کشمیر کی لٹی ہوئی کلی سے کرو گے شادی؟


ہم دونوں آدھے دن میلان کے تاریخی میوزیم میں تاریخ کے ورق کو اُلٹ پلٹ کر دیکھتے رہے۔ میلان کی تاریخ بہت دلچسپ ہے۔ یہ شہر صوبہ لمبارڈی کا دارالخلافہ ہے۔ میلان تقریباً تئیس چوبیس سو سال پرانا شہر ہے۔ میلان کی تاریخ مزاحمت کی تاریخ ہے۔ مزاحمت ان غاصبوں کے خلاف جو شہر پر مختلف اوقات میں حملہ کرتے رہے اور شہر پر قابض ہوتے رہے تھے۔
تاریخ کے میوزیم میں اُن تاریخی لمحات کو بڑے خوبصورت انداز میں محفوظ کرلیا گیا تھا۔ ہم دونوں کو ہی وہ میوزم بہت اچھا لگا۔ تاریخ بنانے والوں کو اگر پتہ ہوتا کہ وہ میوزیم میں محفوظکیے جائیں گے تو شاید تاریخ مختلف ہوتی۔ میں بہت دیر تک یہی سوچتا رہا۔

میوزیم کی ایک الماری میں ایک تاریخی سکّے کو دیکھتے ہوئے وہ بولی کہ ایک دن ہمارا کشمیر بھی ایسے ہی آزاد ہوگا اور سرینگر کے تاریخی میوزیم میں اس کشمیر کی تاریخ کو بھی محفوظ کیا جائے گا۔
میرے دل میں آیا کہ میں اسے صاف صاف بتادوں کہ وہ حقیقت کی دنیا میں ہی رہے تو اچھا ہے۔ کشمیر پر ہندوستان کا جو تسلط ہے اس سے جان چھڑانا آسان نہیں۔ ہندوستان کی ظالمانہ کارروائیوں کا مقابلہ کشمیری نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ وہ خود تقسیم ہوئے ہوئے ہیں اور ان میں وہ جذبہ قربانی نہیں ہے جو میلان کے قدیم لوگوں میں تھا۔ مسولینی کے اس شہر کے لوگ شہر کی آزادی کے لئے مسلسل جان دیتے رہے ہیں۔ میں نے یہ بات زبان سے نہیں کہی مگر نہ جانے اس نے کیسے محسوس کرلیا کہ مجھے اس کی بات پر اعتبار نہیں آیا۔
”تمہیں یقین نہیں ہے نا۔ ‘‘ اس نے مجھے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔

”سچ کہہ رہی ہو سرینگر اور میلان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ یہ لوگ اور ہیں اور کشمیر کے لوگ اور۔ ان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کشمیر کی تاریخ کچھ اور ہے۔ یہ میرا خیال ہے اور میں یہی سوچتا ہوں کہ کشمیر جیسا ہے شاید ہمیشہ ہی ایسا رہے گا۔ ہندوستان کے قبضے میں عوام کی مرضی کے خلاف۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔

اس کے چہرے پر جیسے ایک سایہ سا آیا گزر گیا۔ وہ دھیرے سے مسکرادی۔ نہ جانے کیوں مجھے اس کی مسکراہٹ پر پیار سا آگیا۔ اس وقت اس لمحے وہ مجھے بہت اچھی لگی۔ ایسے ہی لمحے ہوتے ہیں زندگیوں میں جب لوگ فیصلے کرتے ہیں، زندگی کے بارے میں، مستقبل کے بارے میں، جیون ساتھی کے بارے میں اور ایسے ہی لمحے ہوتے ہیں جن سے تقدیر بدلتی ہے، کبھی اچھی کبھی بُری۔ یہ میری زندگی کا وہی ایک لمحہ تھا۔

اس ایک لمحے کے بعد میرے جذبات و احساسات میں تبدیلی آگئی، ایک دم جیسے ایک جھٹکے سے دل میں کچھ ہوگیا اوراس کی حیثیت خود بخود ایک دوست سے محبوب میں بدل گئی۔ میرا دل چاہا کہ میں اسے گلے سے لگالوں، اس کے ماتھے کو چوموں، اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے اس سے مانگ لوں۔

یہ ممکن نہیں تھا۔ میں شاید بدل گیا تھا، وہ تو نہیں بدلی تھی۔ اس کا تو وہی مشرقی ذہن تھا اور وہی مشرقی انداز۔ یورپ کی کوئی لڑکی ہوتی تو شاید میں یہی کرتا اور شاید وہ میرے اس اظہار محبت کا جواب محبت سے ہی دیتی یا پھر منع کردیتی مگر خوشنود سے میں کچھ نہیں کہہ سکا، صرف دل میں یہی سوچتا رہا کہ ابھی وقت چاہئیے وقت۔ ایک اور بات یہ بھی تھی کہ میں اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ جانتا بھی نہیں تھا۔ وہ اٹلی کیسے پہنچی، یہاں وہ اکیلی کیوں رہتی ہے، اس کے گھر والے کہاں ہیں، کیا وہ شادی شدہ ہے وغیرہ وغیرہ۔

میرے دل میں تبدیلی کے باوجود میں نے اپنے رویئے میں کوئی تبدیلی نہیں کی، اس کے باوجود وہی ہوا جو ایسے میں ہوتا ہے ہم دونوں ایک دوسرے کو چاہنے لگے۔
وہ کشمیرسے سیاسی پناہ گزین بن کر اٹلی آئی تھی۔ اس نے کشمیر میں ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ اٹلی میں اسے حکومت کے خرچے پر ہی ایک کالج میں داخلہ مل گیا تھا جہاں اس نے رومیوں کی زبان سیکھی اورمزید تعلیم حاصل کرنے کے بعد میلان کے اس اسکول میں پڑھانے پر مامور ہوگئی تھی۔

کشمیر میں بھی وہ پڑھاتی تھی، اسی تجربے کا اسے فائدہ پہنچا تھا۔ اب کشمیر میں اس کا کوئی نہیں تھا۔ ماں بچپن میں ہی اس کی پیدائش کے وقت اسے اکیلا چھوڑ کر بہت زیادہ خون کے بہنے کی وجہ سے مرگئی تھی۔ ویسے ہی جیسے بہت سی مائیں ہمارے پاکستانی کشمیر میں بچوں کو جنم دیتے وقت مرجاتی ہیں اور سرحدوں پر دونوں ایٹمی طاقتیں اپنے اپنے ہتھیاروں، وردیوں کی کڑک اورجوتوں کی دھمک کا مقابلہ کرتی رہتی ہیں۔ میں دل ہی دل میں ہنسا بھی، رویا بھی۔ پتہ نہیں کب سرحد کے دونوں جانب کرتا دھرتاؤں کو عقل آئے گی۔ کب وہ مل کر بھوک، افلاس جہالت اور درندگی کا مقابلہ کریں گے۔ کب وہ انسانوں کے حقوق کی بات کریں گے، کب اپنی ذہنی سرحدوں کو پھلانگ کر بڑے ہوں گے۔

اس کی ماں کے مرنے کے بعد اس کے باپ نے دوسری شادی کی اور سرینگر سے دور اپنے گاؤں میں ہی اپنی زمینوں پر کام کرکے اپنے خاندان کو پالنے کی جدوجہد میں لگ گیا۔
خوشنود نے سرینگر میں پڑھا۔ وہ اور اس کے دو سوتیلے بھائی ایسے ہی تھے جیسے سگے ہوتے ہیں۔ وہی محبت اور وہی رکھ رکھاؤ۔ دونوں طرف کے کشمیریوں میں ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ گرمجوش ہوتے ہیں، ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے۔ یہی ایک مسئلہ ہے عوام کا۔ عوام دونوں جگہوں کے اچھے ہیں اور لیڈر دونوں جگہوں کے خراب ہیں۔

خوشنود اپنے بارے میں بہت کم باتیں کرتی تھی۔ اس کے بارے میں باتیں آہستہ آہستہ پتہ چل رہی تھیں۔ ایک دن باتوں باتوں میں ہی پتہ چلا کہ اس کے والد کی موت ایک تھانے ہوئی، جب پولیس والے انہیں پکڑ کر لے گئے تھے۔ وہ اس کے بھائی کے بارے میں معلومات حاصل کررہے تھے جو سرینگر میں پڑھ بھی رہا تھا اورکشمیر کی آزادی کے لئے ایک جماعت سے وابستہ بھی تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ تھانے میں ان پر دل کا دورہ پڑا اور پھر وہ جانبر نہ ہوسکے۔ اس کی ماں یہ غم برداشت نہ کرسکی اور چالیس دن کے اندر اندر مرگئی تھی۔ سب کو چھوڑ کر نکل گئی تھی۔ یہ غم برداشت نہیں ہوسکا تھا اس سے۔

مجھے بڑا فسوس ہوا، زندگی کے رنگ کیسے ہیں اور کیسی ہے یہ زندگی کسی کو رُلاتے کسی کو ہنساتے۔ اس دن اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کے بھائی کو اسی کی طرح سے کشمیر سے بھاگنا پڑا اور وہ اب لندن میں سیاسی پناہ گزین کی حیثیت سے رہ رہا ہے۔ اس کی آنکھوں کی چمک آنسوؤں کے پیچھے چھپ گئی تھی، اس کے چہرے پر جیسے صدیوں کا درد تھا۔

میں بے اختیار ہوکر کھڑا ہوگیا اس کے ہاتھوں کوپکڑ کر میں نے کہا، ”خوشنود مجھ سے شادی کرلو۔ مجھے موقع دو کہ تمہاری زندگی میں تمہارے ساتھ چلوں۔ ایک دوست کی طرح، ساتھی کی طرح میں تمہیں چاہتا ہوں۔ اپنی دل کی گہرائیوں سے تمہارے بغیر میرا وجود نامکمل ہے۔ ‘‘

وہ رونے لگی۔ ”تم میرے بارے میں کیا جانتے ہو، کچھ بھی نہیں۔ تمہیں نہیں پتہ میرا ایک منگیتر تھا، تمہیں نہیں پتہ ہے کہ وہ قید ہوا، تمہیں نہیں پتہ کہ اسے قید خانے میں گولی ماردی گئی اورتمہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ ان سب واقعات سے پہلے کیا ہوا۔ ‘‘ اس نے بڑے نپے تلے انداز میں صاف صاف دھیرے دھیرے سے کہا۔
”مجھے بتاؤ خوشنود مجھے بتاؤ، سب کچھ بتاؤ اپنے بارے میں، مجھے دوست سمجھو، اپنا ساتھی اور رازدار۔ ‘‘ میں نے بڑے اعتماد سے اورمضبوطی سے احساس دلانے کی کوشش کی تھی۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3