بھارت سرکار سن لے


دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ بھارت درحقیت جمہوریت کی گھناونی اور بد ترین شکل لئے نہایت ڈھٹائی سے دنیا کے سامنے ہے۔ جھوٹ، مکرو فریب اور نفرت و عداوت پر مبنی بھارت سرکار اپنے گھناونے فیصلوں سے اپنی ریاست میں جمہوریت کا پول کھول رہی ہے۔ نریندر مودی اپنے ملک کی ریاستوں کو تو سنبھال نہیں پا رہے تو کشمیر کو کیا سنبھالے گے۔ بہتر یہی ہے کے مودی سرکارپنڈتوں کے ساتھ پوجا پاٹ کرنے پر دھیان دیں۔ کشمیرکی قسمت کا فیصلہ آپ کسی صورت نہیں کر سکتے۔

اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ کشمیر کو بھارت نے فقط ایک رسمی معاہدے کے تحت ہتھیا لیاہے۔ اوراب بھارت کی خواہش ہے کہ دوسری ریاستو کی طرح کشمیر بھی بھارت میں ضم ہو جائے۔ تو افسوس کے ساتھ بھارت کی یہ خواہش کبھی پوری نا ہوگی۔ مسلمانوں سے بغض اور عداوت کی جو آگ بھارت کے من میں بھڑک رہی تھی، وہ شعلہ بن کر مودی سرکارکے ہونٹوں سے نکلتی رہتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مسلمانوں سے دشمنی بھارت سرکارکی گھٹی میں ہے۔

بھارت میں بابری مسجد گرا دی جاتی ہے، گجرات میں مسلمانوں کا بے دردی سے قتل عام کیا جاتا ہے، سمجھوتہ ایکسپریس کو مسافروں سمیت جلادیا جاتا ہے، بولی وڈ کی مسلمان شخصیات کو بات بات پر دھمکیاں دی جاتی ہیں، مگر ایسا کرنے والوں کا عمل ہندو دہشت گردی قرار نہیں دیا جاتا۔ آپ بات بے بات اسلامی دہشت گردی کی بات کرتے ہیں یہ توکہیے جناب کے یہ اسلامی دہشت گردی ہوتی کیا ہے دہشت گردی کا کوئی مذہب کوئی فرقہ نہیں ہوتا۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر جینا حرام کردیا گیا ہے، بے دردی سے ان کی جانیں لی جارہی ہیں، بے گھر کیا جارہا ہے، عزتیں پامال کی جارہی ہے، مگر یہ ظلم بدھ دہشت گردی کے نام سے یاد نہیں کیا جاتا۔ کشمیر میں جاری حقوق کے لیے جنگ اور ظلم کے خلاف جدوجہد اور ردعمل میں فرق کرنا ہوگا، پھر اسلامی دہشت گردی کی بات کیجیے گا۔

2014 کے پارلیمانی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کی زبردست کامیابی کے بعد وزارت عظمی کی کرسی پر نریندر مودی کا فائز ہوناہی مسلمانوں اوربھارت کی دوسری اقلیتوں کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی۔ بھارت سرکار نے انتہا پسند بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے کارندوں کوہمیشہ آشیرباد دیا۔ اور اقلیتوں کے خلاف کارروائیاں تیز کردیں۔

بھارت سرکار مقبوضہ کشمیر کا قافیہ بلوچستان سے ملانے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہے۔ یوں تو یہ کوششیں مدت سے جاری ہیں۔ لیکن کھل کر بھارت سرکار کے عزائم اب سامنے آئے ہیں اس حقیقت سے بھارت سرکاربھی اچھی طرح واقف ہیں کہ کشمیر اور بلوچستان کا کوئی موازنہ نہیں۔ پاکستان میں دہشت گردو ں کی پیٹ تھپتھانے والا بھارت پاکستان سے مذاکرات کی بات کرتا ہے۔ بلوجستان میں بھارت کے ایجنٹ بھارت کی ایجنساں اپنے ہی ملک سے وہاں کے عوام کو بددل کرنے کا فریضہ انجام دیتی رہیں۔

کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے، جب کہ بلوچستان پاکستان کا تسلیم شدہ حصہ۔ اقوام متحدہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں فیکٹ فائنڈینگ کمیشن تو بھیجتی ہے۔ جہاں ظلم نہیں ہو رہا صرف پروپیگنڈا ہے۔ لیکن مسئلہ کشمیر نصف صدی سے اقوام متحدہ میں اپنے حل ہونے کا انتظار کر رہا ہے، مگر اقوام عالم کا اہم ترین ادارہ اس مسئلے کو بھلائے بیٹھا ہے۔ اور کس کو روئے کہ مسلمان ممالک بھی کشمیر کے مسئلہ پر چُپ سادے بیٹھے ہیں۔ آج عالمِ اسلام کے پیش تر زخم ایران اور سعودی عرب کی چپقلش کی دین ہے۔ سعودی حکومت کشمیر کے مسئلہ پر پس پردہ رول ادا کرتی رہی لیکن ایران کا پاکستان کے طرز پر ہی خاصہ فعال کردا رہا۔ افتخار گیلانی اپنے مضبون ”ایرانی صدر کا دورہ بھارت اور ایک اہم سوال“ میں لکھتے ہیں

“مارچ 1994 میں کشمیر کے حوالے سے ایران نے اچانک پوزیشن تبدیل کی ہوا یہ کہ جموں و کشمیر میں حقوقِ انسانی کی ابتر صورت حال کے حوالے سے ا اسلامی تعاون تنظیم نے اقوامِ متحدہ کے حقوقِ انسانی کمیشن میں ایک قرار داد پیش کرنے کا فیصلہ کیاتھا۔ جس میں کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے حواے سے بھارت کی زبردست سرزنش اور اس کے خلاف اقدامات کی سفارش کی گئی تھی۔ منظوری کی صورت میں براہ راست اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے سپر د کی جاتی جہاں بھارت کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے قواعد تقریبا تیار تھے۔ اس وقت بین الاقوامی برادری میں بھارت کی پوزیشن مستحکم نہیں اور اقتصادی صورت حال انتہائی خستہ تھی۔

وزیرِ اعظم نرسیما راؤ نے بڑی ہوشیاری اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کو آمادہ کر لیا کہ وہ او آئی سی میں مذکورہ قرار داد کے وقت غیر حاضر رہے۔ نرسیما راؤ کا خیال تھا ایران کے غیر حاضر رہنے کی صورت میں یہ قرار داد خود بخود ناکام ہو جائے گی“۔ اور ایسا ہی ہوا۔ جمہوریت کا دعوے دار ملک کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر تا رہا اور اب بھی یہ کھیل جاری ہے، لیکن اس ظلم کے خلاف کہیں کوئی آواز نہیں اُٹھ رہی۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم اور تشدد کا سلسلہ ایک بار پھر زور پکڑ چکا ہے۔ بھارت سرکار کو اور کچھ نہ ملا تو اپنے اوچھے ہتکھنڈے استعمال کرتے ہوئے کشمیر کی بیٹیوں کی عزت کو نشانہ بنانہ شروع کردیا۔ بھارت کی تازہ ریاستی دہشت گردی میں ہشوپیاں مقبوضہ کشمیر میں تلاشی آپریشن کے دوران آٹھ لاکھ بھارتی قابض فوج کے سفاک فوجیوں نے ظلم و دہشت کا بازار گرم کرتے ہوئے20؍ بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو سفاکیت سے شہید کر دیا گیا۔ 100؍ سے زاہد زخمی ہوئے۔ جعلی مقابلہ ظاہر کے اورکبھی اگر وادی(سرحد پار سے آنے والے) کہہ کر نہتے کشمیری نوجوانوں کو شہید کرنے کاسلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔ یہ ریاستی دہشت گردبنیے کاپُرانا طریقہ وار دات ہے۔

’را’کے سابق سربراہ اے ایس دولت کشمیر کی موجودہ صورتحال کو بدترین قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت کشمیر میں جاری غیر مسلح جدو جہد کی وجہ موجودہ حکومت ہے اے ایس دولت کہتے ہیں کہ1990 میں جب مسلح جدوجہد عروج پر تھی تو اُس وقت بھی حالات ایسے نہیں تھے۔ آج کشمیری نوجوان قابو سے باہر ہوچکے ہیں وہاں نا امیدی کی فضا پائی جاتی ہے اور وہ مرنے سے نہیں ڈرتے، ، طلبا اور یہاں تک کہ لڑکیاں بھی گلیوں پر آرہی ہیں ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔

بھارت سرکار کو اب یہ بات سمجھنی ہوگی کہ آج کشمیر کے نوجوان لڑکے لڑکیاں غیر مسلح ہونے کے باوجود سڑکوں پر نکل آئے انہیں موت سے ڈر نہیں لگتا نہ ہی اُن کے ماں باپ انھیں روکتے ہیں۔ نوجوانوں اور لڑکیوں کے ہاتھوں میں پتھرہیں یہ پتھرہی ان کا ہتھیار ہیں۔ اس وقت ان کے سروں پر صرف آزادی کا سودا سمایا ہوا ہے۔
برہان وانی کی شہادت کوبھارت سرکار شاید بھول گئی۔ برحان وانی کا خون ہی ہے جو سر چڑھ کر کشمیریوں کو خوف سے آزاد کررہا ہے بھارت سرکار کیا سمجھی تھی ایک برہانی وانی کو شہید کریں گے تو سب ڈر جائیں گے۔ برہان وانی زندہ ہے جموں کشمیر کے ہر اُس فرد کے دل میں زندہ ہے جو آزادی کے خواب دیکھتا ہے برہان وانی نے بھی آزادی کا خواب دیکھا تھا۔ وہ شہید ہوگیا لیکن اپنی آنکھوں کے خواب جموں کشمیر کی عوام کو دے گیا۔

بھارت کا حال اس وقت نشے میں چور کسی بد مست ہاتھی جیسا ہے جو مسلمانوں اور پاکستان دشمنی میں سب کچھ کچلنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ اس حقیت سے سب واقف ہیں کے بھارت سرکار نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کو ثبوتاز کرنے کے لیے اعلانیہ فنڈ مختص کیے ہوئے ہیں۔ بی جے پی اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے کہ لیے اس سے بہتر حربہ کبھی نہیں سوجا کہ وہ کشمیریوں کے حقوق کی پامالی کرے یا پاکستان کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرے اور اپنے ووٹ بنک میں اضافہ کرے۔ آسان اور آزمودہ نسخہ پر عمل کرتے ہوئے کسی حد مودی جی کی سرکار کامیاب بھی ہوئی ہے۔

بھارت سرکار یہ تسلیم کیوں نہیں کر لیتی کہ حالات اس کے قابو سے باہر ہوگئے ہیں۔ یہ تو وہی بات ہوئی کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ بھارت سرکار کب تک کشمیر یوں کی سیاسی اور اجتماعی جدو جہدکوکچلنے کے لئے اپنے مذموم منصوبوں پر عمل کرتے رہے گی۔ بھارت کو ہر حال میں اب کشمیر کی آزادی اور خود مختاری کو تسلیم کرنا ہوگا۔ بھارت کب تک کشمیرمیں اپناتسلط قائم رکھنے کی کوشش کرتے رہے گے۔ بھارت سرکار کب تک لڑے گی دیکھ لیجیے گا وہ دن دور نہیں جب کشمیر سے بھارت کو بھاگنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).