پی آئی اے سے مسافرت کے لاجواب مشاہدات


[پی آئی اے کی پروازوں پی کے 785 اور 786 لندن میں (12 اور 21 مارچ 2018) میرے مشاھدات]

جب باوا آدم کے زمانے کی ’لال لگام‘ ہینو بس کے ذریعے لڑھکتے ہوئے انتظارگاہ سے جہاز پر پہنچے تو ٹوٹے ہوئے بازو والی سیٹ میرا انتظار کر رہی تھی۔ کچھ عرصہ قبل دبئی سے اسلام آباد آتے ہوئے انتہائی خستہ حال جہاز میں سفر کرنے کے بعد اور دو سال پہلے لندن جاتے ہوئے بغیر کمبل و تکیہ سفر کرنے کے باوجود کچھ عرصہ قبل پی آئی اے کی جانب سے لندن کے لئے پریمیئر پروازوں کے آغاز کا گمان دل میں لئے اس بار جب آفس کی جانب سے لندن جانے کے لئے پی آئی اے میں سفر کرنے کا کہا گیا تو میں مان گیا۔ مگر جہاز پر سوار ہوتے ہی اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا۔ مرتا کیا نہ کرتا، سیٹ پر بیٹھ ہی گیا۔

جب جہاز پر تولنے لگا تو کسی صنف نازک کی آواز میں دوران سفر حفاظتی انتظامات بتائے جانے لگے۔ یہ الہامی آواز کہاں سے آرہی تھی، کچھ پتہ نہ چل سکا کہ نہ تو ٹی وی اسکرین پر کچھ نظر آ رہا تھا نہ ہی کوئی براہ راست مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا تھا۔ چلیں، اب جیسا کہ یہ ہدایات زیادتی سفر کی وجہ سے ازبر ہو چکی ہیں تو میں نے ان کی کچھ زیادہ پرواہ نہیں کی۔

جہاز محو پرواز ہوا تو مسافروں نے کمبلوں اور تکیوں کی ’فرمائش‘ کر ڈالی۔ ’انوکھا لاڈلا‘ کے مصداق انہیں یہ سننے کو ملا کہ ’تھوڑے سے کمبل ہیں، اور تکیے تو آج آئے ہی نہیں!‘ اس طرح تھوڑے سے کمبلوں کا تبرک جہاز میں بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ بانٹا گیا۔ ایک صاحبہ کے تکیے کے لئے مزید اصرار پر ہوائی میزبان نے یہ مشورہ داغ دیا کی ’آپ اگر سیٹ کے اوپر والے حصے کو موڑ دینگی تو یہ تکیہ بن جائے گا‘ واہ، اس جواب سے لاجواب ہوکر خاتون سیٹ کے اوپری حصے کو موڑنے میں لگ گئیں، اور فضائی میزبان ایک تکبرانہ احساس کے ساتھ آگے بڑہ گئیں۔

یہ کیا، کسی نے ہیڈ فون مانگ لئے! ’تھوڑی دیر میں لاتے ہیں‘ کہتے ہوئے ایئر ہوسٹس غائب ہوگئیں۔ کچھ دیر کے بعد ہیڈ فون کی آوازیں لگنے لگیں۔ ایک بھاری آواز والی فضائی میزبان ہیڈ فونز کا تبرک بانٹتے ہوئے میری طرف بڑھیں۔ میں نے بھی جرات مندانہ انداز سے ہیڈ فون لیا اور دل میں خوش ہوتے ہوئے اسے پنی سے باہر نکالا۔ اس سے پہلے کہ میں ان ہیڈ فونز کو کانوں میں لگاتا، میری سیٹ کے پیچھے سے ایک آواز آئی ’یہ ٹی وی کام تو نہیں کر رہا پھر ہیڈ فون کیوں بانٹ رہی ہیں؟ ‘ فضائی میزبان نے قدرے لاتعلقی سے کہاں ’پتہ نہیں، لوگوں نے کہا ہیڈ فون دیں، سو میں لے آئی‘۔ میں نے بھی جب چیک کیا تو ریموٹ کی تاریں نکلی ہوئی تھیں اور واقعی ٹی وی ’چہ معنی ندارد‘ تھا! میں نے ہیڈ فون بڑے سلیقے سے اپنے سامنے والے سیٹ پاکٹ میں رکھ دیے۔

ایک بزرگ نے آواز لگائی ’پانی۔ ‘ ایئر ہوسٹس نے ٹوائلٹ کی طرف جاتے ہوئے بزرگ کی صدا کو للکار گردانتے ہوئے کہا ’سر میں ایک ہی ہوں، ادھر سے ادھر آتے جاتے سارا کام کر رہی ہوں۔ بس ٹوائلٹ میں پانی کا مسئلا چیک کر کے آتی ہوں‘۔ کچھ دیر میں جب کسی اور ایئر ہوسٹس نے بزرگ کو پانی دیا تو پہلے والی ایئر ہوسٹس نے پرلی لین سے گزرتے ہوئے اپنی بھاری آواز میں وہیں سے بزرگ سے پوچھا ’پانی مل گیا نہ؟ ‘ بزرگ نے خوشدلی سے اور چہکتے ہوئے اتنی ہی بلند آواز میں کہا ’جی بالکل، بہت شکریہ!‘

کچھ ہی دیر میں گرما گرم کھانے کی نوید مسرت سنائی دی۔ ایئر ہوسٹس کے قریب آتے ہی میری آگے والی سیٹ پر براجماں خوشدل بزرگ نے دل کا مدعا اس طرح کہا ’میں سوچ رہا تھا کہ کھانا کب آئے گا، سوچا آپ سے پوچھوں، پر صبر کر لیا، اتنے میں آپ آگئیں!‘ فضائی میزبان خوشی سے پھولے نہ سمائیں، اور کہا ’کاش ہم سب مسلمانوں کا ایمان ایسا ہی مضبوط ہو!‘ مسافروں کی بھوک میں مزید اضافہ کرتے ہوئے بولیں ’بہت ہی لذیذ کھانا ہے، لوگ ہم سے زیادہ مانگ کے کھاتے ہیں۔ آپ بھی کھائیں، کھائیں پلیز!‘ خیر اس دفعہ کھانا واقعی کھانے کے لائق تھا۔ باقی رہا سوال بہت لذیذ اور مزید مانگنے کا تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

نو دن کے سرکاری کام کے بعد اب واپس بھی پی آئی اے کی ہی پرواز سے آنا تھا۔ ٹکٹ پر فلائٹ ٹائم آٹھ بجے کا تھا اور میں لندن کی گتھم گتھا ٹریفک میں سے پار ہوتا ہوا سوا چھ بجے پی آئی اے کے کاؤنٹر تک پہنچا۔ مجھے وہاں کوئی گہما گہمی نظر نہ آئی تو دل کو دھڑکا لگا۔ کاؤنٹر کے اس طرف کوئی افسر بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہاں کھڑی ایک مسافر لڑکی نے پوچھا ’آپ بھی پی آئی اے کی فلائٹ سے اسلام آباد جا رہے ہیں؟ ‘ میں نے تذبذب کے عالم میں ہاں کہا تو بولیں کہ ’پرواز تو وقت سے ایک گھنٹہ پہلے روانہ کر دی گئی ہے۔ اب مسافروں کو کل کی فلائٹ میں بک کر ہے ہیں!‘ کچھ دیر کے لئے تو میں بے سدھ سا ہوگیا۔ کچھ لمحے میں ہی اگلے دن کے لئے بنے ہوئے منصوبے چکنا چور ہوتے ہوئے نظر آئے۔ مگر اچھی بات یہ ہوئی کہ حواس کو قابو میں رکھا۔ اور جب کاؤنٹر پر خاتون افسر آئیں تو ان سے بات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ کوئی ’ہوائی راستوں‘ کا مسئلا بتا رہی تھیں۔ ان کے مطابق انہوں نے ہمارے ٹریول ’ایجنٹ‘ کو مطلع کر دیا تھا۔ زیادہ الجھنا میں نہیں چاہتا تھا۔ کیونکہ انہوں نے Indirectly پی آئی اے کی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مجھے کل کی پرواز کے لئے بک کر رہی ہیں۔ جب ہوٹل کے لئے استفسار کیا تو بولیں فلائٹ مینیجر سے پوچھ کے بتائیں گی۔ اس دوران تقریبا“ کافی فیملیز اور افراد پریشانی کے عالم میں اپنے رشتےداروں کو فون کرنے لگے۔ ایک تقریبا آٹھ سالہ بچہ دھاڑیں مارکے رونے لگا۔ شاید کسی خاص موقعے کے ضایع ہونے کا ملال تھا۔

مینیجر صاحب آئے تو میری درخواست یکدم بر آئی۔ ایک ’ایجنٹ‘ کو ہدف دیا گیا کہ میرے ہوٹل اور وہاں تک بذریعہ ٹیکسی پہنچنے کا بندوبست کیا جائے۔ ’ایجنٹ‘ نے مجھے انتظار کرنے کو کہا، اور تقریبا“ سوا گھنٹے کی تگ و دو کے بعد ہوٹل اور ٹیکسی کا بندو بست ہوا۔ ہوٹل مناسب تھا اور ہیتھرو ہوائی اڈے سے زیادہ دور نہیں تھا۔ اگلے دن دوپہر یہ انکشاف ہوا کہ مجہے ہوٹل کا کمرہ بارہ بجے تک خالی کرنا ہے، البتہ ہوٹل کی انتظامیہ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ میں ایئرپورٹ کیسے جاؤں گا!

‘ایجنٹ‘ کو ہوٹل کی طرف سے فون ملایا گیا مگر معلوم ہوا کہ ان کو بھی نہیں پتا۔ پاکستان میں موجود ہمارے ’ایجنٹ‘ کو بھی کچھ پتا نہیں چل پا رہا تھا کہ بقول ان کے کہ ’سسٹم‘ میں میرے کہاں ہونے کا کچھ درج ہی نہیں تھا!

سب کچھ آزمانے کے بعد، کوئی مزید وقت ضایع کیے بغیر، میں لوکل بس سروس سے استفادہ کرتے ہوئے ہوائی اڈے تک کامیابی سے پہنچ گیا۔

کاؤنٹر پر کل والی افسر خاتون نظر آئیں تو ان کا شکریہ ادا کیا۔ ساتھ ساتھ ہوٹل سے واپسی کا بندوبست نہ ہونے کا تذکرہ بھی کیا۔ وہ حیرانگی سے بولیں ’آپ کو ’ایجنٹ‘ نے کیوں نہیں بتایا کہ ٹیکسی نے آپ کو لے کر آنا تھا!؟ ‘ اور میں مسکراتے ہوئے آگے بورڈنگ کاؤنٹر کی طرف بڑھ گیا۔

واپسی کے لئے جہاز پر سوار ہوا، تو ایک ’فیملی پکنک‘ کے ماحول کا احساس ہوا۔ مجھے شدید محسوس ہوا کہ انگریز یا یورپین بھی بچوں کیساتھ یا گروپس میں سفر کرتے ہیں مگر جہاز میں اور لوگوں کا بہت خیال کرتے ہیں۔ مگر ہمارے ہموطنوں نے تو حد کردی تھی۔ اچھل کود، اونچی آواز میں باتیں (جیسے برسوں کے بچھڑے ملے ہوں!) اور قہقہے۔ بس جہاز کسی بازار کا عکس پیش کر رہا تھا۔ اور پھر بیت الخلا کا تو حشر نشر کردیا ہوا تھا۔ جس ٹوائلٹ میں میں گیا، وہاں فرش اور ڈریسنگ پر بکھرے ٹشو پیپرز کٹھے کر کے کوڑے کے ڈبے میں ڈالے کہ ٹوائلٹ استعمال کے قابل ہو سکے!

فضائی میزبان اس دفعہ کافی اکھڑے اکھڑے سے لگے۔ حالانکہ ’سر‘ اور ’میڈم‘ کہہ کر مخاطب ہو رہے تھے مگر لہجے کی کرختگی بتا رہی تھی کہ ’کریو‘ میں کچھ ان بن ہے۔ مگر اس کا مزید پتہ نہیں چل سکا۔ پورے جہاز کے ٹی وی آج بھی کام نہیں کر رہے تھے جس کی وجہ سے بھی جہاز میں افراتفری کا ماحول رہا کہ مسافروں کے لئے اتنے لمبے سفر میں سوا آپس میں باتیں کرنے کے کوئی اور دلچسپی تھی ہی نہیں۔ ساتھ ساتھ کمبلوں کا تبرک بھی ’عوام کے بیحد اصرار‘ پر بانٹا گیا۔ تکیے تو آج بھی آئے ہی نہیں تھے!
بہرحال گزشتہ سات سالوں سے پی آئی اے میں لندن سفر کرتے ہوئے اب یہ طے کرلیا ہے کہ پی آئی اے نہیں سدھرے گی، ہم ہی سدھر جائیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).