پختون تحفظ موومنٹ اور سوات کے حکام سے چند مطالبات


آج سوات میں ’پختون تحفظ موومنٹ‘ کا جلسۂ عام ہے۔ پختونوں اور پھر سوات کے حوالے سے یہ بڑی تبدیلی ہے کہ ریاستی ظلم اور جبر کے خلاف منظور پشتین اور ان کے ساتھیوں کی توانا آواز بلند ہوئی ہے۔ ہر محب الوطن پاکستانی کو ان کی آواز سے آواز ملانی چاہئے۔ کسی ریاستی ادارے کو وسیع تر قومی مفاد کی آڑ میں یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ فوجی آپریشنوں میں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرے، ماورائے عدالت لوگوں کو مارے، بے گناہ لوگوں کو ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنائے اور انھیں جبری گمشدگی کا شکار کرے۔

پاکستان کا آئین کسی قومیت، مذہب اور صنفی شناخت سے بالآ تر ہوکر ہر شہری کو تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ تحفظ جان و مال اور عزت و آبرو کا بھی ہے اور یہ آزادانہ نقل و حمل کے علاوہ تحریر و تقریر کی آزادی کا بھی ہے۔ سکیورٹی کے نام پر چیک پوسٹوں پر لوگوں کو گھنٹوں گھنٹوں انتظار کروانا، ان کی نامناسب انداز میں تلاشی لینا، معمولی سی غفلت یا بھول چوک پر ان کی بے عزتی کرنا اور معمولاتِ زندگی کو بلا وجہ معطل کرنا آئین اور قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس طرح سرچ اور کلئیرنس آپریشن کے نام پر گھر گھر کی تلاشی کے ذریعے چادر اور چاردیواری کی حرمت پامال کرنا، کوئی بھی مہذب معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔

سوشل میڈیا پر کئی پوسٹس اور ویڈیو کلپس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سوات میں مقیم ایک سکیورٹی ادارے کے اہل کاروں نے پختون تحفظ موومنٹ کے سوات میں منعقد کئے جانے والے جلسے کی تیاریوں میں مصروف بعض ورکرز کو ڈرایا دھمکایا ہے کہ وہ جلسے کی تشہیر سے باز رہیں مگر کبل میں منعقد ہونے والے اس جلسے کے انتظامات میں منہمک سواتیوں کے جوش و خروش کو کم نہیں کیا جاسکا۔ پختون تحفظ موومنٹ کو سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے گراسی گراؤنڈ میں جلسے کی اجازت نہیں دی گئی لیکن اس سے ایک دن قبل پاکستان زندہ باد موومنٹ کے تحت وہاں پہ ایک جلسہ منعقد کرایا گیا جس میں پاک فوج اور پولیس کی قربانیوں کو سراہا گیا اور عوام کو یہ تاثر دیا گیا کہ دہشت گردی کے پیچھے وردی نہیں بلکہ بھارت اور افغانستان ہیں۔ تاہم میڈیا کے اس تیز رفتار دور میں بعض حقائق کو چھپایا نہیں جاسکتا۔

سوات میں پاک فوج نے کئی آپریشنوں کے بعد ’’دہشت گردوں‘‘ کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اگرچہ اس مقصد کے حصول کے لئے لاکھوں لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا تھا اور انھیں بے شمار صعوبتوں اور المیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان المیوں کے نتیجے میں جنم لینے والے مسائل اور دکھ ابھی تک تازہ ہیں اور متاثرین کے آنسو خشک ہونے میں نہیں آ رہے ہیں۔ جن گھرانوں کے سربراہوں کو آپریشن کے دوران مارا گیا ہے یا انھیں غائب کرایا گیا ہے، ان کے لواحقین ابھی تک دکھ اور اذیت کی بھٹی میں سلگ رہے ہیں۔ جن بے گناہ لوگوں کے پیارے اتفاقاً اندھی گولیوں یا بم دھماکوں کا نشانہ بنے ہیں یا جن کے گھر مارٹر گولوں کی زد میں آتے رہے ہیں، ان کی کماحقہ‘ اشک شوئی ابھی تک نہیں کی گئی ہے۔ پختون تحفظ موومنٹ کی وجہ سے اگرچہ اس وقت بہت سی چیک پوسٹیں ختم کر دی گئی ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ مسائل ایسے ہیں جن کی طرف سوات میں مقیم پاک فوج کو توجہ دینی چاہئے اور پختون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کو اپنے جلسے میں اہل سوات کی طرف سے یہ مطالبات مناسب انداز میں پیش کرنے چاہئیں۔

(1) سوات میں بعض عوامی مقامات پر اب بھی فوج کی موجودگی عوام کے لئے خوف و ہراس کا باعث ہے۔ تمام تر انتظامی اور سکیورٹی کے اختیارات مقامی انتظامیہ کے سپرد کر دینے چاہئیں۔ فوج اپنا کام بہ خوبی انجام دے چکی ہے، اب انھیں عوامی مقامات سے سوات چھاؤنی میں منتقل ہوجانا چاہئے۔

(2) ضلعی عدالتوں میں واقع ’سرکٹ ہاؤس‘ اور اس کے قریب دوسری عمارتیں، سول اداروں کی ملکیت ہیں۔ یہ تمام مقامات رہائشی آبادی کی بغل میں واقع ہیں۔ یہاں ناگزیر سکیورٹی کے علاوہ فوج کی مزید موجودگی نامناسب ہے۔ آتے جاتے مقامی رہائشیوں کو ہمہ وقت تلاشی کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس سے عوامی زندگی کے معمولات شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ یہاں سے فوج کے دفاتر سوات چھاؤنی کی حدود میں منتقل ہونے چاہئیں۔

(3) گلی باغ کے مقام پر آسٹریا کی حکومت کے تعاون سے قائم کیا جانے والا ادارہ ’’ٹوورزم اینڈ ہوٹل منیجمنٹ‘‘ اس وقت پاک فوج کے قبضہ میں ہے۔ سوات میں ٹوورزم کے فروغ کے حوالے سے یہ ایک اہم ادارہ تھا لیکن سوات میں شورش کے دوران اسے بھی تباہی سے دوچار کردیا گیا۔ یہاں تک کہ اس کے دروازے اور کھڑکیاں بھی نکال کر لے جائی گئیں۔ یہ سب کچھ سکیورٹی اداروں کی ناک کے نیچے ہوتا رہا لیکن اس ادارہ کو بچانے کی دانستہ طور پر کوئی کوشش نہیں گئی۔ جب یہ اپنے مقررہ مقصد کے استعمال کے قابل نہیں رہا تو پاک فوج نے یہاں چیک پوسٹ قائم کی اور اسے تحویل میں لئے جانے والے ’’طالبان‘‘ کا سب جیل بنا دیا گیا۔ عالمی سطح پر سوات کی بحالی کے نام پر بہت امداد وصول کی گئی تھی۔ ضرورت تو اس اَمر کی تھی ’’ٹوورزم اینڈ ہوٹل منیجمنٹ‘‘ کا یہ ادارہ بھی بحال کیا جاتا لیکن ظاہر ہے ہماری ریاستی پالیسی میں ایسے فلاحی اور عوامی بہبود کے کاموں کے لئے وقت اور پیسہ کہاں ہوتا ہے۔ پاک فوج کی سوات اور اہل سوات پر بڑی مہربانی ہوگی اگر وہ اس ادارہ کو اپنی گرفت سے آزاد کرے اور اس کی دوبارہ بحالی میں اپنا کردار ادا کرے۔

(4) خوازہ خیلہ کے مقام پر گرلز ایلمینٹری کالج کی خوب صورت عمارت بھی اس وقت یرغمال بنی ہوئی ہے۔ اسے فی الوقت پاک فوج اپنے ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ پاک فوج کا ارادہ تھا کہ اس پورے علاقے کو فوجی چھاؤنی کے ہیڈ کوارٹر کے طورپر استعمال کیا جائے جس کے لئے قرب و جوار کے کئی گاؤں کا وجود مٹا کر انھیں بھی چھاؤنی کا حصہ بنانا تھا لیکن مقامی آبادی نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس کے خلاف سخت احتجاج کیا جس کی وجہ سے فوج کو یہ ارادہ ملتوی کرنا پڑا۔ تاہم گرلز ایلیمنٹری کالج ابھی تک فوج کی تحویل میں ہے۔ اب جب کہ چھاؤنی بن گئی ہے تو اس کالج کو خالی کرانا چاہئے اور جس مقصد کے لئے یہ زیر استعمال تھا، اسے اسی مقصد کے لئے مختص کرنا چاہئے۔ اس طرح بری کوٹ میں بھی مبینہ طور پر بوائز ایلمنٹری کالج فوج کے زیر استعمال ہے۔ اس کو بھی خالی کرانا سوات اور اہل سوات کے مفاد میں ہے۔ معلوم نہیں ہمارے طاقت ور ادارے بچوں کے تعلیمی اداروں پر کیوں قبضہ جما لیتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ ہماری ریاست کی ترجیحات میں تعلیم کہیں بہت ہی نچلے درجے میں آتی ہے۔ سوات شورش کے دوران بہت سے سکولوں اور کالجوں میں فوج ایک طویل عرصہ تک مقیم رہی تھی اور سوات میں مسلسل ایک سال تک کرفیو کے دوران ہی تین سو سے زائد تعلیمی ادارے دھماکہ خیز مواد کا ہدف بن کر تباہی سے دوچار ہوتے رہے تھے جس میں بہت سے ابھی تک تعمیر نو کی راہ تک رہے ہیں۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2