خوشی ’معجزے ‘ میں پوشیدہ ہے!


\"waqar

میں نے خوشی کو۔۔۔ معجزے میں پوشیدہ دیکھا ہے۔

لغت دیکھی تو عجز۔ معجز۔ اعجاز۔

معجزہ کی فہرست دیکھی۔

اعجاز ’’یعنی عاجز کر دینے والا‘‘

معجزہ کا لغوی مفہوم عاجز کر دینے والے وقوعہ سے ہے ‘ مزید معنی کرامت کے بھی ہیں۔
لفظ کرامت کے معنی ’’بزرگی بڑائی اور کرشمہ‘‘ لکھے ہیں۔

ہم معجزہ کسے کہتے ہیں؟ معجزہ کا ایک سماجی عام فہم مطلب ‘ عقل کے دائرہِ گرفت سے باہر کسی واقعہ کے ہونے کہ ہیں ‘ جو کہ اس لفظ کے لغوی مفہوم سے متصادم ہیں۔ کیسے؟
میرے ہاتھ سے اگر چائے کا کپ نیچے زمین پر گر جائے تو یہ عام سی بات تصور ہو گی لیکن یہی چائے کا کپ میرے ہاتھ سے اڑنا شروع کر دے۔ زمین پر گرنے کہ بجائے اوپر کی طرف جانا شروع کر دے تو یہ معجزاتی بات تصور ہو گی۔ چائے کے کپ کے زمین پر گرنے میں ہمیں کوئی معجزہ دکھائی نہیں دے گا لیکن کشش ثقل کے قانون کو توڑنا یعنی چائے کہ کپ کا اڑنا ہمیں معجزاتی کرشمہ نظر آئے گا۔

جامد ذہن کہتا ہے۔ چیزیں زمین کی طرف گرتی ہیں یہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے اس میں معجزے یا اچنبھے والی کون سی بات ہے۔

تصور کیجئے کہ اس مائنڈ سیٹ کی کتنی فراوانی ہے کہ صدیوں کے بعد ایک نیوٹن پیدا ہوتا ہے۔ متحرک ذہن رکھنے والا نیوٹن حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ وہ سیب کے زمین پر گرنے میں معجزہ دیکھ رہا تھا۔ یہ حیرت انگیز بات اس کو عاجز کر رہی تھی۔ وہ معجز ہو رہا تھا۔

\"sappho5\"یہ بہت دلچسپ موضوع ہے کہ دنیا کی ساری ترقی متحرک ذہن کی دین ہے۔ جامد ذہن دنیا کے تمام معاملات بشمول زندگی کو معمول کے مطابق لیتا ہے۔

ذرا ایک اور مثال کی جانب آئیے۔ اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے درسی کتابوں میں دی گئی شمسی نظام کی اُس واہیات تصویر کو ایک طرف رکھ دیں جو سورج اور دوسرے سیاروں کا بہت بُرا پیمانہ دیتی ہے اور ایک ایسی تصویر کو غور سے دیکھیں جس میں زمین ایک نقطے برابر دکھائی دے رہی ہے تو شمسی نظام کا سکیل زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔

شمسی نظام میں اپنی ’اوقات ‘جاننے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ تمام زمین سمیت تمام سیارے ‘ ان کے چاند‘ اربوں پتھریلے جسموں کے بادل اور شہابِ ثاقب، یہ سب پورے نظام کا 0.2فی صد ہیں۔

باقی کا 99.8فی صد سورج صاحب بنفس نفیس خود ہیں جو بھلے شمسی نظام میں جاہ و جلال رکھتے ہوں لیکن ہماری کہکشاں میں کوئی’ اوقات‘ نہیں رکھتے ‘

ہماری کہکشاں جس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک فاصلہ اتنا ہے کہ اگر آپ کی رفتار300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ ہو ‘ تو آپ کو ایک سرے سے دوسرے سر ے تک پہنچنے میں ایک لاکھ سال درکار ہوں گے۔۔۔ اس مقام پر سورج کی کیا اوقات‘ کہ اس کہکشاں میں ان سے کہیں بڑے ستارے موجود ہیں اور تعداد ستاروں کی200 سے 400 ارب ہے۔

سورج اس سکیل پر ایک ریت کے ذرے کی مانند بھی نہیں ہے۔ اور زمین کو تو چھوڑیے۔ بلکہ اس جگہ سے کوئی زمین کا پوچھ ہی بیٹھے تو قہقہہ لگا دیجئے گا۔ قہقہہ اس مقام پر زیادہ منطقی رد عمل ہو گا

ہماری ملکی وے کہکشاں بھی کیا کہکشاں ہے کہ جہاں اربوں ستارے جگمگا رہے ہیں لیکن یہ کہکشاں بھی اپنی اوقات سے واقف ہے ‘ اس کو معلوم ہے کہ۔

اس جیسی 400 ارب کہکشائیں موجود ہیں اور ہر کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں۔

اب تک کی دریافت کائنات کے کسی ایک کونے میں جو ریت کے ذرے سے بھی مہین چیز ہے یہ آپ کی کہکشاں ہے۔

اس مرحلے پر اگر آپ سے کوئی زمین کا پوچھے تو قہقہہ نہ لگائیے گا۔۔۔ احمق لگیں گے!

\"sapp\"ہاں قہقہہ اس صورت میں لگائیے گا جب آپ کو کوئی کہے کہ ریت کے ذرے سے کروڑوں گنا چھوٹا ایک ذرہ ہے جہاں ایک نوع انسان بستی ہے، وہ سیاسی اور مذہبی طور پرمنقسم ہے، سیاسی تقسیم کو وہ ملکوں کا نام دیتے ہیں۔۔۔ اور وہاں کوئی سنی شیعہ بھی ہیں جو آپس میں لڑتے ہیں۔۔۔

اور اس ذرے۔۔۔ نہیں ذرے کے اربویں حصے جیسی چیز پر انسان نامی نوع ایک دوسرے کو قتل کرتی ہے ‘ اپنی بیٹی کو باپ قتل کر دیتا ہے جو روٹی گول نہیں بناتی۔ (کیا کہا؟ روٹی کیا ہوتی ہے۔۔۔ جانے دیں، لمبی بات ہے)

اور سب سے حیرت انگیزبات جس کائنات کے سرے سے آپ زمین نامی ذرے کا ذکر کر رہے ہیں وہاں کائناتی وقت سے موازنہ کریں تو اس نوع انسان کی زندگی ایک سیکنڈ کا لاکھواں حصہ ہے۔

تو کائنات کے سرے پر یہ معلومات جو کوئی بھی آپ کو دے رہا ہے۔ آپ نے اسے یہ نہیں بتانا کہ آپ کا تعلق اسی ذرے سے ہے۔ اور یہ بالکل نہ بتائیے گا۔۔۔ کہ ایک سیکنڈ سے کم زندگی کی حامل یہ نوع انسان جو کائنات میں لغوی معنوں میں ’ناقابلِ ذکر‘ کے قریب ہے۔۔۔ ناخوش ہے۔ اگر اپ نے ایسا کہا تو ذمہ داری آپ کی ہو گئی۔۔۔ کیونکہ اس کے بعد آپ سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ وہ کیوں خوش نہیں ہے۔۔۔ تو آپ کیا جواب دیں گے۔۔۔ روزگار نہ ملنے پر ناخوش ہیں یا من پسند جگہ شادی نہ ہونے کی وجہ سے پریشان حال ہیں۔ کیا وہاں اس پٹاری کو کھولیں گے کہ ساس بہو کیوں پریشان ہیں یا ماں باپ اس لیے غم زدہ ہیں کہ بیٹے نے میٹرک میں اچھے نمبر نہیں لیے۔۔۔ اور اگر اس طرح کہ جوابات آپ نے دیے تو زناٹے دار تھپڑ کی امید رکھیے گا اور آپکو 300,000 کلومیٹر فی سیکنڈکی رفتار سے واپس زمین پر بھیج دیا جائے گا۔۔۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس رفتار سے سفر کرتے آپ کو زمین تک پہنچنے میں 46 ارب سال لگ جائیں گے !

کیا یہ سب معجزہ نہیں ہے؟ کیا یہ عاجز کر دینے والا معاملہ نہیں ہے؟ علم کی انتہا۔۔۔ عجز کے سوا کیا ہے ؟

کیا اس زندگی کا دورانیہ اتنا ہے کہ میں حسد ‘ غصہ ‘ نفرت جیسے جذبات کا متحمل بھی ہو سکوں ؟

یہ کیا دورانیہ ہے کہ خارجی اور داخلی کائنات کو ایک دفعہ۔۔۔ صرف ایک دفعہ آنکھ بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ ان چند ثانیوں میں تو محبت بھی نہیں کی جا سکتی۔ محبت کے’’ شُبے‘‘ تک ہی رسائی بڑی کامیابی ہے۔

اور میں ہوں کہ یہاں زمین اور وسائل تقسیم کر کے بیٹھا ہوں۔ اپنے اور سگے بھائی کے گھر کے بیچ دیوار اونچی کرکہ بیٹھا ہوں۔ اند ر جھانکوں تو۔۔۔

ایک چمچ کو پلیٹ سے منہ تک لانا معجزہ نہیں ہے کہ کروڑوں اربوں نیورانز کی ششدر کر دینے والی مربوط حرکت۔

ایک مسکراہٹ میں کروڑوں نیورنز کی زبردست نظم و ضبط والی کاروائی۔۔۔ ہمار ا کیا ہے ہم نے تو ’’نِما سا مسکرا ‘‘ دینا ہے!

کیا صرف ایک نیوران خلیہ اور اس کا فنکشن بذاتِ خود ایک معجزہ نہیں ہے۔ نیوران میں Action Potential کا حیرت انگیز کام۔ سوڈیم پوٹاشیم کی دنگ کر دینے والی دنیا۔ کیسے ایک سگنل Dandrites  سے سفر کرتا۔۔۔ Soma  میں پہنچتا ہے۔ وہاں سے Axon…Axon Hillock… اور پھر۔۔ Mylin Sheath۔۔۔ اور ان کے مابین سگنل کو طاقتور رکھنے کے لیے وقفے Nodes of Renvier۔۔۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ

اور یہ ایک خلیہ ہے کہ جس کہ اندر حیرتوں کی داستانیں رقم ہوتی ہیں۔ اور میرے پاس دماغ میں ایسے 100 ارب نیوران ہیں۔

میں ایک سانس لیتا ہوں۔۔۔ تو جو کچھ ہوتا ہے۔۔۔ کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔

دماغ پہ تو پھر کچھ بات ہو سکتی ہے۔۔۔ لیکن شعور لاشعور کے دھندے ابھی تک دھندلکے میں ہیں۔ کاش میں ان کے دروازے تک ہی پہنچ پاتا۔ یہ شعور کہ مادی دنیا کی کوانٹم سطح پر اثر انداز ہو جاتا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں یا نہیں دیکھ رہا۔ الیکٹران کی سطح پر بہت اہمیت رکھتا ہے۔
ہمیں آلو حیرت زدہ نہیں کرتا۔۔ اس پر قدرتی طور پر لکھے کسی نام کی مشابہت حیران کرتی ہے۔۔۔

کہیں سے کوئی ایسی خبر ملے کہ بغیر کسی سہارے پتھر ہوا میں معلق ہے یا پانی چڑھائی کی جانب رواں ہے۔ یعنی کوئی قانون توڑ رہا ہو تو ہمیں حیرت اور خوشی ہوتی ہے۔ ہم تحقیق بھی نہیں کرتے کہ یہ خبر درست بھی ہے یا نہیں۔۔۔ قانون کے اندر رہ کر ہمیں معجزہ دکھائی نہیں دیتا۔

اس سے ایک تکنیکی مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے خوش رہنے کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔

جیسے بقول برٹرینڈ رسل۔۔۔ اگر آپ کہیں کہ آپ کو فٹ بال میچ دیکھنا پسند ہے تو میں کہوں گا آپ ایک خوش قسمت انسان ہیں۔ لیکن اگرآپ یہ کہیں کہ آپ کو کتابیں پڑھنا ‘ درختوں کو دیکھنا‘ بچوں سے کھیلنا پسند ہے تو پھر آپ کہیں زیادہ خوش قسمت ہیں۔۔۔ کیونکہ آپ کے پاس خوش رہنے کے مواقع زیادہ ہو گئے۔

\"saph\"ذہانت کی جدید تعریف ہی یہ ہے کہ آپ کی دنیا میں پسندیدگیاں کتنی ہیں ‘ پسندیدگیوں کا کینوس کتنا وسیع ہے اور ناپسندیدگیوں کا کس قدر محدود۔

وہ جنہیں موت کا تجسس تھا۔۔۔ وہ موت پر تحقیق کرتے رہے۔۔۔ اور پھر مر گئے۔

وہ جنہوں نے موت کا ذکر شاعری اور ادب میں کیا۔۔ مر گئے۔۔ !

قارئینِ کرام۔۔۔ ’ہونے ‘ سے بڑا معجزہ کوئی نہیں۔ \”Being in the Time\” سے بڑھ کر کائنات میں نعمت کوئی نہیں۔

صاحب حال ہو جائیے۔۔۔ پانی کے ایک ایک گھونٹ۔۔۔ سے لطف اندوز ہوں۔۔۔ کھانے میں کیا کیا جمالیاتی مضمون ہیں۔۔۔ !

میرے لیے یہ تصور کرنا ہی محال ہے۔۔۔ کہ بھنڈی ‘ سبز مرچ‘ شہد ‘ انگور۔۔۔ اور یہ سب۔۔۔ اور ان میں کون ہے جو آپ کی زبان پر بذریعہ Taste Buds۔۔ اپنا آپ نہیں بتاتا۔۔۔

سلاد کی ہزارہا اقسام کو چھوڑیے۔۔ دیسی سلاد لیں۔۔ صرف پیاز اور ٹماٹر۔۔ اور نمک چھڑکا ہوا۔۔ کچھ ساتھ لیموں کی کارروائی۔۔۔

سلاد کھانے کے بعد پلیٹ میں کھٹا میٹھا سا پانی بچتا ہے۔ اس پانی کو یاد کر کے اگر آپ کہ منہ میں پانی بھر آیا ہے تو۔۔۔ مزید آپ کو کیا چاہیے۔ کیا اپنے جسم میں موجود اس حیرت انگیز نظام کے باوجود آپ پریشان ہیں۔

افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ جب یہ کائناتی معجزے آپ کے دہن میں لطف کی انتہاؤں کو چھو رہے ہوتے ہیں تو آپ اس وقت پاناما لیکس اور چھوٹو گینگ پر بحث کر رہے ہوتے ہیں۔ بہن یا بھائی سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ موبائل میں ختم ہو چکا بیلنس آپ کو آزردہ کر رہا ہوتا ہے۔۔۔

اگر آپ کے گھر کوئی بچہ پرورش پا رہا ہے۔۔ تو وہ بچہ نہیں ایک معجزہ ہے۔۔۔ دنیا کی اس سب سے خوش مخلوق کو غور سے دیکھئے۔۔۔ ماہر نفسیات محترمہ Alison Gopnik کی بات توجہ سے پڑھیے

’بچہ ہونے کے کیا معنی ہیں؟ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ پہلی محبت میں گرفتار ہوں۔۔۔ اور پیرس میں ہوں۔۔۔ اور آپ نے ابھی ابھی خوشبو دار کافی کی تین پیالیاں پی لی ہوں۔ ‘‘

میکسم گورکی کے بارے میں ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ ’’نہ جانے کیوں مجھے میکسم گورکی اچھا نہیں لگتا۔ ہر وقت ادھر اُدھر دیکھتا رہتا ہے جیسے اس نے جا کر خدا کو ساری تفصیل بتانی ہو‘‘

میرا خیال ہے ہمیں زندگی میں ہر لمحے چیزوں کو بہت غور سے دیکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ آپ کی ماں کے چہرے پر پڑنے والی شکنیں آپ کو ازبر ہونی چاہیئں اور جب وہ خوش ہوتی ہے تو وہ شکنیں آپس میں گڈ مڈ ہو کر کیا جیومیٹریکل شکل بناتی ہیں۔۔۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے۔ انسانوں کو تو دیکھئے کہ جن کی آنکھیں بولتی ہیں۔ کیا خوبصورت شربتی آنکھوں والا ایک پھدکتا خرگوش کمال کی چیز نہیں ہے!

ارد گرد چیزوں کو ایسے دیکھئے جیسے یونانی شاعرہ سیفو کی ہم عصر بلائی ٹس دیکھتی تھی۔۔۔ زمانہ یہی کچھ 600 سال قبل مسیح کا ہے۔۔۔

\"Sappho-and-Alcaeus\"ہلکی پھوار خاموشی اور نفاست ہر چیز کو بھگو رہی ہے
بارش اب بھی ہو رہی ہے
میں ننگے پاؤں باہر جاؤں گی
تاکہ جوتی کیچڑ میں خراب نہ ہو
پھولوں سے لدی شاخیں
پانی سے تر پھول۔۔ خوشبو سے معطر ہیں
جو مجھے بے حال اور مسحور کر رہے ہیں
یہ پھول راہوں میں نہیں روندے جانے چاھیءں
انہیں کیچڑ میں نہیں ملنا چاہیے
شہد کی مکھیوں کے لیے انہیں بچانا ہو گا
جھینگر اور گھونگے پانی کے گڑھوں میں
ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں
میں ان پر پاؤں نہیں رکھوں گی
نہ ہی اس سنہری چھپکلی کو خوفزدہ کروں گی
جو پلک اٹھا کر مجھے دیکھ رہی ہے۔۔۔ (ترجمہ: احمد عقیل روبی)

خوش رہنا آپ کے بس میں ہے۔ بس علم بڑھائیے کہ علم کی انتہا عجز کا دروازہ ہے۔۔ باقی جن معاملات سے آپ ناخوش ہیں ‘ رنجیدہ ہیں۔۔۔ یہ وہ دنیاوی معاملات ہیں جن کو حضرت علیؓ نے ’بکری کی چھینک‘ کہہ کر بات ہی ختم کر دی تھی۔

اللہ آپ کے تجسس کو سلامت رکھے!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments