سندھ یونیورسٹی کا نوٹیفکیشن اور اردو میڈیا کا تعصب


ہم سب پاکستانی ہیں اور چودہ اگست سن سنتالیس کے بعد پاکستان ہماری پہچان بنا ہے، ہماری شناخت کے بنیاد ہم پاکستانی قوم کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، پاکستان بننے کے بعد اردو کو وطن عزیز کی قومی زبان کا درجہ دیا گیا، اس سے پہلے یہ زبان اس خطے کے چاروں صوبوں میں کہیں بھی رائج نہیں تھی، اور اس سے ہمارا کوئی دور دور کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔

سندھ کی سرکاری زبان سندھی تھی، پنجاب میں پنجابی، بلوچستان میں بلوچی بولی جاتی تھی اس طرح خیبر پختونخواہ تب کے سرحد میں پشتو اور بھاولپور و جنوبی پنجاب میں سرائٰکی زبان مروج تھی یہ سب تاریخی زبانیں ہیں، آزادی کے بعد اردو زبان ہم پر مسلط کی گئی، یہ مہمانوں کی طرح آئی اور ہم پر حکمران بن کر بیٹھ گئی، لیکن پھر بھی نئے دیس کے تمام پرانے باسیوں نے اس زبان کو قبول کیا گیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ اردو کو قومی زبان کے اعلان کرنے پر بنگال میں فسادات پھوٹے تھے پر وہ نفرت ایک جدا ملک کی شکل اختیار کرگئی لیکن ہم اب بھی اسی ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ زبان ہوگی تو ایک ہوگی۔

یہ سب بیان کرنے کا مقصد اور کچھ نہیں بس یہ ہی ہے ہمارا رویہ اب بھی نہیں بدلے، ہم نے کچھ مفروضات، کچھ تشریحات اور کچھ بیانیے طیی کردیے ہیں، اگر ان میں ترمیم یا تبدیلی کا سوچا یا بولا جاتا ہے تو ملک کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں، اور کہرام سا مچ جاتا ہے، اردو زبان کے حوالے سے اردو میڈیا میں بھی اس طرح کہرام مچ گیا جب سندھ یونیورسٹی جامشورو نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا۔ جس میں اور کچھ نہیں بس یہ کہا گیا ہے سائںن بورڈ سندھی اور انگریزی زبان میں لگائے جائیں۔ پاکستان میں زبانوں کا معاملہ حساس ہے اور سب سے زیادہ حساس اشو سندھی زبان کا ہے، ملک کی پانچ بڑی زبانوں سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتو اور سرائیکی کو قومی زبان کا درجہ اس لیے نہیں دیا جاتا کہ پتا نہیں کس نے کہہ دیا ہے کہ اردو زبان سے چھیڑ چھاڑ کی تو وفاق تتر بتر ہوجائے گا، سرکار تو سرکار ہمارا قومی کہلانے والا میڈیا دو ہاتھ آگے ہے، جس طرح سپریم کورٹ نے دو دن پہلے درست کہا تھا کہ میڈیا پر اظہار راء کے حوالے سے جھوٹی اور بے بنیاد خبریں چلی ہیں اسی طرح سندھ یونیورسٹی کے نوٹیفکیشن کے حوالے سے بھی اس اردو میڈیا نے نہ صرف جھوٹی خبریں چلائیں، لیکن ان کا تعصب کھل کر سامنے آیا ہے۔

سندھ یونیورسٹی جامشورو صوبہ سندھ کی مادرعلمی کہلائی جاتی ہے، اس یونیورسٹی نے ماضی میں جتنے زخم کھائے ان کو ابھی تک نہیں بھرا جا سکا، آزادی سے پہلے ہندو بھائی اس یونیورسٹی بننے کے مخالف رہے پھر جو بھائی ان کی جگہ سندھ میں آکر بسے ان کو بھی یہ یونیورسٹی آج تک ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ جنرل ضیا الحق کے دور آمریت میں ساری فورسز بحالی جمہوریت کے متوالوں کو روندنے اور پکڑدھکڑ میں مصروف تھی تو سندھ میں ڈاکووں کی اہم پناہ گاہ یہ یونیورسٹی تھی، یہ جنرل ضیا الحق کی مھربانی تھی جس نے سندھ کی تعلیم کا اپنے ہاتھوں سے بیڑا غرق کیا اور پھر آج تک جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے وہ نیا پار لگانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ایک طرف ایم آرڈی موومنٹ چل رہی تھی دوسری طرف سندھ یونیورسٹی کے ہاسٹلز بدنام زمانہ ڈاکو کشمیر خان اور اس کے ساتھیوں کے حوالے تھے، پھر طالب علموں کا ساتھی طلبہ کے ہاتہوں قتل بھی تو ایک معمول تھا، اساتذہ کی سیاست اور احتجاج کی وجہ سے اس یونیورسٹی کو آٹھ آٹھ ماہ بند ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، لیکن اب جب کہ یونیورسٹی اپنے قدموں پر کھڑی ہو گئی ہے تو اردو میڈیا کا تعصب اس کے آڑے آ گیا ہے، اور یونیورسٹی کے خلاف ایک نیا محاذ کھڑا کیا جا رہا ہے۔

سندھ یونیورسٹی کا نوٹیفکیشن اس طرح کا انتظامی فیصلہ ہے جس طرح کا کراچی یونیورسٹی سمیت صوبائی دارالحکومت کے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ خود کرتی ہے، لیکن ہمارا اردو میڈیا سر پکڑ کر بیٹھ گیا ہے کہ بڑی تباہی ہو گئی، اوراردو پر پابندی لگادی گئی ہے، اب کیا بنے گا، یہ وہ، فلاں۔ یہ ایک جھوٹی، بے بنیاد اور نہ صرف تعصب کے بنیاد پر چلائی جانے والی خبر ہے لیکن خبر کو یہ رنگ دینے سے نفرت کو ہوا دی جا رہی ہے۔ اردو میڈیا کے اکثر دفاتر سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ہیں، ان کی سندھی زبان کے لیے خدمات بھی گنی جانی چاہیں، اردو میڈیا کے بڑے چینل جب بھی کراچی کا نام لیتے ہیں تو یہ کہہ کر خبر چلاتے ہیں کہ“ کراچی اور سندھ میں بارش کا امکان“۔ “کراچی اور سندھ میں آج موسم خوشگوار رہیے گا“، اگر کراچی اور سندھ ہے تو پھر اس میڈیا کو یہ بھی کہنا چاہیے کہ“ لاہور اور پنجاب میں آج سی این جی اسٹیشن بند رہیں گے“، پشاور اور کے پی کے میں پیاز مہنگا ہوگیا، پھر یہ بھی کہ اسلام آباد اور پاکستان کی اسٹاک ایکسچنج میں مندی جا رجحان، یا پھر کوئٹہ اور بلوچستان میں راستے بلاک۔

میڈیا لاہور سمیت پنجاب، پشاور سمیت پورا کے پی کے کہتا ہے لیکن کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی بات اصل میں کراچی کو سندھ سے الگ کرنے والی ذھنیت کی عکاس زبان استعمال ہوتی ہے، ایسا ظاہر کیا جاتا ہے جیسے کراچی سندھ سے الگ کوئی اور صوبا یا علائقہ ہے، پھر اسی اردو میڈیا کی حالت یہ کہ اس میں اسٹاف کا اندازہ لگا لیں کتنے سندھی رپورٹر یا صحافی ہیں، آٹے میں نمک کے برابر۔ بدین سے گھوٹکی تک اکثر میڈیا کے نمائندے سندھی زبان والے نہیں ملیں گے۔ یہ قومی کہلانے والے چینل ہی نہیں ایم کیو ایم بھادر آباد والے بھی سر پکڑ کر رونا رہے ہیں، اور ان کو اردو میڈیا پروجیکشن دے رہا ہے، بے بنیاد بات پر اس قسم کا رد عمل سندھ اور سندھی زبان سے نفرت کا کھلا اظہار ہے۔

اردو میڈیا اور کراچی کے ایم کیو ایمی بھائی سندھ یونیورسٹی کے ایک نوٹیفکیشن پر اردوکا جنازے دفنانے کی تیاری کر رہے ہیں لیکن پھر تب کیوں خاموش رہے جب کل ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی میں ایک سندھی ڈاکٹر کو انتظامیہ نے صرف اس بات پر شوکاز جاری کیا تھا کہ اس نے مریض سے سندھی زبان میں بات کی تھی، وہ بھی تو سندھی زبان کے خلاف سازش تھی تب اردو میڈیا اور ایم کیو ایم کیوں خاموش تھی، ایم کیو ایم نے بھی مختلف اوقات میں سندھ میں کوئی دس برس حکومت کی ہے، ان کے پاس صحت، تعلیم ثقافت کی وزارتیں رہی ہیں، انہوں نے سندھی زبان کی ترقی اور ترویج کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان کا بھی سب کو پتہ ہے، ایم کیو ایم کی حکومت میں کراچی کے تعلیمی اداروں میں صرف کراچی میں بسنے والوں کو داخلے دیے جاتے تھے، نو انٹری فار سندھیز، یہ عام تھا، ہمارےسندھی ڈاکٹر دوستوں کو کراچی سے باہر نکال کر دور دراز علائقوں میں پھینکا گیا، یونیورسٹی کے ایک نوٹیفکیشن سے اردو زبان کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے لیکن کراچی کے کتنے تعلیمی ادارے ہیں جہاں سندھی زبان میں تعلیم دی جا رہی ہے؟ ، خود کراچی یونیورسٹی میں کتنے بورڈ سندھی میں ہیں؟

سندھ کی تہذیب، تمدن اور سندھی زبان کتنی قدیم اور کب سے اس خطے میں رائج ہے، اس بحث میں پڑے بغیر میں یہ ضرور کہوں گا کہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں میں سے ترقی یافتہ سندھی زبان ہی ہے، سندھی زبان میں کے ٹی این سمیت آٹھ سیٹلایٹ چئنل اور دو سے تین ڈجیٹل چینل کام کر رہے ہیں، سندھ میں کاوش سمیت تیس سے زائد سندھی روزنامے جاری ہوتے ہیں، دس کے قریب سندھی میگزین ہیں، میں اس خیال کا ہوں کہ وطن عزیز میں جتنی بھی زبانیں ہیں ان کو ایسے ہی ترقی کرنی چاہیے، سندھ نے سندھی زبان کی ترقی کے لیے عملی جدوجھد بھی کی ہے، ماضی میں شھید فاضل راہو نے ایک تاریخی تحریک چلائی تھی کی ووٹر فھرستیں سندھی میں شائع ہونا چاہیں، اسی طرح شناختی کارڈ بھی سندھی میں جاری کرنے کی تحریک کامیاب ہوئی۔

میں سندھی میڈیا سے وابسطہ ایک ورکر ہوں، پندرہ برسوں سے اسلام آباد میں کام کر رہا ہوں، سندھی کے ساتھ میں اردو میں مضامین اور بلاگ لکھتا ہوں، کاش مجھے پشتو اور پنجابی بھی اتنی آتی کہ میں ان زبانوں میں بھی لکھ سکتا، مقصد یہ کہ پاکستان میں جتنی بھی زبانیں بولی جاتیں ہیں وہ سب ہماری زبانیں ہیںِ ان سب سے محبت کرنے چاہیے، یہ بات ہمارے کراچی والے بھائیوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اب کافی ہوگیا اب اردو کے جنازے والے مفروضے سے نکلو، جس دھرتی نے آپ کو پناہ میں رکھ کر پہچان دی ہے اس کی زبان سمجھنا اور بولنا تو بہت ضروری ہے، سندھ میں رہنا ہے تو خود نہیں کچھ سیکھے اپنی نسل کو سندھی سکھائیں، اگر سکھاتے نہیں تو نفرت نا کریں۔ انتہاپسندی کے لازمی نہیں اس میں ملایت کا عنصر ہو، بھارتی ہندو انتہاپسند ملاں عمر سے بھی خطرناک ہیں، اس طرح ہم خود کچھ ایسے مفروضوں کی تلقید کر رہے ہیں جو کہ انتھاپسندی کی زمرے میں آتے ہیں، اس لیے انتھاپسند نہ بھائی بنیں لیکن متعصب نہیں حقیقی بھائی اور اردو میڈیا اب اپنے رویے سے تعصب کا پردہ پھاڑ کر پھینک دے۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar