انتظار صاحب‘ آنسو اور معذرت


یہ بیان اس عمومی تصویر سے مختلف ہے جو ہم سب کے ذہنوں میں محفوظ ہے مگر یہ لحاظ رہے کہ یہ بیان آننتھ مورتی کا ہے جن کو خود انتظار صاحب اپنا قریبی دوست گردانتے تھے۔ اور ان پر پورا مضمون لکھ دیا تھا۔

اعتبار کیسے نہ کیجئے، میں اس دُبدھا میں تھا کہ وہ مضمون میرے دھیان میں آگیا۔ ’’دوست اس طرح بھی بنتے ہیں۔۔۔‘‘ اس مضمون کا نام ہے اور یوں شروع ہوتا ہے: ’’یہ تو لندن جا کر کھلا کہ آننتھ مورتی جی سے میرا تعلق اب رسمی علیک سلیک والا نہیں ہے۔ چپکے ہی چپکے دل کو دل سے راہ ہوئی ہے۔ اور ایک قلبی رشتہ قائم ہوچکا ہے۔۔۔‘‘ دوست نئے ہوں یا پرانے، جذباتی وابستگی کا ایسا برملا اظہار ان کے ہاں کم نظر آتا ہے۔

لندن میں ملاقات کے دوران آننتھ مورتی نے یہ ذکر کر دیا تھا کہ وہ آپ بیتی لکھ رہے ہیں اور ایک باب انتظار صاحب پر بھی باندھا ہے۔ یہ بات انتظار صاحب کو یاد رہ گئی اور اپنے مضمون کے آخر میں اس کا تذکرہ کر ڈالا:

’’اور ہاں وہیں لندن کی ملاقات میں وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے اپنی جیون کتھا لکھی ہے۔ اس میں تمہارا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ اچھا؟ میں کتنا حیران ہوا۔‘‘

اس سے وہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں؛ جو مضمون کا نقطۂ منتہا ہے:

’’ارے تو کیا واقعی کسی سچی پکی دوستی کا ڈول پڑ چکا ہے۔۔۔‘‘

ذکر لکھا جا چکا تھا، اس کی اطلاع مل گئی مگر یہ کیسے معلوم ہوتا کہ اس میں لکھا کیا ہے اور اس کا کیا شاخسانہ بن سکتا ہے۔ اس قصّے کو پورا ہونے میں وقت لگتا ہے۔

اس مضمون کے ساتھ بھی ایک یاد جُڑی ہوئی ہے مضمون لکھ رہے ہیں، یہ میں نے سُن لیا تھا، پھر موضوع سے بھی مجھے دل چسپی تھی۔ اس لیے فوراً ان سے مانگ لیا۔ انھوں نے مضمون پورا اور میرے رسالے کے لیے بھیج دیا۔ میں نے پڑھا تو ایک کمی کا احساس ہوا۔

اس میں کئی شہروں میں ملاقات کا ذکر ہے مگر برلن کا نام بھی نہیں۔ ’’برلن میں کون سی ملاقات ہوئی تھی؟‘‘ انھوں نے الٹا مجھ سے پوچھ لیا۔ میں تو وہاں موجود تھا، اس گفتگو میں بھی شریک تھا جب آننتھ مورتی نے ساہتیہ اکادمی کے لیے پاکستانی کہانیوں کا انتخاب کرنے کی بات کی تھی۔ انھوں نے میری بات سن لی مگر جیسے اس پر اعتبار نہیں کیا۔ ’’مجھے ایسی کوئی ملاقات یاد نہیں آرہی۔۔۔‘‘ انھوں نے صاف جواب دے دیا۔

دوچار تصویروں کے حوالے دیے۔ پھر ان کی تحریر کا حوالہ دیا۔ ان کے سفروں کا احوال ’’نئے شہر پرانی بستیاں‘‘ میں درج ہے جو 1999ء میں شائع ہوا۔ نیپال کے اس سفر کو چھوڑ کر کتاب زیادہ تر ہندوستان کے اسفار کا تذکرہ ہے۔ باقی ساری شہر آخر میں سمیٹ لیے ہیں اور ’’پورب گئے پچھّم گئے‘‘ کے نام سے آخری باب میں یورو پ کے شہروں کے ساتھ برلن کا ذکر بھی آیا ہے۔ اس باب میں لکھا ہے:

’’ 97ء میں اسی ادارے نے برصغیر کی آزادی کی گولڈن جوبلی منانے کا اہتمام کیا۔ ہندوستان سے جو لکھنے والے آئے ان میں اردو کا لکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ دوسری زبانوں کے تھے جن میں صرف پروفیسر اننت مورتی سے پہلے سے متعارف تھا۔ باقیوں سے تعارف وہیں ہوا۔۔۔‘‘

باقیوں میں نرمل ورما، کیدار ناتھ سنگھ، دلیپ چترے، گیتا ہری ہرن جیسے لوگ تھے مگر انھوں نے نام صرف اننت مورتی کا لیا۔ پھر اسی سفر کو بھول گئے۔ ان کو وہ سفر یاد آیا نہ انھوں نے مضمون میں ترمیم کی۔ مضمون جیسا لکھا گیا تھا، اسی طرح ’’دُنیازاد‘‘ میں چھپ گیا۔ اس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ انھوں نے اس طرح کے شخصی مضامین کم لکھے ہیں۔ آخری دنوں میں وہ ارادہ کر رہے تھے کہ دوچار لوگوں پر اور لکھیں گے۔ سعید محمود پر مضمون باندھا تھا اور مظفر علی سیّد پر۔ مظفر صاحب کا کچھ احوال ان کے کتاب کے دیباچے میں آگیا مگر یہ منصوبہ ادھورا ہی رہ گیا کیونکہ ان کی زندگی کا افسانہ ختم ہو رہا تھا۔

خیر، یہ اکلوتا مضمون ہی کافی ہے۔ راوی ثقہ ہے اور اسے صاحبِ افسانہ کا قرب بھی حاصل ہے اس لیے نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں۔ مجھے حیرت ہے تو اس بات پر کہ یہ ذکر کہیں اور آیا کیوں نہیں۔ یہ بات ایسی تو نہ تھی کہ چپ چاپ دبا دی جاتی۔ انتظار صاحب کا ردعمل یعنی ان کے آنسو بہت واضح ہیں اور ان کی معافی محض انفرادی فعل نہیں، ہم سب کی طرف سے ہے۔ اس لیے اس کی خبر بھی ہونا چاہیے۔ ان کے آنسوئوں کے بھی تو معنی ہیں۔

ذاتی زندگی میں نہ سہی، انتظار صاحب قوی سانحات پر رو سکے تھے؟ اب میرے ذہن میں یہ سوال گردش کررہا ہے، 1971ء کے واقعات کا پورا ایک سلسلہ ٹوٹ ٹوٹ کر ان کے افسانوں میں بیان ہوا ہے، ’’شہر افسوس‘‘ پھر ’’بستی‘‘ میں ڈھل جاتا ہے۔ ان تحریروں کےعلاوہ مجھے دو اور مواقع یاد آتے ہیں جب میں نے ان کو اس بارے میں بولتے سنا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر میں ڈاکٹر جعفر احمد نے ایک گفتگو کا اہتمام کیا تھا۔ انتظار صاحب نے ’’بستی‘‘ کا یہ باب پڑھ کر سنایا تھا، پھر مجھ سے اس بارے میں مکالمہ کیا تھا۔ یہ گفتگو رکارڈ بھی ہوئی تھی۔ اس کے بعد بنگلہ دیش کی پروفیسر نیاز زمان نے 1971ء کے حوالے سے پاکستان اور بنگلہ دیش کی نثری تحریروں کا انتخاب Fault-lines کے نام سے کیا تھا جس میں مَیں ان کا شریک کار تھا۔ پروفیسر نیاز زمان کراچی آئی تھیں تو صبین محمود والے ٹی ٹو ایف میں باضابطہ ایک پوری محفل منعقد ہوئی تھی۔ اس میں اسد محمد خان اور مسعود اشعر بھی شریک تھے اور نیاز زماں نے اپنی تلخی بھرے گلے شکوے کو شکر میں لپیٹنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے انتظار صاحب کی گفتگو میں ایسی کوئی بات نہ تھی جو ان کی تحریروں سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔

کٹھ منڈو والی صورت حال پھر پیدا نہیں ہوئی۔ مگر میں سوچ رہا ہوں کہ یہ آنسو اور معذرت والی بات سامنے کیوں نہ آئی۔ اس کا کوئی ذکر سننے میں نہیں آتا۔ یہ آنسو ہے وقعت تو نہیں ہوسکتے تھے۔

یہی بات سوچتے ہوئے انتظار صاحب کی کتاب دوبارہ الٹ پلٹ کردیکھی۔ خود انھوں نے یہ تذکرہ نہیں کیا۔ وہ وہاں تک پہنچتے ہیں پھر دوسری طرف مُڑ جاتے ہیں کہ ہمیں شک بھی نہیں ہوتا کہ یوں بھی ممکن تھا۔ شہید اللہ قیصر کی بیگم سے اپنے تعارف کا ذکر کرتے ہیں:

’’بنگلہ دیش کی خواتین کو اس سفر میں پہلے نیلم احمد بشیرنے دریافت کیا۔ انتظار صاحب لکھتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ گُھلی ملی بیٹھی‘‘ ہے اور آواز دے کر بلاتی ہے، پھر پوچھتی ہے ’’انتظار صاحب ان سے آپ نہیں ملے۔‘‘ ان میں ایک نمایاں اور باوقار خاتون پنّا قیصر ہیں، شہید اللہ قیصر کی بیگم۔ اس نام پر انتظار صاحب چونک جاتے ہیں۔

پھر یہ بتاتے ہیں کہ جب یہ خبر وہاں یعنی پاکستان پہنچی تھی تو ’’اس خبر نے سب سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو پریشان کر دیا تھا۔۔۔‘‘

یہ مکالمہ آگے چلتا ہے مگر پھر رک جاتا ہے:

’’ہم سب ہی چپ ہوگئے۔ ایک افسردگی کی فضا پیدا ہوگئ۔۔۔‘‘ اور اس کے بعد ’’پھر خاموشی چھا گئی۔۔۔‘‘

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3