”آخری زمانہ“ اور میرا ناول فوبیا


\"zahidآئیے ! آج ایک دوسرے ناول پر بات کرتے ہیں۔ یہ ناول ہے آمنہ مفتی کا ”آخری زمانہ“۔ آمنہ مفتی کا یہ دوسرا ناول ہے۔ اس سے پہلے قوسین، کے زیر اہتمام اس کا ایک ناول ”جرا¿ت رندانہ“ چھپ چکا ہے جس کے بارے میںبعض صائب الرائے حضرات اچھی رائے کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس ناول ”آخری زمانہ “ کو پڑھنے اور اس پر بات کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ پہلے ناول کا مطالعہ بنی، لیکن کچھ تاخیر ہوئی ، کارن اس خوبصورت ناول کی ضخامت بنی کہ ”الفیصل“ کی جانب سے شائع ہونے والا یہ ناول بڑی تختی کے 557 صفحات پر محیط ہے۔ دوسری وجہ اس ناول کے بیک فلیپ پر میرے پسندیدہ اور منفرد ناول نگار اور کہانی کار عبداللہ حسین کی رائے تھی جس میں انہوں نے لکھا ہے ”مجھے آمنہ مفتی کا ’آخری زمانہ‘ واقعی پسند آیا اور میں چاہوں گا کہ ہر شخص اس کو پڑھے۔ لہٰذا میں نے اس ناول کو پڑھ ڈالا۔
ناول کو پڑھنے کی ایک وجہ اور بھی بنی۔ یہ وجہ بہت ”بھاری“ ہے۔ مجھ پر بھی اور شاید آپ پر بھی بھاری پڑے۔ مجھے ’ناول فوبیا‘ ہو چکا ہے۔ یہ بھی ایک بیماری کا نام ہے جس کی بڑی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ مریض بار بار لفظ مانگتا ہے۔ تو بات یہ ہے کہ میں بار بار لفظ اس لیے مانگتا ہوں کہ میں ان ناولوں میں جی رہے کرداروں کی زندگی جینا چاہتا ہوں۔ انہی کے جیسے کام کرنا چاہتا ہوں اور انہی کے جیسی موت مرنا چاہتا ہوں …. کیا آپ کے ساتھ بھی کبھی ایسا کچھ ہوا ہے۔ میرے جیسا؟ اگر ایسا ہوا ہے تو آئیے! ہم دنیا بھر میں لکھے گئے اچھے ناولوں کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر ان کی قرا¿ت کرتے ہیں۔ ایک فہرست میں نے محمد سلیم الرحمن اور وجاہت مسعود سے بنوا رکھی ہے۔ اگلی کسی ملاقات میں آپ سے شیئر بھی کرتے ہیں۔ فی الحال ”آخری زمانہ “ کی جانب چلتے ہیں۔ آخری زمانہ ، جو ابھی آیا تو نہیں لیکن کچھ عرصے میں آیا بھی چاہتا ہے۔ اپنے اس ناول میں آمنہ مفتی، نے ہمیں ایک تصویر دکھائی ہے۔ ہو بہو آخری زمانہ ، کے جیسی۔ ایک ہی گھر، ایک ہی خاندان، ایک ہی شہر اور ایک ہی ملک میں رہتے بستے ”کردار“ ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے، جھوجھتے ، ایک دوسرے سے فکری، سماجی اختلاف اور تضاد رکھتے، ایک ایسی زندگی کی تلاش میں ہیں جس کا حقیقی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق ، کوئی سمبندھ نہیں بنتا۔
ناول خوب صورت منظر بناتا ہوا ایک منفرد دیہاتی بیانیے سے شروع ہوتا ہے۔
”گاﺅں کی گلیوں میں گنے کے چسے ہوئے چھلکے تھے ، اور چاندنی، کہرے میں ٹھٹھرے ہوئے درختوں اور اوس نچڑتی دیواروں کے سایوں کے درمیان موزائیک بنا رہی تھیں۔“
تہذیبی رنگارنگی میں ایک دم جلسے جلوس نکلنے لگتے ہیں، نعرے اور تقریریں ہونے لگتی ہیں، مدرسوں میں درس ہونے لگتا ہے۔ یونیورسٹیوں میں سیکولرازم پنپنے لگتا ہے۔ ایک طرف حکومت بنانے، فوری انصاف کی فراہمی کے فیصلے کرنے کے اختیارات کے حصول کی ”ضدیں“ جڑ پکڑنے لگتی ہیں، دوسری طرف طبل جمہور پر آئینی تھاپ پڑتی ہے۔ فیصلوں کے درمیان فاصلے آنے لگتے ہیں، تبھی زور زبردستی کا قانون جڑ پکڑنے لگتا ہے۔ ریاست ”مجموعہ اضداد“ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ دھماکے، دہشت و وحشت اور بربریت جابجا اپنا راج قائم کر لیتے ہیں، انہی میں سے طلوع ہوتا ہے ”آخری زمانہ“ جو آمنہ \"amnaمفتی کا ناول بھی ہے اور دنیا کے لیے ایک علامتی الارم بھی۔
”مگر یہ جمہوری حکومتیں بھی، انہوں نے کیا کیا؟ اتنی کرپشن؟ ماموں ہم اتنے کمینے کیوں ہیں؟“۔ راحیلہ کہتی ہے۔
”کتنے مزے کے نام ہیں یہ مشہد اور اصفہان۔“ …. سلسلہ ہی اور ہے 1772 ءسے کابل میں پشتون تھے۔ پھر ربانی آتا ہے جوکہ تاجک ہے ۔ اب یہ پشتون اسے یہاں سے نکال کے ہی دم لیں گے۔ ادھر ایران ہے جو شیعوں کو امداد دے رہا ہے۔ ہرات کے لیے تو ایران کی جان جاتی ہے۔ انڈیا، کو ربانی عزیز ہے۔“
سارہ ، راحیلہ، جانس، دادی، جمیل، رحیم گل، جنید بغدادی، خالد، دابو اور دہلوی سمیت دیگر بے شمار کرداروں کی کہانی آخری زمانہ کی جانب بڑھ رہی ہوتی ہے کہ عین بیچ میں یعنی صفحہ 324 پر نائن الیون ہو جاتا ہے۔ ناول کے ایک کردار ’تہو رعلی خان‘ کے ذریعے پتہ چلتا ہے ۔
”جانے نائن الیون نے کسی جناتی ٹائم مشین کا بٹن دبا دیا تھا اور ساری دنیا قرون وسطیٰ کے جنگجو اور وحشی دور میں لوٹ گئی تھی تو رابورا، قندھار، ہرات، مزار شریف، کابل، قلعہ جنگی۔ نام تھے کہ تہذیب و ثقافت کے خرابے، جہاں امریکی طیارے گدھوں کی طرح اڑتے پھر رہے تھے۔ مزار شریف وہ شہر جو شہروں میں مثال تھا۔ جہاں حضرت علی ؓ کا مزار ہے اور بلخ کا اجڑا ہوا شہر، شہروں کی ماں، زرتشت آیا، سکندر آیا، عرب آئے، رومی کے شعر گونجے۔“۔
اور آخر میں ایک اقتباس:
”بس یہ ضرب کلیم ہے اس کے بعد اسلام آباد ہمارا ہو گا۔ واقعی اصل معنوں میں، ہمارا۔ یہ نہیں کہ نام اسلامی اور روح شیطانی۔ یہاں واقعی اسلام، آباد ہو گا۔ اسلامی انقلاب۔ زندہ باد“۔
دیکھا آپ نے آمنہ مفتی نے ہمیں چاروں سمت سے یلغار کرنے والوں کے ارادوں اور عزائم سے روشناس کرا ڈالا۔ عین اسی طرح جیسے ہماری ریاست کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کی کوئی سمت کوئی منزل متعین نہیں۔ ان ارادوں اور عزائم والوں کی سمت کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ بس یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم پڑھنے، لکھنے اور سوچنے والے اپنے اپنے زمانے کی کمین گاہوں میں بیٹھے ان لوگوں کو ”آخری زمانہ“ سے گزرتے دیکھ رہے ہیں۔ آمنہ مفتی دیکھ رہی ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کتنے ہی زمانے گزر گئے اور ان زمانوں میں جو، جو گزر گیا، وہی اس کا آخری زمانہ تھا۔ ہمارا آخری زمانہ، کچھ دوری پر پڑا دھرا ہے۔ابھی اسے اٹھائیں گے اور پڑھنا شروع کر دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments