می ٹو؟ کون دلاں دیاں جانے؟


می ٹو کیسے کہوں؟ ایسا کہنے سے پہلے ہی زبان بند کرا دی گئی۔ بول بھی دوں تو سنے گا کون؟ مانے گا کون؟ معاشی استحصال تو ہو ہی رہا ہے۔ مختلف طریقے سے دباؤ میں لاکر ہراساں بھی کیا جا رہا ہے۔ مجبوری اور معصومیت سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ تو حق کیسے ملےگا؟ انصاف کس طرح ہو گا؟

عورتیں برابری کے چکر میں اپنی چال بھولتی جارہی ہیں تو مرد آہن صنف نازک بن گئے ہیں۔ مرد وعورت کی برابری کے نام پر عورتوں کے بنیادی حقوق غصب کیے جار ہے ہیں؟ حقوق پامال کرنے کو جنسی تفریق و جنسی ہراسانی کے زمرے میں ہی لیاجائے گا۔ کیونکہ جنسی طور پر زیادتی کیا جانا تو بالکل مختلف بات ہے۔
اپنے اقوال و افعال سے کسی کو زچ کرنا، پریشان کرنا اور اس کے بعد ہنسی اڑانا بھی ہراساں کیا جانا ہی ہے۔

افسوس ناک بات ضرور ہےلیکن حقیقت یہی ہے کہ خواتین ہی خواتین کی کاٹ کرتی ہیں، ایک دوسرے کا درد سمجھ کران کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے حسد اورتکبر سے من کی آگ ٹھنڈی کرتی ہیں۔ نتیجتا ًجنس مخالف مزید شیر ہوجاتا ہے۔ اپنے کیے پر شرمندہ ہونے کے بجائے ہراساں کرنا اپنا حق اور شوق سمجھنے لگتا ہے۔

خواتین کے استحصال پر ہالی وڈ اسٹار نے گزشتہ سال آواز اٹھائی اورمہم ’می ٹو‘ چلائی۔ ہالی ووڈ پروڈیوسر ہاروےوائن اسٹائن کے خلاف تقریباً اٹھارہ اداکاراؤں اور خواتین نے اسی ہیش ٹیگ کے ذریعے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا، جبکہ پانچ نے ان پر زیادتی کا الزام بھی عائد کیا۔

دنیابھر میں شوبز سے تعلق رکھنے والےافراد بشمول پاکستان سے بھی کئی خواتین نےیہ ہیش ٹیگ لگایا اورسوشل میڈیا پر ’می ٹو‘ ٹرینڈ کرنے لگا۔ جن میں فریحہ الطاف، نادیہ جمیل اور ماہین خان نمایاں ہیں۔ اسی طرح یہ مہم بالی ووڈ بھی پہنچی۔ کنگنا رناوت، کونکنا سین اور رادھیکا اپٹےنےبھی اس مہم میں اپنا حصہ ڈالا۔

می ٹو کا تازہ استعمال کیا پاکستان کی گلوکارہ میشا شفیع نے“ جنھوں نےساتھی گلوکار علی ظفر پر جنسی ہراساں کرنےکا الزام عائد کیا۔ ٹوئیٹرپر میشا نےلکھا کہ ‘میں اپنے ساتھ جنسی ہراساں کرنے کے واقعے پر اس لیے خاموشی توڑ رہی ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے اس اقدام کے ذریعے اُس روایت کو ختم کرسکتی ہوں جو ہمارے معاشرے کا حصہ ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’میرے ساتھ شوبز میں کام کرنے والے ساتھی علی ظفر نے مجھے ایک سے زیادہ بار جنسی طور پر ہراساں کیا، یہ سب اُس وقت نہیں ہوا جب میں چھوٹی تھی یا پھر انڈسٹری میں نئی تھی، یہ سب کچھ میرے ساتھ دو بچوں کی ماں ہونے کے باوجود ہوا کیونکہ میں خاموش رہنے کو زیادہ اہمیت دیتی ہوں‘۔

علی ظفر نے بھی جواب کے لیے ٹوئیٹر کو ہتھیار بنایا اورلکھا ’میں ایک بیٹی اور بیٹے کا باپ، ایک ماں کابیٹا جبکہ ایک عورت کا شوہر بھی ہوں، میں کئی بار اپنی فیملی اور دوستوں کے لئے مشکل وقت میں کھڑا رہا‘۔ اُن کا کہنا تھا ’مجھے کچھ چھپانےکی ضرورت نہیں، خاموشی میرا طرزعمل نہیں تاہم میں الزام کا جواب الزام سے نہیں دوں گا اور میشا شفیع کے معاملے کو سوشل میڈیا پر لے جانے کے بجائےعدالت لے کر جاؤں گا‘۔

بس یہیں نہیں ہوئی“ دونوں کی مائیں بھی ہاٹ ایشو میں کود پڑیں۔ شوبز سے وابستہ کئی لوگ دونوں کی مخالفت و حمایت میں بولتے رہے۔ کسی نے اسے میشا کی سستی شہرت سے عبارت کیا تو کسی نے علی ظفر کا ساتھ دیا،
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں نام سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

غرض کہ میشا اور علی کی طرح ہر اک نے ہی می ٹوکی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے بلکہ نہائے دھوئے۔ ان دونوں میں سے کون حق پر ہے؟ کس کی کردار کشی کی جارہی ہے؟ یہ تو تحقیق وتفتیش سے ہی پتہ چلے گا۔

کیونکہ کوئی راہ چلتے جملہ کستا ہے، دست درازی کر جاتا ہے، تو عورت ثبوت کہاں سے لائے۔ کہنے کو یہ مضبوط دلیل ہے، لیکن اسی بات کو اُلٹا کے دیکھ لیں، کہ کسی مرد پر کوئی عورت ایسا الزام لگائے تو اسے ثبوت کیسے مان لیا جائے۔ اس لیے کہ عورت نے الزام لگایا ہے، چناں چہ مرد کو سزا دے دی جائے؛ یہ کہاں کا انصاف ہے۔

ہر چند کہ کسی کو بھی چاہے وہ مرد ہو یا عورت کٹہرے میں لانے سے نہ وہ وقت واپس آسکتا ہے نہ جسمانی و ذہنی تکلیف ختم ہوسکتی ہے ۔ شاید ہی کوئی حل ہو۔ اہل علم واہل نظر کے پاس۔ ہاں ایک بات ضرور ہے مجرم کو کم ازکم اس کی غلطی کا احساس ہوگا، اس کی دنیا میں ساکھ متاثر ہوگی۔ اور وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے حقوق کا خیال بھی رکھے گا۔

لیکن قصور کی 8سالہ کائنات، 7 سالہ زینب، مردان کی 4 سالہ اسما۔ ا سلام آباد کی 8 سالہ ثمرین۔ کراچی کی 8 سالہ طیبہ ۔ 7 سالہ رابعہ مگسی۔ چیچہ وطنی کی8 سالہ نور فاطمہ۔ مقبوضہ کشمیر کی 8 سالہ آصفہ بانو۔ کوریپ کرنے کے بعدقتل کردیا گیا تھا۔

یہ سب اپنے لیے می ٹوکیسے لکھیں؟ انہیں تو رونے سے، بولنےسے، چیخنے سے پہلے ہی ہمیشہ کے لیے خاموش کرادیاگیا، ان سب چھوٹی بچیوں کو جنسی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایاگیا، تمام واقعات میں مشترکہ چیزان کی عمریں، زیادتی، اس کا طریقہ کار، جسم کو مختلف طریقوں سے جلایا جانا اور ہڈیوں کا ٹوٹا ہونا اور قتل کیا جانا شامل ہے۔ یہ کیسے اپنا درد بیان کریں، کیسے اپنا وکیل کریں، کیسےان کو انصاف ملے گا؟ کون ان کے لیے کھڑا ہوگا اور کب ہوگا؟
کیا وہ وقت ان کی زندگی اور ان کے ساتھ ہوئے ظلم کو ’Undo‘ کیا جاسکےگا؟

معاملہ صرف بچیوں کا نہیں، بلکہ انسانی روپ میں بھیڑئیےچھوٹے لڑکوں سے بھی بدفعلی کرتے ہیں اور اپنا جرم چھپانے کے لیے یا تو ان کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور یا پھر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ وہ بھی می ٹو کا ہیش ٹیگ لگا کر بول نہیں سکتے۔ ظلم کا جواب دو؟ خون کا حساب دو؟ #MeTooInnocent
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے“لیکن اس طرح کی موت کوئی والدین اپنے بچوں کےلیے منتخب نہیں کرتےبلکہ شاید کوئی بھی انسان نہیں چاہےگا کہ ایسی موت کسی کابھی مقدر بنے۔ چاہے وہ موت اور اس کے بعد کی زندگی پر یقین رکھے نہ رکھے۔ فانی جسم کو خاک میں ملا دے، سمندر برد کردے، چیل کوؤں کو کھلادے۔ آگ لگا کر راکھ ہوا میں اڑا دے، لاش کو کیمیکل لگا کر برسوں کے لیے محفو ظ کرلے“ بہر حال اس کا حساب ہوگا۔

یقین رکھیے!آپ چھوٹے ہیں یا بڑے۔ بھائی ہیں، باپ ہیں، بیٹے ہیں، دوست ہیں، باس ہیں، ساتھی ملازم ہیں، کلاس فیلو یا ہیں چلتے پھرتے عام شخص۔ خواتین کو عزت دینے سے، ان کا لحاظ کرنے سے، ان کا خیال کرنے سے، ان کے ساتھ کھڑے ہونے سے آپ کی عزت و وقار میں کوئی کمی نہیں آئے گی“بلکہ! کسی اچھے مقام پر پہنچ کر بھی یہ آپ کو یاد رکھیں گی ، ہاں!جو کوئی کم ظرف ہو تو ان کا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

ربیعہ کنول مرزا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ربیعہ کنول مرزا

ربیعہ کنول مرزا نے پنجاب اور پھر کراچی یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ صحافت میں کئی برس گزارے۔ افسانہ نگاری ان کا خاص شعبہ ہے

rabia-kanwal-mirza has 34 posts and counting.See all posts by rabia-kanwal-mirza