تن سازی کی ادویات جان لے کر ٹلیں


جنید مرگیا۔ صرف سترہ سال کا تھا۔ کیسے، گولی لگی؟ نہیں، موٹرسائیکل چلاتے ہوئے؟ نہیں، کوئی اور حادثہ؟ نہیں؟ پھر؟ وجہِ موت حرکت قلب بند ہوجانا۔
وہ تن درست، چاق وچوبند، ہنستامسکراتا، خوب رو نوجوان شوق کے ہاتھوں دل کی بازی ہار گیا۔
کیا ہوا، کیسے ہوا؟ کے سوالوں اور جنید کے دمک کر ہمیشہ کے لیے بجھ جانے والے جگنو سے جیون کی کہانی یہیں چھوڑ کر اس کہانی کے پس منظر کی طرف چلتے ہیں، جہاں سے ایسی نہ جانے کتنی ہی کہانیاں پھوٹ رہی ہیں۔

فلم اور ڈرامے، ان کے مناظر، مکالمے اور خاص طور پر کردار ہمارے ذہنوں میں اُتر کر اتنی گہرائی میں جگہ بنالیتے ہیں کہ اکثر ہمیں احساس ہی نہیں ہوپاتا کہ ہمارے خیالات، الفاظ اور افعال ہمارے نہیں بل کہ یہ سب کسی ”جن‘‘ یا ”جادو‘‘ کے زیراثرہورہا ہے۔ خوابوں اور جذبوں سے بھرے نوجوان فطری طور پر فلمی سحر کے اسیر ہونے کی صلاحیت سے مالامال ہوتے ہیں، چناں چہ فلم ”مغلِ اعظم‘‘ کے گانے ”پیار کیا تو ڈرنا کیا‘‘ نے برصغیر کی لڑکیوں کے رگ وپے میں یوں سرایت کیا تھا کہ ان باغی بولوں کی گرفت میں آنے والی کتنی ہی دوشیزائیں سارے بندھن توڑ کر گھر سے فرار ہوگئی تھیں۔ ایک زمانے تک فلم کے پردے سے فیشن جنم لیتے تھے اور آن کی آن میں وبا بن جاتے تھے۔

کپڑوں سے بالوں کی وضع قطع تک دنیا بھر میں نوجوان کسی ہیرو یا ہیروئن کی فخریہ نقالی کیا کرتے تھے۔ تب ہیرو گفتار سے لباس تک بڑا مہذب ہوا کرتا تھا۔ وہ بازوؤں پر مچھلیاں اور کسرتی جسم بنائے بغیر بھی ولین اور اس کے ساتھیوں کی کھیپ کی کھیپ کے کشتوں کے پُشتے لگادیتا تھا۔ پھر اسکرین پر ستر اور اسی کی دہائی میں آرنلڈشیوازنیگر اور سلویسٹراسٹیلون (جان ریمبو) کا ظہور ہوا۔ ان تن سازوں کے تَنے ہوئے عضلات اور توانائی کی نمائش کرتے ادھ ننگے جسموں نے بولی وڈ کو بھی متاثر کیا، اور سنجے دت اور سلمان خان میدان میں آگئے۔ یوں پاکستانی نوجوانوں میں تن سازی کا شوق پروان چڑھنے لگا۔ باڈی بلڈنگ کے مراکز دھڑادھڑ کُھلنے لگے، ساتھ ہی چُست جینز اور بِلاآستین یا کندھے سے بس کچھ نیچے تک کی آستین والی ٹی شرٹس پہننے کا رواج بھی عام ہوگیا۔

یہاں تک تو ٹھیک تھا، نوجوانوں میں صحت بنانے کا رجحان انھیں بہت سی برائیوں سے بچائے رکھتا ہے، لیکن ہر رجحان سے مال بنانے والوں نے اس چلن کو بھی کیش کرایا۔ مارکیٹ میں وہ دوائیں آنے لگیں جو جسم پر گوشت چڑھاتی ہیں۔ steroid، mass gainers اورandrogens کہلانے والی یہ دوائیں تن سازی کے مراکز میں جان ہلکان کرنے کے مقابلے میں جان ریمبو اور سنجے دت بننے کا آسان نسخہ تھیں، جن کی تشہیر ”دُبلے جسم کو موٹا بنائیں‘‘ کے عنوان کے تحت دیواروں سے اخباروں تک ہوتی رہی۔ اگرچہ صحافتی اخلاقیات اور قانون ادویہ کے اشتہار کے بارے میں میڈیا کو حدودوقیود کا پابند بناتے ہیں، لیکن جب پیسہ کمانے کا معاملہ ہو تو ہمارے میڈیا مالکان کی صحافت قانون سے مذہب اور اخلاقیات سے لباس تک ہر قید سے آزاد ہوجاتی ہے۔ یہ اشتہار چھپتے اور نوجوانوں کو لبھاتے رہے۔

نوجوانوں کی تن سازی کی خواہش کو ادویہ سازوں کے لیے دَھن بناتی یہ دوائیں کیا اثرات رکھتی ہیں؟ اس کے بارے میں ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ دوائیں پاکستان میں نہیں بن رہیں، بیرونِ ملک سے آرہی ہیں۔ یہ دوائیں کسی حد تک اس بنیاد پر مفید ہوتی ہیں کہ انھیں استعمال کرنے والا بچپن میں کسرتی بدن کا حامل رہا ہو۔ بچپن میں دھان پان جسم والے اور جنھیں نوعمری میں اچھی غذا نہ ملی ہو، ایسے افراد کا یہ دوائیں کچھ بنانے کے بہ جائے بگاڑ زیادہ دیتی ہیں۔ صحت اور توانائی کے نام پر بیچی جانے والی یہ دوائیں کبھی کبھی زہر بن جاتی ہیں۔ یہ جگر کے سرطان کا سبب بن سکتی ہیں، ان سے ذیابیطس لاحق ہوسکتا ہے، دل کے دورے کا باعث بن سکتی ہیں، یہ مردانہ صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔ اپنی خواتین استعمال کنندگان کو نسوانی خواص سے محروم کر سکتی ہیں، ان کی آواز بدلنے لگتی ہے اور چہرے پر بال اُگنے لگتے ہیں۔

یہ دوائیں ہمارے ملک میں مشتہر ہورہی ہیںِ، بیچی جارہی ہیں، جانیں لے رہی ہیں، لیکن انھیں کوئی روکنے والا نہیں۔ تلاش کرنے پر ایسے دو اداروں کے نام ملتے ہیں جو دواؤں سے متعلق بے ضابطگیوں اور مضرصحت ادویہ کی روک تھام کرسکتے ہیں، ”ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان‘‘ اور ”فارمیسی کونسل آف پاکستان‘‘، لیکن بس نام ملتے ہیں ان کے کام اور کارکردگی کہیں نہیں ملتی۔
جنید ان ہی دواؤں کا شکار ہوا۔ وہ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ بیٹے کے آرزومند ماں باپ اور بھائی کے لیے ترساں بہنوں کی کتنی ہی دعاؤں، منتوں مُرادوں کے بعد گھر کے آنگن میں اُس کی قلقاریاں کھنکی تھیں اور یہ گھر مکمل ہوگیا تھا۔ ماہ وسال کا سفر اسے امنگوں سے بھرے سولھویں سال میں لے آیا۔ تب اس سڈول جسم والے خوب صورت نوجوان کے دل میں تن سازی کا شوق جاگا۔ اس نے ایک تن سازی کے مرکز کا رُخ کیا۔ نہ جانے کس نے اُسے وہ دوائیں استعمال کرنے کا مشورہ دیا جو دعوؤں کے مطابق جسم کو گوشت اور توانائی سے بھر دیتی ہیں۔ شوق جھانسے میں آگیا۔ اُسے دوا دی گئی اور پیسے بٹور لیے گئے۔

دوا استعمال کرنے کے بعد ایک دن کمر میں درد اُٹھا، جسے جنید کسرت کا نتیجہ سمجھ کر نظرانداز کرتا رہا۔ تقریباً دو ہفتے بعد اس کا پیشاب آنا بند ہوگیا۔ والدین اپنے بیٹے کو لے کر سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کی طرف دوڑے، جہاں اس انکشاف نے ان کے دل چھلنی کردیے کہ جنید کے دونوں گُردے کام کرنا چھوڑ چکے ہیں اور ڈائلیسس ناگزیر ہے۔ ڈاکٹروں نے فوری طور پر گردے کا ڈونر تلاش کرنے کا کہا۔ والد کے ٹشو میچ کرگئے، لیکن شوگر کا مریض ہونے کی وجہ سے ڈاکٹروں نے ان کا گردہ لینے سے منع کردیا۔ متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے والدین کے لیے گردہ خریدنا ممکن نہیں تھا۔ چھے سات ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد ایک ڈونر کا انتظام ہوا لیکن اس وقت تک جنید کے ایک پھیپھڑے نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ڈاکٹروں نے اس صورت حال میں ٹرانسپلانٹ سے منع کردیا۔ ایک کے بعد دوسرے پھیپھڑے نے بھی کام کرنے سے انکار کردیا جس کے بعد اسے وینٹی لیٹر پر لے جایا گیا۔

پندرہ دن بعد جنید کا دل بھی ساتھ چھوڑ گیا۔
جنید نہیں رہا۔ مگر اس کی جان لینے والی دوائیں بِک رہی ہیں، ان کی تشہیر ہورہی ہے، ان کی فروخت تجوریاں بھر رہی ہیں۔ اور جنید کے قصے جیسی کتنی ہی کہانیاں بِن رہی ہیں۔
آخر میں یہ بتادوں کہ اس کہانی میں بس ”جُنید‘‘ کا نام فرضی ہے، باقی سب حقیقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).