طوطا مار بھی دیا جائے، جرم کی گواہی باقی رہتی ہے


پہلے طوطے سے بدگمان ہو کے طوطے کو مار دیا جاتا ہے پھر جب حقیقت کھلتی ہے یا دکھائی جاتی ہے تو طوطے کی یاد میں آنسو بہائے جاتے ہیں۔ آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ یہ طوطے کی باتیں یہاں بیان کرنے کا کیا مقصد ہے۔ اچھے وقتوں میں یعنی زمانہ قدیم میں جب ابھی فیس بک، ٹویٹر یا وٹس اپ کی سہولت موجود نہیں تھی تو اس وقت جو کیا, جب کیا کی زبانی اطلاع ہی ایک مکمل ثبوت ہوتی تھی۔ ایک تاجر اپنی تجارت کی غرض سے اکثر سفر میں رہتا تھا۔ ایک بار وہ پرندوں کے بازار سے گزر رہا تھا کہ اس نے ایک بولنے والا طوطا دیکھا ۔ دوکاندار نے خوب تعریف کی۔ تاجر نے یہ طوطا خرید لیا اور گھر لے آیا۔ اور روز اس سے گھر کی باتیں شام کو کرنے لگا۔

کچھ دنوں کے لئے تجارت کی غرض سے شہر سے باہر چلا گیا۔ جب واپس آیا تو حسب معمول طوطے سے باتیں کرنے لگا کہ میری غیر موجودگی میں کیا گزری۔ طوطے نے کہا کہ بات تو شرم کی ہے لیکن ہے گھر کی عزت کی بات اس لئے چھپا بھی نہیں سکتا۔ تیرے جانے کے بعد تیری بیوی ایک دوسرے مرد سے عاشقی کرتی رہی اور سب گھر کے ملازمین کو ڈراتی، دھمکاتی بھی رہی کہ اگر گھر کے مالک کے سامنے زبان کھولی تو مالک سے ہی زبان کٹوا دوں گی۔ لیکن میں آپ کا دانا کھا رہا ہوں چھپا نہیں سکتا تھا۔ مالک سخت طیش میں آ گیا تو اسی دوران اس کے سامنے اس کی بیوی آگئی۔ اس نے پٹائی شروع کر دی کہ تو یہ کیا گل کھلاتی ہے۔ تو اس عورت نے کہا کہ تجھ سے کسی نے بکا اور جس نے بکا، جھوٹ بکا۔ وہ بولا کہ کوئی جھوٹ کیوں بولے گا؟ عورت بولی کہ میرے اس گھر پر راج کے حسد کے سبب سے تاجر ہنس دیا۔ کہ طوطے کو تیرے راج سے کیا حسد ہو سکتا ہے؟

عورت کے دل میں انتقام کا الاﺅ جلنے لگا کہ اس کی اتنی جرات اور طوطے کو سبق سکھانے پر غور کرنے لگی۔ ایک رات تاجر گھر سے باہر تھا اس عورت نے ایک ملازمہ کو حکم دیا کہ چکی کو طوطے کے پنجرے کے قریب چلانا شروع کر دے۔ مگر طوطا نہ دیکھ پائے۔ چکی بجلی کڑکنے کی آواز میں چلنے لگی۔ دوسری ملازمہ کو حکم دیا کہ بارش کی صورت میں پنجرے اور اس کے ارد گرد پانی برسانا شروع کر دے۔ جبکہ تیسری کو کہا کہ اس گھپ اندھیرے میں تو کافور کی موم بتی جلا اور پنجرے کے سامنے آئینہ رکھ دے کہ جس سے یہ محسوس ہو کہ بجلی کڑک رہی ہے۔ غرض پوری رات یہ تماشا چلا اگلے دن جب تاجر گھر واپس آیا تو طوطے سے حسب معمول باتیں کرنے لگا ۔ طوطے نے شکایت کی کہ کل ساری رات بجلی کڑکتی رہی ۔ موسلا دھار بارش ہوتی رہی مگر تیری بیوی نے زحمت نہ کی کہ میرے پنجرے کو اٹھا کر اندر رکھ دیتی۔ تاجر ششدر رہ گیا بولا کل رات تو نہ بجلی کڑکی نہ بارش ہوئی۔ بیوی اسی وقت کی منتظر تھی۔ جھٹ بولی اس دن بھی اس نے مجھ پر ناحق الزام دھرا تھا۔ تاجر غصے سے بے قابو ہو گیا اور طوطے کوپنجرے سے نکال کر زمین پر پٹخ دیا۔ طوطے کی حقیقت ہی کیا تھی وہیں مر گیا۔

کچھ دنوں بعد ایک ملازمہ جسے مالکن نے ملازمت سے نکال دیا تھا اس تاجر کے پاس آئی کہ اس طوطے نے سچ کہا تھا اور اگر یقین نہ ہو تو آج رات نظارہ دیکھ لینا۔ تاجر گھر سے جانے کا بہانہ کر کے قریب ہی چھپ گیا تو رات کو اس نے وہ سب دیکھ لیا جس کی منظر کشی طوطے نے کی تھی۔ تاجر کی آنکھوں میں اپنے وفادار جانور کی المناک موت کا منظر پھر گیا کیونکہ اس وقت ایک طوطے کا پر کہیں سے اڑتا ہوااس کی جھولی میں آ گرا تھا۔

پاکستان میں جمہوریت کی حالت بھی اسی طوطے کی مانند ہے جس کو پسندیدگی سے خریدا جاتا ہے پھر پنجرے میں قید کر کے اس سے دل بہلایا جاتا ہے اور جب وہ سچ بیان کرنے لگے تو طاقتور یا تو خود یا کوئی اور اس سے بدظن ہو جاتا ہے۔ کہ وہ گلا گھونٹنے پر تل جاتا ہے۔ کیوں کہ کہیں نہ کہیں رائے کی غلطی ضرور ہوتی ہے اور اسی موقع کی جمہوریت دشمن قوتیں منتظر ہوتی ہیں۔ اب آپ پاکستان کے موجودہ حالات ہی دیکھ لیں آپ جمہوریت میں سو سو خامی نکالنے والوں سے پوچھ لیں کہ اس کا متبادل کیا ہے تو ان کا صرف ایک ہی جواب ہو گا کہ ہماری پسند کا لیڈر ورنہ کچھ نہیں۔ یعنی وہ اپنی پسندیدگی کو برسر اقتدار لانے کی غرض سے رائے عامہ کا گلا گھونٹنے سے قطعاً پرہیز نہیں کرتے۔ ابھی زیادہ مدت نہیں گزری کہ گذشتہ انتخابات پر 35 پنکچروں کا الزام دھرا گیا تھا۔ چلو جنہوں نے الزام دھرا ان کا تو ایک واضح مقصد تھا اقتدار حاصل کرنا مگر جو شریک رہے کہ اس الزام کو عوام میں حقیقت بنا کر پیش کرتے رہے وہ اب بھی دھڑلے سے اپنے آپ کو گنگا نہایا پیش کرتے ہیں۔ شام کو ٹیلی ویثرن سکرینوں پر ایسے نظر آتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑا سچا اس وقت روئے زمین پر موجود ہی نہیں۔ اخلاقی گراوٹ اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ جب نوازشریف علاج کی غرض سے لندن میں مقیم رہے تو یہ ثابت کرتے رہے کہ وہ کسی مرض کا شکار نہیں ہیں۔ اب ان کی اہلیہ ایک موذی مرض سے مقابلہ کر رہی ہے مگر یہ ایک ہی دھن سنا رہے ہیں کہ یہ سب ڈرامہ ہے۔ حالانکہ ڈرامہ تو یہ تھا کہ 35 پنکچر والی بات کو خود الزام لگانے والوں نے تسلیم کر لیا کہ ایک سیاسی ڈرامے سے زیادہ اس کی حقیقت کچھ نہیں۔ مگر وہ پھر بھی صادق اور امین ہی ٹھہرے۔ ویسے طوطے کی کہانی سے ایک اور سبق بھی ملتا ہے کہ حقیقت چھپ نہیں سکتی۔ پتہ نہیں کیوں جنرل ریٹائرڈ احتشام ضمیر مرحوم یاد آ رہے ہیں جوضمیر کی بات کہہ کر اس دنیا سے چل بسے تھے۔ کیونکہ آنسو بہانے کے لئے کوئی نہ کوئی گواہ مل ہی جاتا ہے۔ حالانکہ اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).