عمران خان، ایوب خان اور گیارہ نکات


عمران خان کے گیارہ نکات والی تقریر میں بہت سی باتیں توجہ طلب ہیں۔ ترجیحاً سب پہ بات کرنے کی ٹرائے کرتے ہیں۔ آف کورس سب سے پہلے صدر ایوب سے ان کا متاثر ہونا ایک اہم بات ہے، پہلے اسے ہی چھیڑیں گے۔ کیا ایک سیاسی امیدوار ہوتے ہوئے عمران خان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا بات کرنے جا رہے ہیں اور ان کی اس پسند کو چاہنے والے کس بیک گراؤنڈ میں دیکھیں گے؟

کیا عمران خان کی پوری مجلس شوریٰ کو بھی اس بات کا علم نہیں تھا کہ برسرِ کنٹینر خان صاحب نے کیا کیا بات کرنی ہے؟ کون سی پریزینٹیشن دکھانی ہے؟ اگر تھا تو کمال وحشت ہے کہ کوئی ایک بندہ بھی انہیں کلمۂ حق زبان پہ لانے سے روک نہ سکا۔

اگر میں ایک ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں تو مجھے ایم بی بی ایس کرنا پڑے گا۔ کوئی چھوٹی موٹی سپیشلائزیشن بھی کرنی پڑے گی۔ آٹھ دس سال تو کہیں نہیں گئے۔ وہ سب کرکے اگر میں کسی حکیم کے ساتھ پرائیویٹ پریکٹس شروع کر دوں تو کیا میری ڈگری دو ٹکے کی بھی رہ جائے گی؟ مجھے مستقبل میں اس حکیم کی نسبت سے پہچانا جائے گا یا لوگوں کے درمیان میری شہرت ایک ڈگری ہولڈر اور اصلی تے وڈے ڈاکٹر کی ہو گی؟

اگر مجھے وکیل بننا ہے تو میں قانون پڑھوں گا، بہت پیسے ہوں گے تو باہر سے جا کے بیرسٹری کی ڈگری لے آؤں گا، جب یہ سب کر لیا تو کیا میں کسی جرگے یا پنچایت میں جا کے اپنی وکالت شروع کر سکتا ہوں؟ اگر میں ایسا کروں گا تو میں کیا کہلاؤں گا؟

سب چھوڑیں یار اب سیدھی سامنے کی بات کرتے ہیں۔ اگر نواز شریف آج کے دور میں دوبارہ جنرل ضیاالحق مرحوم کو آئیڈیلائز کرنے لگ جائیں یا پیپلز پارٹی جنرل یحییٰ کے دور کی کوئی بھی سنہری یاد دہرا دے (افسوس بھٹو خاندان میں کوئی ایک لیڈر بھی نہیں بچا جو کچھ یاد بھی کر سکے، اتنی عمر ہی کسے نصیب ہوئی؟)، یا سب چھوڑیں اپنے چوہدری شجاعت حسین ہی دوبارہ صدر مشرف کو سو بار وردی میں منتخب کرانے والی بات کا ذکر کر لیں تو یہ کس چیز کا اشارہ ہو گا؟

یہ اس بات کی چغلی کھائے گا کہ ایک جمہوری سیاستدان پھر سے آمریت کی سنہری یادوں میں گم ہو رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سیاستدان اپنے اوپر آمریت کی حمایت کا ٹھپہ ایویں نہیں لگوا لیتا۔ سرٹیفائیڈ ہونے والے کو یا کچھ نظر آ رہا ہوتا ہے یا پھر وہ بالکل ہی کور چشم ہوتا ہے جو بے وقت کی راگنی چھیڑ بیٹھتا ہے۔ عمران خان کا پہلا دھرنا اور اس میں ان کے فرمودات بہت واضح طور پہ ان کا رجحان بتاتے تھے۔

صدر ایوب والی مثال کے بعد ان پہ مہرِ تصدیق ثبت ہو گئی۔

ہم نے دیکھا کہ ایوب دور میں ہی بنگالیوں سے علیحدگی کے آثار نظر آنا شروع ہوئے۔ جنرل صاحب کے تمام بڑے منصوبے مغربی پاکستان میں تھے، سارے اہم ساتھی بھی یہیں سے تھے، مشرقی پاکستان میں کیا تو کیا کیا؟ پھر جب فاطمہ جناحؒ سے مقابلہ ٹھہرا تو بعض عناصر کا سہارا لے کر انہیں طاقت (جو اب کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے) بھی صدر مذکور ہی عنایت کر کے گئے۔

ایوب ڈیموکریسی عرف بنیادی جمہوریت کا مطلب کیا تھا؟ یہی کہ عام آدمی بے وقوف ہے پتہ نہیں کس کو ووٹ دے آئے، کچھ ہزار من پسند افراد پہ مشتمل الیکٹوریٹ کھڑا کرنے کا تجربہ بھی انہوں نے کیا (جن میں سے پچانوے فیصد نے انہیں صدر منتخب کر کے حق نمک بھی ترنت ادا کر دیا)۔ معیشت کی بات کریں تو صدر ایوب ہی کے دور میں قومی دولت بائیس خاندانوں کے اندر مرتکز ہونے کا سکینڈل سامنے آیا۔ زوال کے دنوں میں گھوم پھر کے انہیں بھی سیاست یاد آئی اور ایوب خان آخر کنونشنل مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔

جب پورے 1968ء میں ان کی صحت شدید خراب رہی تو 1969ء کے شروع میں آخر کار ان سے یحییٰ خان نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ لے لیا‘ ورنہ کیا وہ کبھی اپنی جگہ چھوڑنے والے تھے؟ ہرگز نہیں! ہاں، لوگ ان کی شخصیت کے اسیر ضرور تھے، وہی شاید عمران خان بھی ہوں (اور وہی ان کے فالوورز بھی ہیں)، لیکن تاریخ میں اس سے زیادہ ان کا رول کچھ نہیں تھا کہ وہ بہرحال ایک آمر تھے جن کے بعد ملکی تاریخ کے بدترین بحرانوں کا سامنا پوری قوم کو بار بار کرنا پڑا۔

جس وقت عمران خان ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر کر رہے تھے اس وقت اور بھی جلسے ہو رہے تھے، ایک بھوک ہڑتال ہزارہ برادری بھی کر رہی تھی، دو تین دن کے وقفے سے امریکی سفارت کار دو پاکستانی شہریوں کو گاڑیاں ٹھوک چکے تھے، خان صاحب کو ان میں سے کوئی بھی کرنٹ افیئر قابل ذکر نہیں لگا؟ اور کچھ نہیں تو یار کوئی تھوڑا بہت خارجہ پالیسی کا تڑکا ہو جاتا‘ کوئی اشارہ دیتے کہ ترکی اور سعودیہ سے تعلقات کیسے رکھنا چاہیں گے؟

چین، امریکہ، انگلینڈ اور روس کے ساتھ کیسے چلیں گے؟ کوئی سی پیک کی بات ہوتی، کوئی گوادر کا حساب کتاب کرتے، کوئی بلوچ بھائیوں کے مسائل پہ بات ہوتی، کچھ بھی نہیں؟ نہ جانے کیوں بار بار ایسا لگ رہا تھا کہ یہ جلسہ کسی پروجیکٹ کی افتتاحی تقریب ہے ۔ شوکت خانم ہسپتال جیسا عمدہ فلاحی کام خدا نے خان صاحب کے ہاتھوں کروانا تھا، کروا دیا، لیکن شاید اسے پولیٹیسائز کرنے میں بھی کوئی مصلحت ہو گی۔ اب جب کوئی یاد دلائے گا کہ پلاٹ ہم نے دیا، اتنی رقم ہم نے دی، فلاں عطیہ ہم نے دیا تو پھر جواب ملے گا کہ انہیں ایسے فلاحی ہسپتال کو سیاست میں گھسیٹتے ہوئے کچھ محسوس نہیں ہوتا؟ بھائی بات شروع کس نے کی تھی۔

گیارہ نکات پہ مکمل کالم لکھنا زیادتی ہوتی۔ ایک ہی سوال کیا جا سکتا ہے کہ یار کوئی وائٹ پیپر لائیں جس میں بتایا جائے کہ خیبر پختونخوا میں یہ گیارہ نکات کہاں تک استعمال ہوئے ہیں؟ تعلیم، صحت، پولیس، عدلیہ، احتساب، بیرونی سرمایہ کاری، روزگار، زراعت، سیاحت، اپنا گھر سکیم،کوئی بجلی یا گیس کا پروجیکٹ، کچھ تو ہو جو اس وائٹ پیپر میں لکھا ہو جسے دیکھ کے عام آدمی یقین کر پائے کہ ہاں یار، یہی سب کچھ باقی پاکستان میں بھی ریپلیکیٹ ہو سکتا ہے۔ جو لیڈر یہ کہہ سکتا ہو کہ انفراسٹرکچر تو ایک زلزلے کی مار ہے، اسے یہ سمجھانا چاہئے کہ بھائی جی فانی انسان بھی اسی زلزلے میں ہلاک ہو جاتے ہیں، قدرتی آفت کبھی بھی کہیں بھی آ سکتی ہے‘ کیا اس کے خوف سے آپ ترقیاتی منصوبے ہی نہیں بنائیں گے؟ کس لیول کی فراست ہے یار یہ؟ جہاں بانی عالم بالا معلوم!

سو باتوں کی ایک بات، 2013ء میں جب جلسے ہوتے تھے تو وہ بھی اسی قسم کے ہوتے تھے، بلکہ شاید اس وقت مینار پاکستان کا جلسہ اس والے سے زیادہ پھیلا ہوا تھا‘ لیکن کیا جلسے کا حجم ووٹ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ وہاں دو لاکھ بندہ بھی لے آئیں‘ یار ادھر کیا کریں گے جہاں ایک حلقے میں دو لاکھ ووٹ چاہئے ہوتا ہے؟ الیکشن ڈے مینجمنٹ کون کرے گا؟ اس مرتبہ تو پی ٹی آئی کے لیے جس قدر میدان ہموار ہے شاید تاریخ میں کبھی نہیں ہوا ہو گا۔ لیکن کیا کپتان اس پچ پہ مہارت سے کھیل پائیں گے؟ کیا تمام فیلڈر ٹھیک جگہ پہ موجود ہوں گے؟ کہیں پھر سے پینتیس پنکچر والے گلے شکوے تو شروع نہیں ہوں جائیں گے؟ ان تمام سوالوں کے جواب فقیر کے پاس تو نہیں ہیں۔

سب سے ضروری بات یہ ہے کہ بھائی جلسے ولسے ہر جمہوری پارٹی کا حق ہیں۔ بسم اللہ، جم جم کریں، سو بار کریں لیکن جدھر جلسہ ہو رہا ہے اس میدان سے انتقام تو مت لیں یار۔ جس دن پی ٹی آئی اڈہ پلاٹ رائے ونڈ روڈ پہ جلسہ کر کے گئی تھی‘ اس دن بھی سارے پودوں کی تباہی مچی ہوئی تھی، سڑک پہ دور دور تک صرف کچرا تھا اور بوتلوں کے ڈھیر تھے۔

اس بار تو جلسہ پاکستان کی یادگار پہ تھا، ایک قابل تکریم جگہ تھی لیکن صد افسوس اس کا بھی احترام نہیں کیا جا سکا۔ پورا گریٹر اقبال پارک کچرے کا ڈھیر بنا ہوا تھا۔ پودے تو پودے ڈسٹ بن تک تباہ و برباد ہو چکی ہیں۔ کیا سیاسی بدلہ ایک خوبصورت جگہ کو تباہ و برباد کر کے لینا درست ہے؟

جس طرح جلسوں میں خواتین سے بدتمیزی کا نوٹس محترم عمران خان نے لیا تھا اسی طرح گزارش ہے کہ اگلی مرتبہ کسی جلسے میں شریک ہونے والوں کو بار بار تنبیہہ کی جائے کہ جب جلسہ ختم ہو تو وہ جگہ صاف رہے۔ باقی سب کچھ زندگی کا حصہ ہے‘ لیکن جمالیات پہ کمپرومائز اخلاقی زوال کی نشانی ہے، اس سے بچنا چاہئے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain