کشمیر کی لٹی ہوئی کلی سے کرو گے شادی؟


”میرے منگیتر اکبر کا تعلق سرینگر سے تھا وہیں اس سے ملاقات ہوئی اور ہم دونوں کے خاندانوں کی مرضی سے یہ رشتہ طے ہوا۔ ہم دونوں ایک جیسے تھے ایک ہی خواب تھے ہمارے اور ہم دونوں کشمیر کی آزادی کے پر وانوں میں تھے اور کشمیر کی آزادی کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار تھے، وہ تقریریں کرتا تھا، مضامین لکھتا تھا اسے نہ پاکستان سے غرض تھی نہ ہندوستان سے۔ وہ تو ایک پرامن سوئزرلینڈ جیسے کشمیر کا خواب دیکھ رہا تھا، جہاں چین ہو سکون ہو انصاف ہو اور ہر مذہب کے ماننے والے آزادی سے رہیں۔ لیکن نہ جانے کیوں پولیس والے اس کے پیچھے پڑگئے اوراسے روپوش ہونا پڑا۔ خفیہ پولیس سے اور ان جعلی آزادی کے سپاہیوں سے جو ہندوستان کے لئے الگ بھیس میں کام کرتے ہیں۔

ایک دن میں سری نگر سے دور چھوٹی بڑی پہاڑیوں کے درمیان بنے ہوئے چھوٹے سے گاؤں کے جوندی کے کنارے جھرنے سے تھوڑے فاصلے پر ہے، ایک چھوٹے سے گھر کے آنگن میں بیٹھی کڑھائی کررہی تھی کہ فوجی گھر میں گھستے چلے آئے۔ نوکروں کو مارا، بھائیوں کو مارا، گھرکی ہر چیز توڑ پھوڑدی۔ وہ اکبر کاپتہ پوچھ رہے تھے انہوں نے مجھے اٹھا کر اپنے ٹرک میں پھینک دیا، پھر جو کچھ انہوں نے کیا وہ میرے دماغ میں سلگتا رہتا ہے۔ ایک عذاب کی طرح میرے اندر دہکتا رہتا ہے۔ مجھے توڑ دینے کی کوشش کی انہوں نے بڑی مشکل سے زندہ ہوں میں۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔

میں نے پھر اس کے ہاتھ پکڑ لئے تھے اس کے کپکپاتے کاندھوں کوپیار سے چھوا تھا۔ ”بتاؤ خوشنود بتاؤ کچھ مت چھپاؤ مجھ سے میں دوست ہوں دشمن نہیں۔ ‘‘ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”ان سب نے میری عزت لوٹی تھی مل کر، بلاد کار کیا تھا میرا، اس لئے کہ میں کشمیری تھی کشمیری ہوں اور کشمیری رہوں گی اور کشمیر کی آزادی کے لئے سب کچھ کرتی رہوں گی۔ اس کی منگیتر تھی اورہم دونوں کشمیر کی آزادی چاہتے تھے چاہتے ہیں۔ مجھے کسی قابل نہیں چھوڑا انہوں نے۔ میرے گردن سے چھاتیوں کے چاروں طرف گول دائرے کی شکل میں مجھے کاٹتے چلے گئے میری چھاتیوں کو میری نظروں کے سامنے تاراج کیا ان لوگوں نے۔

یہ ہے ترنگے کی چکری کشمیر کے اٹوٹ انگ کی طرح ہمیشہ تیری چھاتی پہ رہے گی۔ یہ کہا تھا اُس سپاہی نے مجھ سے اپنے چہرے کو صاف کرتے ہوئے۔ پھر مجھے ہوش نہیں رہا۔ گاؤں والوں نے میری لاش جیسے جسم کو جنگل سے اٹھایا، میرا علاج کیا، مجھے زندگی دی۔ حوصلہ دیا، پھر مجھے پتہ لگا کہ اکبر کی لاش سری نگر میں ملی ہے اور اس کے خاندان والوں نے اسے خاموشی سے دفن کردیا ہے۔ میرے لئے زندگی اندھیر ہوگئی تھی، کیا رہا تھا میرے لئے۔ ‘‘

میں اسے دیکھتا رہا، سوچتا رہا، زندگی کی اتنی بھیانک تصویر میں نے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ فوجی تو فوجی ہی ہوتے ہیں انہیں قتل کرنا ہی سکھایا جاتا ہے۔ دشمن کو دشمن ہی سمجھنے کا لیکچر دیا جاتا ہے مگر اس قسم کا سلوک، میں اندر سے کانپ سا گیا تھا۔

اس نے مجھے بتایا کہ اکبر کی موت کے بعد دونوں بھائی بہن کشمیر سے بھاگ نکلے تھے۔ پہاڑیوں، پگڈنڈیوں راہداریوں، کھاڑیوں سے ہوتے ہوئے اس کا بھائی لندن پہنچا تھا اور وہ روم۔ میرے بھائی کے ذہن پہ نشان ہے اورمیرے ذہن و جسم دونوں جگہوں پر نشان ہے، میں ایک لُٹی ہوئی کشمیری ہوں ترنگے کے چکری کے ساتھ۔ کروگے شادی مجھ سے اس نے عجیب سے لہجے میں کہا تھا۔
میں نے اس کے مفلر کو پکڑ کر اسے اپنے گلے سے لگالیا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3