بیوی کو جلاؤ نہیں، طلاق دے دو


گزشتہ دنوں میں نے ویسے ہی ٹوئیٹر پر زیادہ وقت گزارنا شروع کر دیا۔ کسی بھی کتاب کو پڑھنے کی نسبت مجھے وقت گزاری کے لئے اس کا زیادہ مزا آ رہا تھا۔ کچھ خواتین کی تصویریں نظر سے گزریں جنہوں نے آسان اردو میں لکھے کتبے اٹھا رکھے تھے کہ اپنا کھانا خود گرم کر لو، اپنی روٹی خود بنا لو وغیرہ اور پھر اس کے نتیجے میں سوشل میڈیا پر چھڑی ایک جنگ اور بھانت بھانت کی آوازیں۔ اس کے بعد کچھ خواتین اور بچیوں نے سائیکلیں چلائیں، تصویریں سوشل میڈیا پر لگائیں اور یہ بات بھی ایک کثیر طبقے کو زیادہ پسند نہ آئی۔

مجھے خواتین کا یہ دستہ اس لئے پسند آیا کہ وہ اس گھٹے ہوئے معاشرے میں سڑکوں پر نکلیں اور ایک ہجوم بنا کر بولیں اور چاہے ان کے مطالبات کچھ لوگوں کو ’روٹی نہیں ملتی تو کیک کھا لو‘ یسے مطالبات لگے مگر انہوں نے ایک تحریک تو پیدا کی کیا جس سے کم از کم سوشل میڈیا پر ایک مکالمہ شروع ہوا۔ ان عورتوں نے ایک تاثر دیا کہ اگر عورتیں مل جائیں تو یہ بھی ایک بہت بڑی قوت ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب پلڑا ایک طرف کو بہت زیادہ جھک جائے تو دوسری طرف بہت شدت سے دباؤ ڈالنا پڑتا ہے تبھی پلڑے برابر ہوتے ہیں تو کچھ لوگوں کو اگرچہ ان کے مطالبات ایک حد کو چھوتے ہوئے محسوس ہوئے مگر انہی خواتین کی وجہ سے کم از کم کچھ درجوں پر ایک مکالمے کا آغاز ہوا۔

کیا خواتین کی بھی حق تلفی ہوتی ہے؟ اس بات کا ادراک کرنے میں مجھے وقت لگا۔ دو بھائیوں کی اکلوتی، چھوٹی اور لاڈلی بہن ہونے کے ناطے میں نے بچپن میں تو ان کی کافی حق تلفی کی۔ پھر میاں صاحب بھی ہر وقت اپنی قربانیوں کا ذکر کر کے مرد کی مظلومیت کا تاثر میرے ذہن میں بٹھاتے رہتے ہیں اور وہ تو گول روٹی بھی بنا لیتے ہیں۔ زندگی کے کچھ تلخ تجربات نے میری آنکھیں کسی حد تک کھولیں مگر تجزیہ میں نے فرصت میں بیٹھ کر ہی کیا۔

میرے گھر میں کام مدد کرنے والی عورت کا میاں بھی کبھی کبھی میرے گھر میں کچھ کام کاج یا پنکھوں کی صفائی وغیرہ کے لئے آتا ہے۔ وہ مجھ سے بات کرنا پسند نہیں کرتا۔ عموماً مجھے ٹوک دیتا ہے کہ باجی یہ بات آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ صاحب گھر آئیں گے تو میں ان سے بات کروں گا۔ عام زبان میں ترجمہ کریں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ باجی آپ ایک ناقص العقل عورت ہیں جس سے بات کرنا میری شان کے خلاف ہے، میں مرد سے ہی بات کروں گا۔ وہ عورت کے لئے جو حقارت اپنے دل میں محسوس کرتا ہے وہ مجھ سے بات کرتے ہوئے بھی اس کے لہجے سے نہیں جاتی۔ یہی ہمارے ملک میں کثیر تعداد میں پایا جانے والا طبقہ ہے، یہی سوچ اور یہی دماغی استعداد کا معیار۔ اس کی سمجھ میں کوئی بات بٹھانے کے لئے بہت آرام سے اور درجہ بہ درجہ بات کرنا پڑتی ہے ورنہ وہ ہتھے سے ہی اکھڑ جاتا ہے۔

آج صبح نیوز چینل پر ایک خبر دیکھی جس میں ایک خاتون کو سسرال والوں نے پیٹرول چھڑک کر اور آگ لگا کر جلا دیا تھا۔ اس واقعہ سے دو ملتے جلتے واقعات میرے دماغ میں تازہ ہوئے۔ ایک تو امی کی دوست، جب ایک کرائے کے مکان میں منتقل ہوئیں تو ان کے کچن کے دروازے پر ایک جلے ہوئے شخص کا نشان تھا۔ ان سے قبل اس گھر میں رہنے والے میں بیوی کے جھگڑے میں میاں نے بیوی کو تیل چھڑک کر آگ لگا دی اور اسے پکڑ کر کچن کے دروازے سے اس وقت تک لگائے رکھا جب تک کہ اس کا دم نہیں نکل گیا۔ اس نے اپنے جلے ہوئے ہاتھوں کی یہ توجیہہ پیش کہ بیوی کے جسم کی آگ بجھانے میں یہ ہاتھ جل گئے۔ اڑوس پڑوس میں سے کوئی نہ بولا کہ آخر پرائے معاملے میں کوئی کیوں آئے اور پولیس نے چند پیسوں کے عوض یہ معاملہ دبا دیا۔

اسی طرح ایک اور شناسا ایک اعلی تعلیم یافتہ خاتون کو ان کے شوہر نے جلا دیا تھا، بچے ننھیال منتقل ہو گئے اور اس وقت وہ یہی بتا رہے تھے کہ بابا نے ماما کو خود آگ لگائی مگر جب ننھیال والوں نے یہ ادراک کیا کہ بچوں کی تعلیم اور دیگر اخراجات بھی انہیں ہی برداشت کرنا پڑیں گے تو بچوں تک کو بیان بدلنے پر مجبور کر دیا اور انہوں نے کہا کہ ماما تو اکثر کہتی تھیں لڑائی کے بعد کے میں خود کو جلا لوں گی اور آخر کار انہوں نے جلا ہی لیا خود کو۔ پولیس نے ایک بار پھر معاملہ بس دبا دیا۔

یہ دو واقعات تو میں نے اپنے اردگرد دیکھے اور اس کے علاوہ سینکڑوں واقعات ایسے ہمارے ملک میں پیش آتے ہیں جن میں گھر میں تیل کا چولہا بس گھر کی عورت کو ہی جلاتا ہے۔
میں اکثر سوچتی ہوں کہ آخر لوگ جلاتے اور مارتے کیوں ہیں بس سیدھے سیدھے طلاق کیوں نہیں دے دیتے؟

اسی طرح جب غیرت کے نام پر لڑکی کو قتل کر دیتے ہیں تو میں سوچتی ہوں کہ اچھا اگر ان کی مطابق غلط لڑکے سے شادی کر رہی تھی تو کرنے دیتے، خود ہی اپنا غلط فیصلہ بھگتنے دیتے، مار کیوں دیتے ہیں؟

اور جب رشتہ سے انکار پر تیزاب پھینک دیتے ہیں تو۔
مگر اگر میں اپنی کام میں مددگار عورت کے میاں کو ذہن میں رکھ کر سوچوں اور وہ درجہ جو وہ عورت کو دیتا ہے اس سے ہر سوال کا جواب مل جاتا ہے۔

اس کی سوچ کے مطابق عورت جو ایک ناقص العقل مخلوق ہے، جس کو شادی کے بعد ایک بے دام غلام کی طرح رہنا چاہیے اگر وہ کسی بات پر آواز اٹھائے تو بس اس کو کچل کر، مار کر، جلا کر رکھ دینا چاہیے۔ طلاق دینا تو بس کسی کو عزت سے چھوڑ دینا ہے اور یہ عزت تو برابری والوں کو ہی ملنا چاہیے۔ جب عورت ایک زمین کی طرح کی ملکیت ہے تو اس پر حق بھی تو اسی طرح کا ہو، آخر یہ اپنے فیصلے خود کیسے کر سکتی ہے اور جب عورت ایک غلام کی طرح ہے تو وہ کسی فیصلے سے انکار کی جرات کیسے کر سکتی ہے۔

اگر اس جیسے شخص کو اگر اس کی بیوی کہے کہ اپنا کھانا خود گرم کر لو؛ وہ تو اس مطالبے کو بس مکھی کی طرح اڑا کر ہی رکھ دے گا۔
اسی طرح ایک دوست کی جب طلاق ہوئی تو اس کے سسرال والوں کا تحقیر بھرا لہجہ جو اس نے بتایا کہ ہم“ لڑکے والے ہو کر“ آپ سے بات کرنے کو اگر تیار ہیں تو اس کو ہی بہت جانیں۔

عورت کو نچلا درجہ اور مقام دینا تو ہمارے ہر طبقے کے ڈی این اے میں کندہ ہے اس کو ایک کونے سے مٹا دینا شاید ناممکن ہے۔

ہمیں تو بہت درجہ بدرجہ آرام سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلے درجے پر تو بس یہ بات کہ
جلاؤ نہیں طلاق دے دو
مارو نہیں اپنا فیصلہ خود بھگتنے دو

اس سے ایک درجہ آگہی والے طبقے کے لئے

عورت کو برابر کا پڑھا لکھا کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے دو
اکیلی عورت کو جینے دو
طلاق شدہ عورتوں کو بھی عزت دو

اور سب سے بڑھ کر قانون اور عدالتی نظام کو درست کرنے کا مطالبہ
اور شاید پھر سب سے آخر میں اپنا کھانا خود گرم کر لو اور اپنی روٹی خود بنا لو؟
مگر پھر بھی یہ مکالمہ جو شروع ہوا ہے اسے جاری رہنا چاہیے کیونکہ بات کرنے سے فرق پڑتا ہے، میں نے خود ایسا ہوتے دیکھا ہے۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim