انتظار صاحب‘ آنسو اور معذرت


انتظار صاحب کے اپنے بیان میں بعض اسی تفصیلات مفقود ہیں جن کا ذکر آننتھ مورتی نے کیا ہے۔ یہ کیسے؟ ان کی مانیں یا اُن بات مانیں؟ دونوں میں سے کس کی بات؟ ذہن میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ انتظار صاحب نے دانستہ طور پر یہ ذکر گول کر دیا ہو۔ وہ اپنی بعض تفصیلات اور احساس کو نجی اور ذاتی سمجھتے ہوئے اپنے پڑھنے والوں سے چھپا جاتے تھے۔ انھوں نے شاید یہ لکھنا مناسب نہ سمجھا ہو۔ لیکن ایسا کیوں؟ جب واقعہ یوں ہوا تو لکھا جانا چاہیے تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ سوال کہ کیا انتظار صاحب خود اپنی روداد کے نامعتبر راوی un-reliable narrator ہیں جیسے کہ جدید ناول میں ہوا کرتا ہے۔

دونوں بیانات میں تفادت ہے۔ پھر کس کی بات کا اعتبار کریں اور کس کی بات کا نہ کریں؟ پھر خیال آیا اس سفرمیں انتظار صاحب نے ایک رفیق سفر کا ذکر بھی تو کیا__

’’دل کو دلاسہ دیتے ہوئے میں نے سوچا کہ اچھا اکیلا تو نہیں ہوں۔ اکیلے سفر سے بھی تو میں ڈرتا ہوں۔ نیلم احمد بشیر بھی توہمراہ ہوں گی۔ یہ سہارا اس وقت کتنا غنیمت نظر آیا۔۔۔‘‘

تو اس سہارے کو ہم بھی غینمت سمجھ لیتے ہیں۔ اس واسطے کہ نیلم احمد بشیر نے نیپال جاکر سفرنامہ بھی لکھ دیا، اور یوں ایک بڑی داستان کا ادبی حصّہ بن گئیں۔

نیلم احمد بشیر کا سفرنامہ ’’نیلہ نیپالہ میں‘‘ بہت پہلے پڑھا تھا۔ اب پھر ڈھونڈ ڈھانڈ کر نکالا۔ کتاب اپنے طور پر دل چسپ ہے اگرچہ پہلا سفر نامہ لکھنے کے اکسائٹمنٹ میں کہیں کہیں سانس پھولنے لگتی ہے جیسے پہاڑی اونچائی پر سے تیزی کے ساتھ اُتر رہی ہوں۔ خیر اس وقت تو میں اس کتاب کو جمال ہم نشیں کی تلاش میں پڑھ رہا ہوں کہ انتظار صاحب کی جھلک نظر آجائے مگر وہ بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔

بنگلہ دیش کے ادیبوں سے ملنے کے بعد 1971ء کا سایہ نیلم احمد بشیر کے خوش گوار موڈ پر بھی پڑجاتا ہے:

’’یہ سُن کر مجھے بہت افسوس اور کچھ شرمندگی سی محسوس ہوئی کہ بنگلہ دیش کی 1971ء کے بعد کی جنریشن کے لوگ ہمیں کتنا ظالم اور کیسا monster سمجھتے ہیں۔ انھوں نے ویسے بھی ہم مغربی پاکستانیوں سے کبھی deal ہی نہیں کیا اس لیے ان کی تاریخ ہمیں اسی طرح پیش کرتی ہوگی! کیا واقعی ہم اتنے بُرے، اتنے غاصب، اتنے بے انصاف تھے؟ کیا واقعی تاریخ ہمیں بددیانت رقم کرے گی؟‘‘

اس قسم کے کے معصومانہ جذبات کے بعد وہ شہید اللہ قیصر کی بپتا ان کی بیگم سے سُنتی ہیں۔ نیلم احمد بشیر نے یہ ماجرا دکھ کے گہرے احساس کے ساتھ اور قدرے تفصیل سے لکھا ہے۔ اور اس طرح لکھا ہے کہ ہم سب کو پڑھنا چاہیئے۔ پھر اس کے بعد ان کا بیان اس لمحے کی طرف مڑ جاتا ہے جس کو آننتھ مورتی نے زمان و مکاں سے ماورا قرار دیا تھا۔ ان کے بیان میں بھی آننتھ مورتی سامنے آتے ہیں مگر ان کا رول بدل گیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں:

’’پنّا قیصر کی کہانی اتنی درد ناک تھی کہ ہر شخص Spell-bound سا ہو کر بس سُنتا ہی چلا گیا۔ بہت سی خواتین کے چہرے غم گین ہوگئے اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ شوبھا اور سدھارتھ نے چائے کی بریک کا اعلان کر دیا کیوں کہ ماحول بہت سوگوار اور گھمبیر ہوچلا تھا۔۔۔‘‘

اس اقتباس میں چند خواتین کے چہروں اور آنسوئوں کا ذکر ہے، جس زمرے میں انتظار صاحب نہیں آتے۔ نیلم احمد بشیر نے کم لکھا ہے مگر یہاں بھی تنائو کا احساس واضح ہے۔ لیکن پیراگراف ختم ہونے سے پہلے آننتھ مورتی بیانیے میں داخل ہو جاتے ہیں:

’’اس سے پہلے کہ سب لوگ اٹھتے آننتھ مورتی صاحب نے اپنی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ سب کو باہر آنے کی دعوت دی۔ وہ سب کو کچھ دکھانے کے لیے بہت مشتاق نظر آرہے تھے۔۔۔‘‘

ظاہر ہے کہ جو وہ دکھانے کے لیے مشتاق تھے، ہمالیے کا نظارہ تھا، کسی کے آنسو نہیں۔ نیلم بھی وہ منظر دیکھنے چل پڑتی ہیں، آنسوئوں کا ذکر ہے نہ معذرت کا۔ فصیلِ کشور ہندوستان یعنی ہمالیہ کی چوٹیاں کہر سے نکل کر سامنے آگئی ہیں اور انتظار صاحب آنکھوں سے اوجھل۔

نیلم احمد بشیر بہرحال اپنی وضع کی لکھنے والی ہیں اور ان کے ہاں بعض تفصیلات مختلف ہیں__ اب آپ صورت حال دیکھیے کہ ایک کمرے میں کئی ادیب موجود ہیں جن میں سے تین افسانہ نگار اس کمرے میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں لکھیں گے۔ ان کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں، تینوں نے لکھنے کا الگ الگ انداز اختیار کیا ہے۔ کیا وہ ایک ہی واقعے کے بارے میں لکھ رہے ہیں؟ یا پھر انتظار صاحب کے ایک اور دوست، اور 71ء کے بارے میں بڑے موثر افسانے لکھنے والے مسعود اشعر کے الفاظ میں اپنی اپنی سچائیاں بیان کررہے ہیں۔ اگر وہ واقعہ پیش آیا تھا تو کس طرح، جیسے آننتھ مورتی نے لکھا یا جیسے نیلم احمد بشیر نے؟ کس کا بیان واقعیت کے مطابق ہے، اس لیے کہ یہ سوال کسی خیالی موشگافی کی بات نہیں، انتظار صاحب کے آنسوئوں اور معذرت کی بات ہے، جس کی اہمیت ادبی بھی ہے اور اس تناظر میں سیاسی بھی۔

انتظار صاحب کے دوست اور معروف نقاد مظفر علی سیّد کو جاپان کی فلم ’’راشومون‘‘ بہت پسند تھی۔ یہاں تک کہ انھوں نے آکوٹا گاوا کی اس کہانی کا بھی اردو میں ترجمہ کر ڈالا جس سے اس فلم کی کہانی ماخوذ تھی۔ بدلتے ہوئے راوی اور راوی کے ساتھ بدلتے ہوئے واقعات کو اس فلم میں بڑی چابک دستی سے نبھایا گیا ہے یہاں تک کہ بعض تجزیہ نگار ایسی صورت حال کے لیے ’’راشومون‘‘ کے نام کو اصطلاح کے طور پر استعمال کرنے لگتے ہیں۔ ممکن ہے کہ مظفر علی سیّد کے توسط سے ’’راشومون‘‘ کا اثر انتظار صاحب تک بھی پہنچا ہو__ یہ اس لیے قرین قیاس ہے کہ مظفر علی سیّد کے اصرار پر انھوں نے تانی زاکی کے ایک افسانے کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ مگر یہ کسی نے خواب میں بھی نہ سوچا ہوگا کہ راشومون کا سا اثر خود انتظار صاحب کے گرد قائم ہو جائے گا اور ہم سوچتے رہ جائیں گے کہ آنسو خیالی ہیں یا امر واقعہ؟ آننتھ مورتی کے بیان پر انتظار حسین کے رفیقِ دیرینہ ناصر کاظمی کا شعر یاد آتا ہے:

واقعہ یہ ہے کہ بدنام ہوئے

بات اتنی تھی کہ آنسو نکلا

اس شعر کے حوالے سے انتظار صاحب نے احمد مشتاق کی غزل پر مظفر علی سیّد کی داد کا ذکر کیا ہے جو ہتھیلی پر ٹپکنے والے ایک آنسو کی صورت ادا ہوئی تھی۔ بدنامی کا محل نہیں لیکن آنکھ کا ایک آنسو بھی واقعہ بن سکتا ہے۔

اپنے بارے میں جب بھی لکھنے کا موقع آتا تو انتظار حسین کنّی کاٹ جاتے۔ مگر اس بار ان کے آنسو ان کے دوست آننتھ مورتی نے تاریخ کے مال خانے میں محفوظ کر دیے۔ اب یہ محض ایک فرد کا شخصی روّیہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3