جب سوڈو جنسی جذبہ بیدار ہوتا ہے


حکیم واجد علی ہر فن مولا ہیں۔ حکمت البتہ شوق کے لئے فرماتے ہیں۔ حکیم صاحب کی حکمت نابغہ روزگار سائنسدان آغا وقار اور اس قبیل کے دیگر آزاد منش سوڈو سائنسدانوں کی سائنس جیسی ہے۔آغا وقار صاحب پانی سے گاڑی چلا سکتے ہیں۔ پروفیسر فرید اختر صاحب کشش ثقل کا انکار کر سکتے ہیں۔ سوڈو سائنسدان آئن سٹائن کی ریلیٹیوٹی تھیوری سے واقعہ معراج ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جبکہ حکیم واجد علی کیلے، سونف اور پپیتے اور قبیل کے دیگر اجناس المعروف سپستان، گاﺅزبان اور زیرے سے نفسیاتی علاج کرتے ہیں۔ حکیم صاحب کا فارمولا بہت سادہ ہے۔ فرماتے ہیں جسم کی ہر بیماری کا تعلق خوراک سے ہوتا ہے۔ خوراک کا تعلق معدے سے ہوتا ہے۔ جب تک معدہ ٹھیک نہیں ہو گا، جسم کی دیگر بیماریاں بشمول دماغی اور نفسیاتی امراض بھی ٹھیک نہیں ہو سکتیں۔ معدے کی اولین بیماری قبض ہے۔ اس لئے حکیم صاحب سب سے پہلے قبض کا علاج کرتے ہیں۔ قبض کے علاج کے لئے حکیم واجد علی کے پاس سو قسم نسخے موجود ہیں تاہم ان میں سب سے مشہور نسخہ نہار منہ دو عدد کیلے کھانا ہے۔ ایک دن حکیم صاحب سے ازراہ تففن پوچھا کہ حکیم صاحب کیا ایک یا تین کیلے کھائے جا سکتے ہیں؟ حکیم صاحب نے فرمایا ایک کیلا کم ہے اور تین زیادہ۔ عرض کیا حکیم صاحب معدہ میں کونسا کاونٹر لگا ہوا ہے جو دو کیلے کا حساب رکھ سکتا ہے؟ اگر بات ایک مخصوص مقدار کی ہے تو ایک عدد بڑا کیلا بھی دو عدد چھوٹے کیلوں کی مقدار کے برابر ہو سکتا ہے۔ حکیم صاحب مگر گل محمد کی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنی حکمت میں گل محمد کی طرح اٹل ہیں۔ جنبد کی حکیم واجد علی کے پاس بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دو کیلے پر ہی ابھی تک رکے ہوئے ہیں۔
حکیم واجد علی صاحب کے دو کیلوں کا علاج ’ہم سب‘ میں چھپنے والے ایک مضمون ’ جب جنسی جذبہ بیدار ہوتا ہے‘ تک یاد آیا۔ فاضل کالم نگار نے جنس، لطف اور جنسی لذت کا موضوع تو پہلے اسٹیریوٹائپ روایت پر عمل کرتے ہوئے عورت کو بنایا۔ چلیں یہاں تک ہر شخص کو آزادی حاصل ہے کہ وہ کسی بھی سماجی گھٹن کے شکار موضوع پر کسی ایک مخصوص جنس پر لکھ سکتا ہے مگر محترمہ کالم نگار نے حکیم واجد علی کی روایت پر عمل کرتے ہوئے جنس اور لطف کے ساتھ پینتیس کا آکڑا لگا لیا۔ علی عباس جلالپوری کی ’ جنسی مطالعے‘ ( جلالپوری صاحب کے معتقدین سے معذرت کے ساتھ)جو جنسیات کے موضوع پر ایسی ہی غیر محققانہ کتاب ہے جیسے مذکور مضمون، سے لے کر Samantha J. Dawson اور Meredith L. Chivers کے تحقیقی مقالے ’ Gender Differences and Similarities in Sexual Desire‘ تک سب کھنگال ڈالا کہ کہیں کوئی تیس، پینتیس کا آکڑا مل جائے مگر وائے ناکامی۔ معلوم نہیں فاضل مصنفہ نے پینتیس کا آکڑا کس تحقیق کی بنیاد پر لکھا۔ بات اگر صرف حکیم واجد علی کے دو کیلوں تک محدود رہتی، گستاخی معاف، بات اگر صرف جنسی لطف کے تعلق کی پینتیس سال سے رہتی تب بھی کسی جواب آں غزل کی چنداں ضرورت پیش نہ آتی۔ مشکل یہ کہ کفیل آذر صاحب بھی فرما گئے تھے کہ ’ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔
یہ درست ہے کہ ہمارے سماج میں جنسی تعلیم نہ ہونے کے سبب معاشرہ نہ صرف سماجی گھٹن کا شکار ہے بلکہ جنسی رویوں کی ناہمواریوں اور اس سے جنم لینے والے مسائل کا بھی شکار ہے۔درست اور سائنسی جنسی تعلیم کیا ہے؟ یہ تعلیم بچوں اور بچیوں کو کس عمر میں دینی چاہیے؟ سماج میں جنسی ناہمواریوں سے پیدا ہونے والے مسائل کا سدباب کیسے کیا جائے؟ اس طرح کے دیگر کئی سوالات ہیں جس پر بہرحال اس موضوع کے محققین ہی کوئی بہتر رائے دے سکتے ہیں۔ ایک قاری اور طالب علم کی نظر سے مذکورہ مضمون پر عنوان باندھنے کی وجوہات البتہ کئی ہیں۔
فاضل مصنفہ نے جنسیات پر سائنسی تحقیق کی بجائے پورا کالم مفروضات اور بہت حد تک عامیانہ مفروضات کی بنیاد پر سپرد قلم کیا ہے۔ مثال کے طور پر کالم کا آغاز میں بتایا گیا ہے کہ ’ پینتیس سال کی عمر سے زائد خواتین اپنے جسمانی خدوخال سے متعلق احساسات پر قابو پا چکی ہوتی ہیں اور جنسی عمل سے لطف اٹھانے لگتی ہیں‘۔ اس کے بعد پورے کالم کی عمارت اسی مفروضے کی بنیاد پر تعمیر کی گئی ہے اور بیچ بیچ میں حسب روایت ایک دو نامعلوم کرداروں کی کہانیاں لکھی گئی ہیں تاکہ مفروضے کو برقرار رکھا جاسکے۔ ذائقے کے لئے البتہ مرحوم چترالی میگزین کے طرز پر ڈرائیور، ملازم اور بیگم صاحبہ جیسی جنسی نا آسودگی سے جنم لینے والی کہانیوں کا ٹوٹا بھی شامل کیا گیا ہے۔ رہی سہی کسر اخلاقی اقدار کی ضامن عوام نے پوری کر دی۔اس وقت بھی مذکور کالم ’ ہم سب‘ کے ’ مقبول ترین‘ میں سرفہرست ہے۔خدائی فوجداروں کا خوف لاحق نہ ہوتا تو یہی موقع تھا سکھ برادری کے مشہور نعرے کا، ’ جو بولے سو نہال‘ ۔اس صدی کے سب سے بڑے ہیرو رجنی کانت کا مشہور ڈائیلاگ ہے، ’ قانون میلا ہے‘ ۔ عرض یہ ہے کہ صاحب قانون کہیں میلا ہو گا مگر کتاب میلی نہیں ہے اور نہ آنکھ میں شہتیر سما سکتا ہے۔
طالب علم اس موضوع پر زیادہ جان کاری کا دعوی نہیں رکھتا تاہم اتنا جانتا ہے کہ پینتیس سال اور جنسی لطف ایک بے معنی ایک مفروضہ ہے۔ اس کی کوئی سائنسی توجیہہ موجود نہیں ہے۔اگر ہم بلوغت ، آب ہوا، جنس کے متعلق گھٹن زدہ سماجی رویوں جیسے عوامل کو نظر انداز بھی کر دیں تب بھی یہ عمومی بیان ایک مفروضہ ہی قرار پائے گا۔Beverly Whipple جنسیات پر Rutgers University میں پروفیسر ہیں۔ جنسیات پرکئی مشہور کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ ’ جنسی رویوں کے بارے میں عمومی رائے نہیں دی جا سکتی۔ ہر عورت کا رویہ اور اس کی خواہش جنس کے حوالے سے الگ الگ ہوتی ہے‘۔ Lisa Diamond یونیورسٹی آف Utah میں سائیکالوجی اور جنیڈر سڈڈیز کی پروفیسر ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ ’ ہر عورت میں جنسی طلب نمونے متغیر ہوتے ہیں‘۔
ہماری موقر کالم نگار لکھتی ہیں کہ ’ مردوں کا کہنا تھا کہ انہیں پینتیس سال سے زائد عمر کی خواتین کا ساتھ سب سے زیادہ پسند ہے‘۔ کہاں کے مردوں پر تحقیق کی گئی ہے یہ بات معلوم نہیں ہو سکی۔ تاہم موقر کالم نگار کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ان کا موضوع جنوبی ایشیاءکی عورت اور اس کی نفسیات ہے اس لئے قیاس کرنا چاہیے کہ مرد بھی جنوبی ایشیاءسے تعلق رکھتے ہوں گے۔ اس قیاسی پس منظر میں ’ خواتین کا ساتھ‘ اگر شادی شدہ زندگی سے متعلق ہے تو یہ مفروضہ یکسر غلط ہے کیونکہ جنوبی ایشیاءمیں کم عمر مرد کوپینتیس سال سے زائد عورت سے شادی کرتے کم ہی دیکھا گیاہے۔ اس کی اگر کوئی سائنسی توجیہہ ہے تو وہ کالم نگار نے بیان نہیں کی۔ بربنائے بحث تسلیم کر لیجیے کہ توجیہہ سائنسی ہے۔ جنسیاتی سائنس میں ایک پرانی تھیوری یہ موجود تھی کہ مرد کے جنسی ہارمونز testosterone کا تعلق عورت کی جنسی خواہش سے ہوتا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ مرد کی عمر جوں جوں زیادہ ہوتی ہے توں توں testosterone کا لیول کم ہوتا ہے۔ یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے Sexual Medicine کی پروفیسر Rosemary Basson کہتی ہیں کہ یہ بھی ایک مفروضہ ہے کہ مرد کے جنسی ہارمونز testosterone کا تعلق عورت کے جنسی خواہش سے ہوتا ہے۔ گستاخی معاف ، مگر اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ موقر کالم نگار کے مذکور ’مرد جن کو پینتیس سال سے زائد کی خواتین کا ساتھ زیادہ پسند ہے‘، اس کی کوئی سائنسی توجیہہ موجود نہیں۔ شواہد بتا رہے ہیں کہ یہ ’ساتھ‘ ازدواجی بھی نہیں ہے۔ اب یہی بات ہو سکتی ہے کہ یہ تعلق مروجہ اخلاقی قیود سے بالا کوئی تعلق ہو گا۔ اس صورت میں اس ’ساتھ کی پسندیدگی‘ کی واحد وجہ ناقابل دست اندازی پولیس ہی ہو سکتی ہے۔
موضوع بہت وسیع ہے۔ ایک کالم کا دامن اس موضوع کے لئے تنگ ہے۔ جو اشارے ممکن تھے وہ اپنی کج مج بیانی سے عیاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس گھٹن زدہ سماج میں اورجنسیات کے موضوع پر یکسر لاعلم معاشرے میں جنسی تعلیم کی بہت ضرورت ہے۔ تاہم اس موضوع پر علمی ، سائنسی اور تحقیقی کام سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ سوڈو جنسی مفروضے اور اشتہا انگیز مضامین کو نری ہیجان انگیزی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah