مزدور ہوں میں، مجھے تنخواہ دو


انسان کو اشرف المخلوق کا درجہ خدا نے دیا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ زمینی خداوں نے انسان کو اس منصب سے محروم کر کے ایک کام کرنے والا جانور بنا ڈالا، جانور بھی وہ جو صرف اپنے اوپر بوجھ لادے جاتا ہے۔ لیکن اسے شکوہ کرنے کی اجازت نہیں، وقت پر چارہ نہ ملے تو زیادہ سے زیادہ احتجاجاً وہ ڈھینچوں ڈھینچوں کی آواز نکالے گا اور مالک کی چابک ایسی پڑے گی کہ وہ آواز ایک سسکی میں تبدیل ہونے کے بعد پچھلے سے زیادہ بوجھ اٹھانے کو تیا ر ہوجائے گا۔ بھئی بہت معذرت اب آپ کے تیر برسیں گے کہ آپ کو عالمی یوم مزدور کے موقع پر تحریر کا آغاز ایک حدیث سے کرنا چائیے تھا یا یہ دن کیوں منایا جاتا ہے اس کا کوئی تاریخی پس منظر دینا چائیے تھا۔ لیکن میں ایسا نہیں کرسکتی اس کی وجہ مجھے اپنے ارد گرد نظر آنے والے ان گدھوں (یہاں زیر لگا کر پڑھا جائے، زبر والے وہ ہیں جو جبر سہہ رہے ہیں) کی ہے جو اپنے ملازمین کا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں، جبکہ گدھ کی فطرت ایسی ہے کہ وہ مردار کا گوشت کھاتا ہے۔ لیکن جن سیٹھوں نے کاروبار جما رکھے ہیں وہ زندہ کا گوشت کھانے کے ساتھ ساتھ پیاس بجھانے کے لئے خون پینا بھی پسند کرتے ہیں۔

بیوی کو اپنے مقررہ وقت پر ہی روٹی توے پر ڈالنی ہے کیونکہ کھانے والے وقت پر ہی کھانا مانگیں گے۔ بیٹی اور بیٹا روز ہی اسکول جائیں گے اور ان کے لنچ بکس میں روز کچھ ہونا چائیے، چھوٹی نے دودھ بھی پینا ہے اور کسی کو بھی موسمی بخار اور نزلہ کھانسی ہوسکتا ہے۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ دودھ والے نے کہا ہو کہ آپ روزانہ دودھ لیتے رہیں جب آپ کی تنخواہ آئے گی میں تب ہی پیسے لے لوں گا۔ مالک مکان نے کہا ہو ارے بھائی رہنے دو اس مہینہ۔ اگلے مہینہ ڈبل نہیں سنگل ہی کرایہ دے دینا تمہاری تو تنخواہ دو ماہ سے نہیں آئی۔ اسکول کے پرنسپل نے فون کیا ہو کہ چھوڑیے جناب اس ماہ ہم فیس نہیں لیں گے آپ اپنا دال آٹا پورا کریں اور بچوں سے کہیں کہ اسکول آجائیں ہم اب باہر لائن میں علیحدہ سے انھیں کھڑا کر کے شرمندہ نہیں کریں گے۔ اسپتال کی انتظامیہ کا دل ابھی اتنا نہیں بڑا ہوا کہ وہ کہیں کہ ڈاکٹر سے ملیے، دوا لکھوائیں بلکہ یہ رہا میڈیکل اسٹور آپ دوا بھی لے جائیں پیسے پھر آجائیں گے۔

دلچسپ بات یہ کہ اس وقت کارپوریٹ سیکٹر میں کام کرنے والے ملازمین یہ بھول چکے ہیں کہ ان کی تنخواہ آنے کی اصل تاریخ ہے کیا۔ اگر کوئی یہ عرضی لے کر جائے کہ سر جی تنخواہ کا چاند کب تک نکلے گا؟ مسائل بڑھ رہے ہیں اب تو دفتر آنے جانے کے لئے موٹر سائیکل میں پیٹرول بھی ڈالنے سے گھبرا رہا ہوں کسی نہ کسی دوست کی منت کر کے لفٹ کا احسان لے کر آجاتا ہوں کہ کہیں غیر حاضری سے ایک دن کی تنخواہ نہ کٹ جائے تو باس فر ماتے ہیں برخود دار یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ تم نے کچھ بچایا ہی نہیں۔ اپنے اخراجات کم کرو۔ تنخواہ جب آتی ہے تو کچھ بچت بھی کیا کرو ناں۔ کوئی پوچھے کہ کیا اتنی تنخواہ ہے کہ کوئی بچت ہوجائے؟ اب کیا بیوی کو میکے بھیج دیں؟ بچوں کے اسکول ختم کر وا کے گھر بٹھا لیں؟ کیا اماں ابا کو کہیں کہ خدارا بیمار نہ ہوا کریں میں آپ کا دوا اور علاج کا خرچہ نہیں اٹھا سکتا کیونکہ میری تنخواہ نہیں آئی۔

ہمارے ایک کولیگ کہتے ہیں کہ میڈیا میں جہاں خبروں کا نہ رکنے والا سیلاب روزانہ منٹوں اور سیکنڈوں کے حساب سے آرہا ہوتا ہے اور جہاں مقابلہ بھی نمبر ون کا ہو۔ وہاں ہم رپورٹر کبھی بھی کوئی خبر نہیں روکتے کیونکہ ایک تو تاخیر سے ادارے اور رپورٹر کی ساکھ پر سوال آجاتا ہے تو دوسری طر ف ہمیں ہماری پیشہ وارانہ ذمہ داریاں اس کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم کوئی کام کرنے سے انکار کریں یا خبر دینے سے صا ف مکر جائیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم روز بلیٹن کا پیٹ بھرتے جاتے ہیں اور ہمارا اکاونٹ خالی رہتا ہے۔ دو ماہ گزر جاتے ہیں تنخواہ ان خالی اکاونٹ کا نصیب نہیں جگا پاتی۔

لیکن ان سب پر آپ جب دیکھیں تو صحافت کے علمبردار اور ’ماوتھ کمانڈرز‘ ایسے ملازمین کو انصاف دلانے کے لئے زبانی جمع خرچ کرتے آپ کو روز ملیں گے۔ اتنے تو کوئی زرخیز عورت بچے نہیں جنتی۔ جتنی صحافتی تنظیموں کے پیدائش کے اندراج ہوچکے۔ لیکن ان سب کا حاصل وصول کچھ نہیں۔ ان تنظیموں کو بھی اگر کوئی استعمال کر رہا ہے تو وہ میڈیا کے مالکان ہیں جو اپنے ادارے کی بقاء اور فائدے کے لئے ان کو بینرز اور مائیک تھما کر کھڑا کروا دیتی ہے کہ ہمارے حق کے لئے بولو اور ان سب میں عام آدمی اسی توڑ جوڑ میں لگا د کھائی دیتا ہے کہ یہ ماہ کس سختی سے کٹ گیا آگے کیا ہوگا؟

ایک وقت تھا جب عالمی یوم مزدور کے دن بھی سڑک سے گزرتے ہوئے سب کو بیلچہ، برش، اوزار رکھا ایک مزدور دیہاڑی کا انتظار کرتا دکھائی دیتا تھا۔ ہم سب اسے قابل رحم نظروں سے دیکھتے تھے اور سوچا کرتے تھے کہ اگر آج اسے کام نہ ملا تو نہ جانے اس کے گھر کا چولہا کیسے جلے گا؟ لیکن اب یہ صوررتحال بیشتر کے ساتھ ہے ضروری نہیں کہ گارے مٹی کا کام کرنے والا یا کاندھوں پر اینٹیں اٹھا کر لیجانے والا مزدور ہی دیہاڑی کے لئے پریشان ہو۔ اب ایک پڑھا لکھا، تجربہ کار شخص بھی آپ کو اس استحصال کا شکار ہوتا دکھائی دیگا جو کام پر تو روز آتا ہے، آٹھ سے دس گھنٹے بھی دیتا ہے، کام بھی کرتا ہے لیکن تنخواہ کی تاخیر پر بات اس لئے نہیں کرتا کہ کہیں زمینی خداوں کو برا نہ لگ جائے۔

اس کا صرف ایک کام ہے کہ وہ مہینہ شروع ہوتے ہی پہلے ایک ہفتہ بیوی سے کہے کہ دعا کرو اس بار پیسے جلدی آجائیں اور پھر ہفتہ پورا ہوجانے کے بعد وہ تسلیاں دینے لگے اور پھر اس سے بھی بات نہ بنے تو گھر میں داخل ہوتے ہی بیوی کو دو چار سنا دے تاکہ اس کی گر ج دار آواز سنکر ننھی ننھی فرمائشیں کرنے والے بچے بھی اس کے کمرے کے آس پاس نہ پھٹکیں۔ جب آخری ہفتہ آن پہنچے تو بیوی اسے دروازوں پر آنے والے قرض داروں اور بل کے مطالبے کرنے والوں کا سخت لہجہ شر مندگی او ر رندھی ہوئی آواز میں سناتی جائے اور وہ نظر نہ ملانے سے بچنے کے لئے اتنا کہہ ڈالے کہ میرے سر میں شدید درد ہے میں اب سونا چاہتا ہوں۔

ہر سال یوم مزدور آتا رہیگا، کیلنڈر میں سال بدلے گا لیکن ایک مزدور کے حالات نہیں بدلیں گے۔ وہ ان پڑھ ہو یا پڑھا لکھا ڈگری یافتہ مزدور وہ پسینہ بہاتا رہے گا، خون جلاتا رہے گا۔ لیکن اپنے جائز حق اور معاوضے کے لئے اس خوف میں جیتا رہے گا کہ اگر میں نے اپنا حق مانگا تو کہیں اس نوکری سے ہی نہ چلا جاوں۔ لیکن دوسری جانب اسی دن ہوٹل کے ٹھنڈے کمروں میں یہی گدھ اور وہ چھوٹے گدھ جو ابھی اپنے گرو سے گوشت نوچنے کے رموز سیکھ رہے ہیں بلند و بانگ دعوں او ر جھوٹی شان و شوکت کے ساتھ حکومتوں سے مراعات کا مطالبہ کر تے دکھائی دیں گے۔ اپنی تقاریر میں نا انصافی کا شکار ہونے والوں مزدوروں پر ترس کھائیں گے۔ میں اچھا سب برے کا راگ الاپتے سنائی دیں گے اور پھر اپنے اداروں میں لوٹتے ہی انتظامیہ کو حکم جاری کریں گے کہ ادارہ نقصان میں ہے تو ڈاون سائزنگ نہیں رائیٹ سائزنگ شروع کرو، چار لوگوں کا کام دو سے کرواؤ لیکن تنخواہ وہی رکھنا۔

اس دوران کمرے میں شاہ کا وفادار داخل ہوجائے تو اسے یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا ہے سر یہ لوگ کام کرنا ہی نہیں چاہتے، ضرورتیں کس کس کے ساتھ نہیں لگی ہوئیں ہر وقت تنخواہ نہ ملنے کا رونا روتے رہتے ہیں۔ میں تو سمجھا تا بھی رہتا ہوں کہ مجھے ہی دیکھو کیسے مینج کرتا ہوں جس پر مالک ہنس کر کہتا ہے کہ تم تو بولو گے کیوںکہ تمہاری تنخواہ تو وقت پر آتی ہے ناں لیکن ان پر سختی رکھو کہیں نرم مت پڑنا ورنہ یہ سب ہمارے سر پر ناچیں گے۔ بس یہی بولتے رہو کہ کمپنی نقصان میں جارہی ہے اشتہارات نہیں مل رہے حوصلے سے کام کرو مارکیٹ میں ویسے ہی نوکریاں نہیں ہے کچھ نہ ہونے سے ہونا بہتر ہے۔

سر: وہ ایچ آر والے بتارہے ہیں کہ وہ جو آپ نے اینکر کا کہا تھا ان سے بات ہوئی ہے و ہ تو بہت ڈیمانڈ کر رہی ہیں کیا منع کردیں؟
مالک: جو بھی مانگے، آفر اوکے کرو اور اس کا کانٹریکٹ جلدی بناو“، سیلری، میڈیکل، جو بھی سہولیات ہیں وہ شامل کرو۔ پیسے کی فکر نہ کرنا، پیسہ بہت ہے۔ اچھا میں ذرا ایک سیمینار میں جارہا ہوں عالمی یوم مزدور ہے اور اس پر پھر سے تقریر کرنی ہے۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar