ہمارے شاہ جی


مضمون کا عنوان دیکھ کر کسی پیر یا صاحب کرامات کا فوری طور پر خیال ذہن میں آنا فطری بات ہے لیکن ہمارے شاہ جی کوئی روایتی بزرگ یا پیر نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا تعلق سادات گھرانہ سے ہے لیکن یار لوگ ان سے عقیدت پیرومرشد کی طرح رکھتے ہیں اور مذکورہ خطاب ان کی شخصیت پر جچتا بھی ہے۔ شاہ جی کا اصل نام پکارے ہوئے تو ہمیں بھی ایک عرصہ ہو چلابلکہ اب تو سنا ہے کہ ان کی بیگم یعنی ہماری بھابھی صاحبہ بھی انہیں اسی لقب سے پکارتی ہیں۔
شاہ جی سے ہماری پہلی ملاقات بی ایس سی میں داخلہ لینے کے بعدکلاس کے پہلے روز ہوئی لیکن آج تقریباً دو عشرے گزر جانے پر بھی وہ ملاقات یاد ہے کہ ایک دبلا پتلا، گندمی رنگت، شلوار قمیص میں ملبوس نوجوان جس نے سر پر اس قدر تیل چپڑا ہوا کہ وہ قلموں سے ہوتا ہوا گالوں تک بہہ نکلا تھا اور بات کرنے سے قبل ہنسنے کے عادی شاہ نے تعارف میں بتایا کہ سندھ کے ایک دور دراز گاﺅں سے بہاول پور وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے آئے ہیں اور اسی مقصد کے لئے انہوں نے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کا انتخاب کیا ہے۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ اس زمانے میں وہ کالج ٹھکانہ کم نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کا تھا۔ کلاس میں اپنے دلچسپ طرز عمل کی وجہ سے شاہ جی ہمیشہ نمایاں نظر آتے۔ سوال سنے بغیر جواب دینے کی کوشش میں اکثر اساتذہ کی ڈانٹ کا نشانہ بنتے رہے۔
ان کی طبیعت میں دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ایک بار ایک کلاس فیلو نے دادا کی وفات کی وجہ سے چھٹی کی درخواست بھجوائی۔ شاہ جی کو معلوم ہوا تو دوپہر میں دیگ کا سامان لے کر دوست کے گھر پہنچے۔ بیل بجانے پر دادا جی نے ہی دروازہ کھولا اور ایک مضحکہ خیز صورتحال کا سبب بنے۔ خیر شاہ جی نے ہمیشہ دوستوں کی خبر گیری کی اور ان کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے رکھا۔اس بی ایس سی کلاس کے پہلے بیچ کے 15طلبہ میں سے صرف ایک ہی طالب علم پہلی بار امتحان میں تھرڈ ڈویژن کے ساتھ پاس ہوا اور وہ خوش نصیب شاہ جی اور میرے سوا کوئی اور تھا جبکہ ہم دونوں سپلیمنٹری امتحانات کے ایک لامتناہی سلسلہ کے راہی ہوئے۔ اسی دوران شاہ جی کی پہچان کے ایک ماہر نفسیات نے رہنمائی کی کہ ہمارے لئے آرٹس کے مضامین میں تعلیمی سفر بہتر رہے گا جس پر راقم نے آمناً صدقناً کیا جبکہ شاہ جی نے اپنی جری طبیعت کے مطابق ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا اور یہ سلسلہ مزید کچھ امتحانات تک جاری رہا۔
اسی تگ ودو کے دوران شاہ جی نے بطورمیڈیکل ریپ ملازمت اختیار کر لی اور ان کا ٹرانسفر بھی سندھ میں ہو گیا گویا پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ دو برس کے بعد جب شاہ جی دوبارہ تبادلہ کے بعد بہاول پور لوٹے تو سندھ کی کسی مایہ ناز یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری بھی حاصل کر چکے تھے جو سب دوستوں کے لئے حیرانی اور خوشی کا باعث تھا۔ میڈیکل ریپ کی ملازمت نے شاہ جی کے خدمت کے جذبہ کو صحیح معنوں میں جلا بخشی۔اب یہاں انہوں نے یار دوستوں کی بھلائی کا خوب حق ادا کیا۔ اپنی کمپنی کی ادویات کی مشہوری شاید اس قدر نہ کرتے ہوں جتنا ڈاکٹروں سے دوست احباب کے لئے چیک اپ ٹائم حاصل کرنے اور دیگر فلاحی کاموں پر وقت صرف ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے مشاہدہ میں ہے کہ علاقہ کے بیشتر ڈاکٹروں سے آپ کے دوستانہ مراسم ہیں۔
ایک دفعہ میں نے ہسپتال میں شاہ جی کو کسی مریض کے ساتھ چیک اپ کے لئے مختلف کاریڈورز اور وارڈز میں بھاگتے دیکھا۔ دعا سلام ہوئی اور میں بھی ساتھ ہو لیا۔ لگ بھگ 2گھنٹے بعد چیک اپ، ٹیسٹوں اور ادویات کے حصول کے مراحل طے کر کے فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا کہ یہ مریض آپ کے عزیز ہیں تو فرمایا کہ نہیں یار یہ شخص پریشان پھر رہا تھا میں اس کی رہنمائی کے لئے ساتھ ہو لیا۔ شاہ جی کی ایک اور اچھی عادت یہ تھی کہ ہر عید کے دوسرے روز دوست احباب کے اعزاز میں پرتکلف کھانے کا اہتمام کرتے تھے جسے بڑے کھانے کا نام دیا جاتا تھا اور وہ کلاس فیلو جو بسلسلہ روزگار دوسرے شہروں میں مقیم ہیں وہ بھی چاہ کے ساتھ اس میں شریک ہوتے تھے لیکن یہ تمام واقعات شاہ جی کی شادی خانہ آبادی سے قبل کے ہیں اب بڑا کھانا تو ہوتا ہی نہیں اور دوستوں کو کئی کئی ماہ ان سے ملاقات نہ ہونے کا شکوہ الگ سے ہے۔ اب اس تحریر کو نوٹس سمجھتے ہوئے دوستوں کی شکایات کا ازالہ بشمول بڑے کھانے کے اجراءکے لئے اقدامات نہ ہوئے تو قارئین کو مزے مزے کے مزید واقعات پڑھنے کو مل سکتے ہیں۔

ناصر حمید
Latest posts by ناصر حمید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).