شادی شدہ زندگی کو جہنم بنانے والے بعض نفسیاتی مسائل


’ہم سب، پر جب سے میں نے ماہرِ نفسیات کی ڈائری کا سلسلہ شروع کیا ہے مجھے ہر ہفتے فیس بک، مسینجر یا ای میل سے ایک دو خطوط موصول ہوتے ہیں جن میں ’ہم سب، کے قارئین اپنے نفسیاتی مسائل کے لیے مشورے مانگتے ہیں اور میں اپنی تمام تر پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوجود ان خطوط کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ ان خطوط کا جواب دیتے ہوئے میں سوچتا ہوں کہ نجانے اور کتنے لوگ ہوں گے جو خطوط لکھنے اور اپنے مسائل کے بارے میں مشورہ مانگنے سے کتراتے اور ہچکچاتے ہوں گے۔ اس لیے یہ کالم ان دوستوں کے لیے ہے۔

میں ان تمام دوستوں کے مسائل کو جنہوں نے مجھے خط لکھے تین گروہوں میں بانٹ سکتا ہوں
پہلا گروہ ان مردوں اور عورتوں کا ہے جو احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔ عورتیں سمجھتی ہیں کہ وہ خوبصورت نہیں ہیں اور مرد سمجھتے ہیں کہ وہ ذہین نہیں ہیں۔

ایسے مردوں اور عورتوں کا اکثر اوقات تعلق ایسے خاندانوں سے ہوتا ہے جن میں وہ اپنے بچپن میں اپنے ماں باپ کی محبت سے محروم رہتے ہیں۔ ایسے ماں باپ اپنے بچوں سے پیار کرنے کی بجائے انہیں اپنی تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ میں ایسے دوستوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی شخصیت میں وہ تحفہ تلاش کریں جو انہیں فطرت نے دیا ہے۔ وہ کوئی مشغلہ ڈھونڈیں اور کسی دلچسپ پروجیکٹ میں شریک ہوں۔ جوں جوں وہ اپنی خفیہ صلاحیتوں کو جانیں پہچانیں گے اور اپنے دوستوں کو اپنے پروجیکٹ میں شریک کریں گے انہیں کامیابی کا احساس ہوگا جو ان کے احساسِ کمتری میں کمی کرے گا۔

ہماری کامیابی ہماری خود اعتمادی میں اضافہ کرتی ہے۔ ہم سب کو اپنے ارد گرد ایسے دوست رکھنے چاہئییں جو ہماری عزت کرتے ہوں ہمارا احترام کرتے ہوں اور ہماری کامیابیوں میں خوشی محسوس کرتے ہوں۔ جب ہم جوان ہو جاتے ہیں تو ہم اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزارنے کے قابل ہوتے ہیں اور اپنی زندگی اور اپنی صحت کا خیال رکھ سکتے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص کو اپنی خوشی کی خود ذمہ داری اٹھانی ہوگی ورنہ ہم دوسروں کے رحم و کرم پر زندگی گزارتے رہیں گے اور ناکامی کی صورت ان کو موردِ الزام ٹھہراتے رہیں گے۔

دوسرا گروہ ان مردوں اور عورتوں کا ہے جو شادی شدہ ہیں لیکن انہیں یوں لگتا ہے جیسے ان کی شادی سے محبت غائب ہو گئی ہے۔ وہ اپنی روز مرہ زندگی کی ذمہ داریوں میں اتنے الجھ گئے ہیں اور اپنے کام اور بچوں کی نگہداشت میں اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ اپنا خیال رکھنا بھول گئے ہیں۔ میں ایسے دوستوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنے شریکِ سفر سے کھل کر بات کریں اور مل کر اپنے مسئلے کو سلجھائیں۔ میں انہیں یہ بھی مشورہ دیتا ہوں کہ وہ میاں بیوی کے طور پر باہر جائیں اور زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ لنچ پر جائیں، ڈنر کھانے جائیں، فلم دیکھیں، کونسرٹ سنیں۔

بعض دفعہ زندگی کی ذمہ داریاں محبت کو دیمک کی طرح کھا جاتی ہیں۔ شادی میں محبت کو زندہ رکھنا ایک فن ہے جس سے بہت سے شادی شدہ لوگ ناواقف ہیں۔ اگر آپ نے اپنے ماں باپ کو پیار بھری باتیں کرتے نہیں سنا تو وہ فن آپ کو خود سیکھنا ہوگا۔ میاں بیوی نے اگر خوشحال زندگی گزارنی ہے تو انہین ایک دوسرے کا دوست اور محبوب بھی بننا ہوگا ورنہ وہ ساری عمر اجنبی بن کر گزار دیں گے۔ میری چھوٹی سے نظم ہے

خواب گاہیں اور خواب
ہماری خواب گاہیں
مشترک ہیں تو
ہمارے خواب
اتنے مختلف کیوں ہیں۔
بدقسمت ہیں وہ جوڑے جن کے رشتے میں محبت ایک شجرِ ممنوعہ بن گئی ہے۔

تیسرا گروہ ان مردوں اور عورتوں کا ہے جو ”گے“ اور ”لیسبین“ (ہم جنس پرست) ہیں اور شادی شدہ ہیں۔ ان لوگوں نے اپنا سچ اپنے خاندانوں سے ہی نہیں اپنے شریکِ سفر سے بھی چھپا رکھا ہے۔ وہ ایک دوہری زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں اپنے شریکِ سفر میں کوئی رومانوی دلچسپی نہیں ہے لیکن انہیں خطرہ ہے کہ اگر انہوں نے اپنا سچ لوگوں کو بتایا تو ان کا دائرہِ حیات تنگ کر دیا جائے گا۔

بعض گے مردوں نے لکھا کہ وہ احساسِ شرمندگی کے ساتھ ساتھ احساسِ گناہ کا بھی شکار ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ میں انہیں کوئی ایسا طریقہ بتاؤں تا کہ ان کے ہم جنسی جذبات غائب ہو جائیں۔ میں نے انہیں صاف صاف بتایا کہ طبی نقطہِ نطر سے بعض انسان ہیٹروسیکشول پیدا ہوتے ہیں جو جوان ہونے کے بعد جنسِ مخالف میں رومانوی دلچسپی رکھتے ہیں بعض ہومو سیکشول پیدا ہوتے ہیں جو اپنی ہی جنس میں دلچسپی رکھتے ہیں اور بعض بائیسیکشول پیدا ہوتے ہیں جو دونوں جنسوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایک صحتمند انسان اپنے سچ کو قبول کرتا ہے اور اس سچ کے مطابق زندگی کے فیصلے کرتا ہے۔

بدقسمتی سے مشرقی ممالک میں دو بالغوں کے رومانوی تعلقات کو بالغوں کے بچوں سے رومانوی تعلقات سے جدا نہیں کیا جاتا۔ مغرب میں یہ فرق واضح ہے۔ وہ لوگ جو دو بالغوں کے ہم جنسی رومانوی تعلقات کو صحیح سمجھتے ہیں وہ بھی بچوں سے رومانوی تعلقات کو غلط جانتے ہیں۔ مغرب میں پولیس پوری کوشش کرتی ہے کہ بچوں کو محفوظ رکھا جائے۔ وہ جوان جو بچوں میں جنسی دلچسپی رکھتے ہیں پیڈوفیلیا کا شکار ہوتے ہیں جو غیر قانونی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی۔ مغرب میں ان کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔

اگرچہ نفسیاتی مسائل کو میں نے تین گروہوں میں بانٹا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کوئی شخص ایک سے زیادہ مسائل کا شکار نہیں ہو سکتا۔ خاص طور پر وہ لوگ جو احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں انہیں اور بھی بہت سے نفسیاتی، ازدواجی، خاندانی اور سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بہت سے لوگ جو احساسِ کمتری کا شکار ہیں وہ احساسِ تنہائی کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ دوسروں کی موجودگی میں بھی تنہا محسوس کرتے ہیں۔ ہر انسان کی یہ نفسیاتی ضرورت ہے کہ اس کی زندگی میں کم از کم ایک شخص ایسا ہو جو اسے سمجھ سکے اور اس کے دل کے راز جان سکے۔
نجانے کتنے لوگ ایسے ہیں جنہیں ساری عمر نہ کوئی دوست ملا نہ محبوب اور ان کا شریکِ سفر بھی نہ تو ان کا دوست بن سکا نہ محبوب۔

مشرق میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے نجانے کتنے لوگ ایسے ہیں جو ہیٹروسیکشول ، ہوموسیکشول ،بائیسیکشول اور ٹرانسیکشول طرزِ زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات رکھتے ہیں اور جو معلومات رکھتے بھی ہیں وہ بھی حقائق سے بہت دور ہیں۔ وہ طبی اور نفسیاتی مسائل کو مذہب کی عینک سے دیکھتے، پڑھتے اور سمجھنے کو کوشش کرتے ہیں۔

میں ”ہم سب“ کے مدیروں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اپنے میگزین میں ایسی فضا بنائی ہے کہ ان سنجیدہ موضوعات پر سنجیدگی سے تبادلہِ خیال ہو سکتا ہے۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ انسانی شعور کا ارتقا ایک سست رفتار عمل ہے لیکن تعلیم کو عام کرنا ہم سب کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے تا کہ ہم اپنے مسائل کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور ان کے بارے میں دانشمندانہ فیصلے کر سکیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail