ملاقاتیں نہیں فل کورٹ حل ہے


وطن عزیز میں جاری سیاسی بے یقینی اور نت نئے حالات یا افواہیں 28جولائی کے گزشتہ سال کے فیصلے کے بعد یکے بعد دیگر ے وارد ہورہی ہے اس وقت فیصلے پر اپنی رائے کے اظہار کی بجائے یہ تحریر کرنا مقصود ہے کہ اس فیصلے سے عدالت پر کیا اثرات رونما ہوئے ہیں اور کیا ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ اس فیصلے کے بعد بعض ایسے مقدمات کا بھی فیصلہ عدالت کی جانب سے سامنے آیا جو کہ براہ راست 28 جولائی والے مقدمے کا تو حصہ نہیں تھے لیکن ان کے اثرات سیاسی ہونے کے سبب سے وہ اس فیصلے اور عدالتی کارروائی سے جدا کرکے بھی نہیں دیکھے جا سکتے آیا ان فیصلوں سے رائے عامہ میں عدالتی فیصلوں کی قبولیت کی شرح میں اضافہ ہوا یا معاملہ اس کے برعکس ہوا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے پر سری لنکا کے سابق چیف جسٹس راجہ رتنم نے ایک کتاب تحریر کی جو پاکستان میں ”عدلیہ کا بحران“ کے عنوان سے شائع ہوئی اس کتاب میں جسٹس راجہ رتنم نے ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے پر کوئی اپنا فیصلہ تحریر کرنے کی بجائے اس سوال کا جواب تلاش کیا ہے کہ آیا اس وقت کی عدلیہ بحران کا شکار ہو گئی تھی اور کیا اس نے اس بحران سے بچنے کا راستہ تلاش کیا۔

آج بھی یہی سوال ذہنوں میں گردش کر رہا ہے کہ عدلیہ کہیں بحران کا شکار تو نہیں ہو گی۔ جسٹس راجہ رتنم نے تحریر کیا تھا کہ ” قانونی تربیت کی تمام ان دیکھی بنیادیں قانون کے ڈھانچے سے دیکھی جاتیں جو اپنی عظمت کا اظہار کرتا ہے اس کی سادگی، اس کی شائستگی اس کے انصاف، اس کی خوبصورتی کو لوگوں کو تعریف وتکریم کرنی چاہیے یہی اصل چیز ہے اورا س کے سوا کچھ نہیں جو قانون کی حکمرانی کی عظمت میں اضافہ کرتی ہے یہ عظمت ججوں کی تربیت وعلم ان کے جاہ وجلال سے نہیں ہوتی اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ ججوں کو قانون کا علم اور تربیت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ تو انتہائی بنیادی امر ہے۔ یہ عدلیہ کے اداروں کی دکھائی نہ دینے والی بنیاد ہوتی ہے جب یہ بنیاد اوراس کا بہت زیادہ حصہ زمین سے اوپر دکھائی دینے لگے تو صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ فریقین جو فیصلوں سے متاثر ہوتے ہیں اور لوگوں کے لیے اسے سراہنا مشکل ہوجاتا ہے“۔

آج بھی معاملہ اسی طرح سے ہورہا ہے پانامہ کیس اور اس پر نظر ثانی کی اپیل کے دوران دیے گئے عدالتی ریمارکس نے عدلیہ پر مزید بوجھ ڈال دیا ہے مثلاً جب سماجی میڈیا پر چلنے والے ایک ٹرینڈ کے حوالے سے ایک فاضل جج نے یہ ریمارکس دیے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے تو ان ریمارکس میں سے اشتعال کی بُو بہت صاف محسوس ہو رہی تھی یہ ریمارکس میڈیا میں شائع بھی ہوئے اسی نوعیت کے دوسرے ریمارکس اور فیصلے کے اجزاء مثلاً ناولوں کے کرداروں کا تذکرہ سنتے ہوئے سابق چیف جسٹس انوار الحق کے سابق فوجی آمر جنرل ضیاء کو قومی نجات دہندہ قرار دینے کے بیان سے مماثلت محسوس کی جارہی ہے۔ کہیں غیر ضروری محبت کا مظاہرہ ہے اور کہیں نہ سمجھ میں آنے والا اشتعال۔ اگر فیصلے اور ریمارکس میں احتیاط برتی جاتی تو عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھانا مشکل ہو جاتا۔

یہ معاملہ تو رائے عامہ اور اب تو قانون کی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے بھی ایک معمہ ہی بنتا جارہا ہے کہ آخرتمام سیاسی نوعیت کی اہمیت کے کیسوں میں کچھ مخصوص فاضل جج صاحبان ہی کیوں نظر آرہے ہیں۔ سپریم کورٹ تو ان کے علاوہ بھی معزز ججوں پر مشتمل ہے۔ خاص طور پر ایک معزز جج جو پانامہ کیس کے بینچ کا حصہ نہیں تھے ان کے حالیہ ریمارکس نے سوچنے والوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان دیکھی طاقت جو بہت بار بالکل سامنے آکر سب کچھ تلپٹ کرنے سے بھی نہیں چوکتی ہے کے اثر کا ذکر بھی بار بار گونج رہا ہے اس پر سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ جب سرکاری دفاتر اور رہائش گاہوں سے رکاوٹیں ہٹانے کا فیصلہ سامنے آیا تو ان دیکھوں کو اس سے مثتثنیٰ کر دیا کہ پھر اس معاملے کو دیکھیں گے اس سے ان کے سامنے ناطاقتی کا تصور عوام کے ذہنوں میں مزید پختہ ہوتا چلا گیا۔

عمران خان کی اہلیت کے کیس میں جو فیصلہ آیا سو آیا دل چسپ امر یوں ہوا کہ نیازی سروسز لمیٹڈ جس کی ملکیت کا خود عمران خان نے بارہا اعتراف کیا اس پر ان کے اعتراف کے باوجود ان کا اعتراف رد کر دیا گیا۔ عوام حیران رہ گئے۔ بنی گالہ کیس میں بھی معاملات جس طرح چلے سب کے سامنے ہیں اہم معاملہ یہ ہے کہ عمران خان کو بھی ان دیکھی طاقت کے لاڈلے کے طور پر صرف ان کے مخالفین ہی نہیں بلکہ ان کو پسند کرنے والے بھی تصور کرتے ہیں۔ یہ صحیح یا غلط تصور کہ ان کو رعایت دی جارہی ہے ان کے مخالف نوازشریف کی مخالفت میں دیے گئے فیصلے کو مزید بے وقعت بناتی چلی جارہی ہے پھر سینٹ میں مسلم لیگ (ن) کے اُمیدواروں کو جس انداز سے آزاد قرار دے دیا گیا حالانکہ فیصلہ ہفتے عشرے قبل اگر جاری کر دیا جاتا تو یہ قباحت پیدا نہ ہوتی مگر اس کی پروا نہیں کی گئی اور ایسی پروا نہ کرنے کے سبب سے ججوں کے فیصلے کے بعد اب وہ خود بھی بولنے لگے یہاں تک کے ایک صاحب کو ایک نجی ملاقات کے بعد اس کے احوال پر کالم تک تحریر کرنے دیا گیا۔

مختلف جگہوں پر کی گئی تقاریر اس کے علاوہ ہیں یہ سب اپنے فیصلوں کو درست ثابت کرنے کی کوششوں کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ایسا کیوں کرنا پڑا جواب یہ ہے کہ وہاں بھی یہ محسوس کیا جارہاہے کہ عمران خان اور ایس ایم ظفر کے بیانات میں دم ہے کہ نوازشریف کے خلاف فیصلہ کمزور بنیادوں پر ہے مگر اس کمزور فیصلے اور دیگر فیصلوں کے اثرات سے تقاریر یا کسی کالم نگار سے ملاقات سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا پھر حل کیا ہے؟

حل بھی سادہ ہے اگر مقصد عدالتی فیصلوں کو تنقید سے محفوظ رکھنا ہے تو نوازشریف اور عمران خان سے متعلقہ فیصلوں کو فل کورٹ کے سامنے از سر نو پیش کر دینا چاہیے جو دونوں معاملات کو ایک ساتھ دیکھے اس عدالتی بینچ میں سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان شامل ہوں کیا حرج ہے کہ صرف اپنی یا مخصوص افراد کی دانش کی بجائے سپریم کورٹ کے تمام معزز جج صاحبان کی اجتماعی دانش کے سپرد یہ معاملہ کر دیا جائے کیونکہ اگر حالات بدستور یونہی رہے تو آنے والے وقت میں کوئی اور جج پاکستانی عدلیہ کے بحران پر کتاب تحریر کر رہا ہوگا۔ یہی نوشتہ دیوار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).