شمالی و جنوبی کوریا اور پاک و بھارت تقابلی جائزہ!


دنیا کے نقشے پر سینکڑوں ممالک ہیں جن کے تہذیب و تمدن، تاریخ، زبان، ثقافت، مذہب و نظریہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں جبکہ ہر ایک میں جو ایک قدر مشترک ہے وہ انسانیت ہے جس پر ہر کسی نے اپنا اپنا مخصوص لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ قدرت نے سرزمین پرانسانی تخلیق کے ساتھ ہی زندگی کی ہر ضرورت کے سازوسامان کے وسائل و ذرائع پیدا کردیے اور انسان کوبنیادی طورپر دوسرے انسانوں کے لئے ہی پیدا کیاگیا۔ مگر شروع سے اب تک جب بھی کسی معاشرے میں جب بھی انسان کو دوسرے انسانوں کی رہنمائی یا ترجمانی کا موقع اقتدار کی کرسی کی صورت میں ملا تو پھر کرسی کی حرص و لالچ نے ان کو اپنے ذاتی، سیاسی و معاشی مفادات کی تکمیل کے لئے معصوم عوام کی ہزاروں لاکھوں جانوں کے ضیاع سے بھی نہ گریز کروایا۔ بدقسمتی سے تاریخ کی ہزاروں کتابیں اقتدار کے لئے انسانی جنگوں پر محیط دنیا بھر موجود ہیں جو انسانیت کے لئے شرمناک ہیں۔

اگر ہم براعظم ایشیاء کے دو ممالک جو حالیہ چار ممالک کی صورت اختیار کیے ہوئے ہیں ان کا تقابلی جائزہ لیں تو تقریبا اسی فیصد ان کی تاریخ ملتی جلتی ہے۔ اور یہ دنیا بھر میں ایک خاص اہمیت کے حامل ہیں۔

جن میں پہلے دو ممالک جنوبی ایشیاء میں واقع ہیں اور پاکستان اور انڈیا کی صورت میں دنیا کے نقشے پر موجود ہیں جبکہ دوسرے دو ممالک مشرقی ایشیاء میں واقع ہیں جو کہ جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کی صورت میں دنیا کے نقشے پر موجود ہیں۔ ہم پہلے انفرادی طور پر ان کا مختصر تعارف دیکھتے ہیں بعدازاں ایک سبق آموز نتائج مرتب کریں گے۔

جنوبی ایشیاء میں واقع متحدہ ہندوستان کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے اس میں بنیادی طور پردوبڑی تہذیب وتمدن کے افراد رہتے تھے جن میں ہندو اور مسلمان شامل ہیں۔ لیکن نظریاتی اختلاف پر بیسویں صدی کے اوائل میں ایک تحریک نے جنم لیا کہ متحدہ ہندوستان کو دونظریات پر مشتمل دو ممالک میں تقسیم ہونا چاہیے جو وقت کے ساتھ ساتھ زور پکڑتی گئی اور بالآخر 1945 میں برطانیہ کی طرف سے منتخب افسران(باؤنڈری کمیشن) کی طرف سے بغیر کسی مناسب منصوبہ بندی کے ایک لائن کھینچ دی گئی جس کے بعد ایک ملک بھارت جبکہ دوسر ا پاکستان دنیا کے نقشے پر وجود میں آیا۔ جس سے لاکھوں لوگوں کو ادھر ادھر ہجرت کرنا پڑی اور اس تقسیم میں لاکھوں لوگوں کواپنی جانوں کا نذرانہ دینا پڑا۔ اس صورتحال میں ایک حصہ کشمیر متنازعہ چھوڑ دیا گیا جو کہ آج سات دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی دونوں ممالک کے درمیان جنگی کیفیت کو طاری ہونے میں بنیادی کردار کا حامل ہے۔

کوریا کی تاریخ تیرہویں صدی سے شروع ہوئی تب سے 1910 تک کوریا ایک خاص تہذیب و تمدن سے اپنا ملک چلا رہا تھا مگر 1910 میں کوریا کے پڑوسی ملک جاپان نے کوریا پرمکمل قبضہ کر کے اس کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ بعدازاں 1945 میں مختلف متحدہ ممالک جیسے کہ امریکا اور سویت یونین و دیگر کے تعاون سے کوریا کو جاپان سے آزادی دلوانے کے لئے کوششیں رنگ لائیں اور امریکا کا جاپان کے شہر ہیروشیماپر ایٹمی حملے سے جاپان کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔

لاکھوں جانوں کے نذرانے کے بعد کوریا مکمل آزاد ہوگیا جبکہ اس کی آزادی میں دو ممالک امریکا اور سویت یونین پیش پیش تھے اب ان کی طرف سے کوریا میں نظریاتی اختلاف (امریکا سرمایہ دارانہ نظام و جمہوری نظام جبکہ سویت یونین اشتراکیت کا نظام لاگو کرنا چاہتا تھا )کی وجہ سے کوریا کو دو حصوں (جس کی تقسیم امریکا کے دو نمائیندگان نے بغیر کسی مناسب منصوبہ بندی کے 38 پیرالل لیٹی ٹیوڈ کے مطابق کردی )میں تقسیم ہونا پڑا جس میں شمالی کوریا کو سویت یونین کی حمایت مل گئی جب کہ جنوبی کوریا کو امریکا کی حمایت مل گئی تب سے شمالی کوریا اور جنوبی کوریا دو مختلف نظریوں پر اپنا سفر شروع کردیا۔

1950 میں شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر حملہ کیا تاکہ دوبارہ ایک متحدہ ملک کوریا کی شکل دے کر اشتراکیت کا نظام لاگو کیا جائے مگر جنوبی کوریاکی طرف سے بھرپور جواب پر معاملہ حل تو نہ ہوسکا مگر بگڑگیا۔ جونکہ ان ممالک کا جغرافیائی وجود بہت اہمیت کا حامل ہے اور جنگ کی صورت میں کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا تھا اوریہ کل تک ایک بھیانک صورتحال اختیار کیے ہوئے تھامگر 27 اپریل 2018 کا سورج ان دونوں ممالک کے لئے ایک امن کی کرنوں کے ساتھ طلوع ہوا اور دونوں ممالک نے پچھلے سات دہائیوں سے قائم جنگی کیفیت کو بارڈر پر ایک امن کا درخت لگا کر ملیامیٹ کردیا۔

شمالی کوریا اور جنوبی کوریا نے تو سات دہائیوں سے قائم نفرت کو شکست دے کر امن کی راہیں ہموار کر دیں اور مزید ہزاروں لاکھوں جانوں کو جنگ میں قربان کرنے کی بجائے خوشحالی و امن کو ترجیح دی مگر نجانے پاک و بھارت کے ارباب اقتدار و اختیارکب سوچیں گے کہ ہم اقتدار کی کرسی کے لالچ کو پس پردہ ڈال کر خالصتا دونوں ملکوں کی عوام کی خوشحالی و امن کے لئے بیٹھ کر اپنے اختلافی مسائل کو متفقہ طور پرحل کریں اور اپنے بارڈر پر بھی بارود کے اگلنے کی بجائے امن کے درخت اگایں۔

امید کرتا ہوں ہمارے لیڈران شمالی کوریا کے سپریم لیڈر” کم جونگ ان۔ ‘‘اور جنوبی کوریا کے صدر ”مون جے ان‘‘ کی امن کے لئے حالیہ فقید المثال اقدام پر سوچیں گے اور آئیندہ مفید حکمت عملی اپنا کر اس مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حل کریں گے۔ اور اسی کشمکش میں کشمیری عوام روز بروز دونوں کی آپسی نفرت کا نشانہ بن کر جانوں کو قربان کر رہی ہے مگر ہمارے حکمران سات دہائیوں سے یہی ایک مسئلہ حل نہیں کر پائے جبکہ ہر سالہا سال سے حکمران آرہے اور اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر مزے تو لوٹتے رہے مگر ان کو عوام پر ترس نہیں آیا کہ ہماری فوجی جوان پچھلے ستر سال سے نفرت کی اس آگ کا ایندھن بن رہے ہیں اور اپنی سرزمین کے لئے جانیں قربان کررہے ہیں مگر ان نام نہاد حکمرانوں کا بیٹا بارڈر پر گولی کا نشانہ بنے تب ان کو احساس ہوگا کہ جان کیا ہوتی ہے اور کیسے سات دہائیوں سے دونوں ملک لاکھوں جانوں کو قربان کرنے کے باوجود بھی اپنا مسئلہ حل نہیں کر پائے۔ ہمیں کم جونگ ان اور مون جے ان کی طرح سوچنا ہوگا کہ ہم کیوں نفرت کو پالے ہوئے ہیں؟ ہم آگے بڑھ کر ہاتھ کیوں نہیں ملا لیتے؟ ہم متنازعہ مسائل کا حل کیوں نہیں نکالتے؟
ہاں ہمیں سوچنا ہوگا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).