر صوبہ بنائے جانے کا مطالبہ کریں گے۔ یوں لگتا ہے کہ کوئی نیا صوبہ بشمول سرائیکی یا جنوبی پنجاب کے نہیں بن پائے گا۔

مسلم لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، تحریک انصاف ہو یا جنوبی پنجاب کو صوبہ بنائے جانے کے حق میں ہونے کا اعلان کرنے والی کوئی بھی پارٹی، مانیں نہ مانیں نئے صوبہ کے مطالبے کو انتخابی سیاست کے طور پر برت رہے ہیں۔ انتخابات میں جیسا کہ صاف دکھائی دے رہا ہے کوئی پارٹی بھی اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی یا کسی کو اکثریت حاصل کرنے نہیں دی جائے گی چنانچہ مخلوط حکومت صوبے کے معاملے کو ایک بار پھر پس پشت ڈال دے گی۔

سرائیکی صوبہ بنانے کا مطالبہ، دوستوں کو ضرور کرنا چاہیے، حکومت سے نہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں سے کہ وہ یہ مطالبہ تسلیم کیے جانا اپنے منشور کا حصہ بنا کر پیش کریں بصورت دیگر کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).