گالی سے گولی تک


ناروال میں وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو پاکستان کی سیاست میں گالی سے شروع ہوئی اور شاید گولی پر ختم ہونے جارہی ہے۔ بحیثیت قوم اگر ہم گالی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوجاتے تو سیاہی اور جوتا پھینکنے کے بعد گولی کے واقعات پیش نہ آتے۔ اس کے ذمہ دار اور کوئی نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔ سیاسی رہنما ہو یا مذہبی، اگر گالی کے خلاف ایک ہو چکے ہوتے تو آج دنیا بھر میں پاکستان کے وفاقی وزیرداخلہ کے زخمی ہونے کی اطلاعات گردش نہ کر رہی ہوتیں۔

ایسے واقعات کی روک تھام کی ذمہ داری اگر اداروں پر ہے تو انفرادی طور پر ہم سب بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ اللہ تعالٰی جناب احسن اقبال صاحب کو صحت دے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ جب گالی سرکار دارالحکومت میں بسنے والوں کو مصیبت میں ڈال رہے تھے تو مقلدین میں صاحب اقتدار بھی شامل تھے۔ عدالتی احکامات کے باوجود اگر قانون حرکت میں نہ لایا جاسکا تو ایسے واقعات کوئی انہونی بات نہیں۔ آج بھی بہت سوں کو شاید یہ لگ رہا ہوگا کہ یہ واقعہ مکافات عمل ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ اگر آج حکمران ایک سیاسی جماعت ہے تو کل دوسری جماعت ہوگی اور ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے جو آج کے حکمرانوں کے ساتھ ہورہا ہے۔

سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر اخلاقیات کا جنازہ نکالنے والوں کو سوچنا ہوگا کہ ٹی وی پر بیٹھ کر دھمکیاں دینے والا کون ہے؟ کیوں آج تک قانون کے چنگل سے آزاد پھررہا ہے؟ اس ملک میں آئین اور قانون موجود ہے، ادارے اپنا کام کر رہے ہیں، پھر بھی قانون ایک بندے کے لئے موجود لیکن دوسروں پر اطلاق نہیں ہورہا يا شايد ابھی تک وہ قانون نہیں بنا کہ اشتعال انگیزی کو روک کر ہر اس شخص کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے جو ایک 21سالہ نوجوان کو وفاقی وزیرداخلہ پر گولی چلانے پر اکساتا ہے۔

پاکستان کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ کو تمام سیاسی رہنما وہ توجہ نہیں دے رہے جو دینی چاہئیے۔ وہ قانون سازی بھی نہیں ہورہی جو کرنی چاہئیے۔ وہ فیصلے کی قوت بھی نظر نہیں آرہی جو ایک جمہوری نظام کو چلانے اور مضبوط کرنے لئے ضروری ہے۔ ایک سیاسی رہنما اگر پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتا ہے تو اس کے کارکنان پارلیمنٹ کے احترام کی بجائے اپنے لیڈر کی بات کا دفاع ہر جگہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ ایک منتخب وزیراعظم پارلیمنٹ کو وقت تب دیتا نظر آتا ہے جب گلے میں مصیبت کی گھنٹی بجنی شروع ہوجاتی ہے۔ کئی سیاسی رہنماؤں کی پارلیمنٹ میں حاضری 5 تو کئی کی 10 فیصد ہے لیکن تنخواہیں پوری لے رہے ہیں۔ پھر بھی پوچھنے والا کوئی نہیں اور جب کوئی واقعہ سرزد ہوتا ہے تو سب کو مذمتی بیانات کی شکل میں سیاست کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ان مذمتی بیانات کو اخبارات اور ٹی وی چینل کی زینت بنایا جاتا ہے اور کل پھر ہم بھول جاتے ہیں کہ آج کیا واقعہ پیش آیا تھا۔

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ سابق وزیردفاع خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی گئی، سابق وزیراعظم میاں نوازشریف پر جوتا پھینکا گیا اور آج وفاقی وزیرداخلہ پر گولی چلائی گئی، ان سب کے پیچھے اگر رپورٹس دیکھے جائے تو مدعا و مقصد اور کرنے والوں کا نظریہ ایک ہی ہے۔ یہ نظریہ ہر جگہ اتنی سرائیت کرچکا ہے کہ ایک وفاقی وزیرداخلہ بھی اس سے محفوظ نہیں تو عام پاکستانی کیسے اپنے آپ کو اس سے محفوظ سمجھ سکتا ہے۔ دین اسلام امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے۔ اسلام میں گالی گلوچ، قانون سے روگردانی اور نظام کے خلاف بات کرنے کا تصور بھی موجود نہیں مگر کچھ لوگ ایسے نظریات کو جنم دے رہے ہیں جو اشتعال انگیزی، نفرت، انتہاپسندی اور آئین و قانون سے مکمل روگردانی کو تقویت دے رہے ہیں۔

پاکستان میں اب سیاست گالی، جوتی اور تھپڑ سے آگے نکل کرگولی تک پہنچ جانا انتہائی تشویشناک حالات کی طرف اشارہ ہے اگر آج صورتحال کو کنٹرول نہ کیا گیا تو مستقبل قریب میں ایسے واقعات سے کسی کا بھی بچنا مشکل ہوگا۔ اگر یہ سیاست کی ایک شکل ہے تو شاید جمہوری نظام کو لپیٹنے کا آغاز ہو چکا ہے۔ ایسے میں سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ اس ملک کے نوجوانوں کو آگے آنا ہوگا تاکہ اپنے مستقبل کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے جاسکے اور آنے والی نسل کا تحفظ بھی یقینی بنایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).