کس نے دے دیے تمہیں یہ موت کے فتوے جاری کرنے کے ٹھیکے؟


اللہ کی مخلوق کو محض الیکشن جیتنے کے لئے اپنے اقتدار کی آگ میں بطور ایندھن جھونکنے والو ڈرو اس وقت سے جب یہ آگ تمہارے گھروں تک پہنچ جائے۔ یہ پاگل پن کی حد تک مذہبی جنون کا طوفان جو تم نے برپا کیا ہے دیکھنا اس میں ایک دن تمہارا گھر نہ بہہ جائے۔ میرے پیارے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ناموس پر میری جان مال اور میری سات نسلیں قربان ان کو تمہارے اس بیمار ذہن کے فلسفے کی نہ ضرورت ہے نہ تمہارےسوچ سمجھ سے عاری اپاہج دفاع کی۔ میرا پیارا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے دین اور اپنی ناموس کی حفاظت کر بھی سکتا ہے اور کر بھی رہا ہے۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو دشمنوں کو دعائیں دیتا اور خود پر کوڑا پھینکے والوں کی خدمتیں کرتا رہا تم ایسے نبی کی ناموس کے نام پہ موت کا کھیل کھیلو گے؟ وہ جو رحمت العالمین ہے۔

منبروں پہ بیٹھ کر انسانی خون بہانے کا درس دے کر اور انسانی سروں کی تجارت کر کے تم کون سی جنت میں جانا چاہتے ہو؟ کس نے دے دیے تمہیں یہ موت کے فتوے جاری کرنے کے ٹھیکے؟ جن کی آڑ میں تم اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد تک جانے اور کسی بھی انسان کی بلی چڑھانے سے ہچکچاتے نہیں ہو۔ یاد رکھو مذہب کے نام پر جو حشر تم نے پورے پاکستان میں برپا کر رکھا ہے اس کے لیے خدا نے ایک محشر بھی تیار رکھا ہے۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ یہ زمین آسمان جس اللہ کی کل تخلیق کا ایک چھوٹا سا ذرہ ہیں اس کو اپنے دین کی حفاظت کے لیے تم جیسے موت کے بیوپاریوں کی ضرورت ہے؟ یہ دین کے لیے کٹنا مرنا اور حق گوئی و بیباکی تو ہماری ہی فلاح کا اک ذریعہ ہے وگرنہ اللہ کو ہماری قطعی ضرورت نہیں ہے۔

مگر ہم ایسے بے شرم لوگ ہیں کہ ہم نے اس فلاح کے ذریعے کو اپنے مزموم مقاصد کی تکمیل اور اپنے سیاسی منبر چمکانے کا ذریعہ بنا لیا جس میں ایک گروہ انسانیت کا قتل عام کرتا ہے اور باقی اس کی مذمت کرنے کے بجائے اس پر سیاست چمکاتے ہے۔ اور ہم انسانیت کے ان تاجروں کی جنبش آبرو پر بحثیت قوم مذہبی سوچ سمجھ سے عاری ذہن ہپناٹائیڈحالت میں آتش و خون کی اس بھٹی میں ایک دوسرے کی دم پکڑ کے گرتے جا رہے ہیں۔ بلکہ ہماری مذہبی سوچ سمجھ کا حلوہ تو اسی دن تیار ہو گیا تھا جب ہم نے دین کو خود سمجھنے کے بجائےچند لوگوں کے ہاتھ دے دیا اور وہ اس کے ٹھیکے دار بن بیٹھے اور ہمارا کام محض پیچھے صف باندھ کر نمازیں جمعے عیدیں اور جنازے پڑھنے تک رہ گیا باقی وہ جانے ان کا کام ہمارا کام اندھا دھند پیروی کرنا ہے۔ مذہبی تعلیم کو تو جیسے ہم نے خود پہ حرام کر لیا ہے کیونکہ ہمارے نیم حکیم نما پیشواؤں نے دین کا کچھ ایسا نقشہ اور نمونہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے کہ اس پر عمل کرنا عام آدمی کے بس کی بات ہی نہیں لگتا۔

ایسا لگتا ہے جیسے دین پر عمل اور اسے سمجھنے کے لئے تارک الدنیا ہونا پڑے گا۔ ہمارے سامنے اسلام اور اسلامی تعلیم حاصل کرنے والے اور اس پر عمل کرنے والے ایسے پیش ہوتے ہیں کہ لگتا ہے وہ کسی اور دنیا کے لوگ ہیں اور ہم کسی اور کے۔ اور ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہے تا کہ دین کی سمجھ اور تعلیم عام مسلمان کے بس کی بات نہ رہے اور یہ اسےجیسے چاہیں توڑ مروڑ کر اپنے ذاتی ایجنڈوں کی تکمیک کے لیے استعمال کریں۔ اور یہ اسی سوچے سمجھے کوشش کا نتیجہ ہے کہ عام مسلمان دین اور دینی تعلیم دونوں کا باغی ہے۔ حالانکہ مذہبی تعلیم کا مطلب دین دنیا سے قطع تعلق ہو کر مدرسے کا ہو رہنا ہر گز نہیں ہے۔ دین اور دینی تعلیم کے یہ معیار اور اصول ہم نے خود متعین کیے ہیں۔ اسلام تو دین فطرت ہے اس میں کچھ بھی عام انسانی فہم اور سوچ سے ہٹ کر نہیں ہے نا اس میں دیو مالائی کہانیاں ہیں اور نا ہی نا قابل عمل عقائد و تعلیمات (بلکہ اس میں تو آسانی ہی آسانی ہے) مگر ہم شاید یہی سمجھتے ہیں کہ دین پر بات کرنے اس کو سیکھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ہمیں کسی اور مخلوق کا روپ دھارن کرنا ہوگا یا ہمیں ایک مخصوص لبادا اوڑھنا ہوگا جو ہمارے بس کی بات نہیں ہے اس لیے ہم نے اس کو ایک مخصوص طبقے کی جاگیر بنا دیا ہے جو ہمارے عقائد و ایمان کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو ایک عطائی اپنے مریض کے ساتھ کرتا ہے۔

ہمارے ساتھ وہی ہو رہا ہے جو یہودی علماء اہل یہود کے ساتھ کرتے تھے یعنی دین کو ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لیے ڈھال بنا لیتے تھے اور یہی نہیں اگر بادشاہ وقت یا کسی اور کو بھی کسی مقصد کے لئے دین کی ڈھال چاہیے ہوتی تھی تو ہر قسم اور ضرورت کے فتوے برائے فروخت پہ بھی دستیاب رہتے تھے۔ یہاں مقصد کسی مذہبی راہنما کی تذلیل و تکحیر نہیں ہے (بلکہ کچھ قابل فخر علماء مولوی اور مذہبی راہنماء بھی مقدر سے ہمیں میسر ہیں شاید ان ہی کی وجہ سے یہ مذہب کے نام پر بھڑکایا جانے والا الاؤ کچھ ٹھنڈا ہے ) بلکہ یہ باور کرانا ہے کہ مذہب کوئی ان کی ذمہ داری یا ملکییت نہیں ہے بلکہ یہ ہم سب پر فرض ہے کہ ہم دین کی کم از کم اتنی سوجھ بوجھ ضرور حاصل کر لیں کہ کوئی ہمیں یا ہمارے بچوں کو دین کے نام پہ استعمال نہ کر سکے۔

آپ کو معلوم ہے کے ایک نظریاتی اور تعلیم یافتہ قوم کی بنیاد دو جگہوں پہ رکھی جاتی ہے اور وہ ہے مدرسہ اور سکول اور معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان دونوں کے معاملے میں ہم روز اول سے اجتماعی لا پرواہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لہذا آج ہمیں یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے کہ کوئی بھی ہمیں مذہب کے نام پہ ہانک لیتا ہے اور ہم ”میں میں“ کرتے بغیر سوچے سمجھے جہاں وہ چاہتا ہے پل پڑتے ہیں۔ بات کو مزید آسان کرنے کے لیے کہنا چاہوں گی اگر ایک والدین کی تین اولادیں ہیں تو ان میں سے جو بچہ سب سے زیادہ لائق اور چست ہو گا اس کو وہ ڈاکٹر، بینکر بنائیں گے یا پھر سی ایس ایس میں بیٹھا دیں گے اور اسے اعلی سے اعلی ادارے میں پڑھائیں گے اور جو بچہ ذرا درمیانہ ہوگا اس کو سرکاری سکول میں ڈال دیں گے اور استاد بنا دیں گے (یہاں شکر کی بات یہ ہے کہ اب تعلیم کے شعبہ میں بہتری آرہی ہے اور سرکاری ٹیچر اور سکول دونوں بہتری کی طرف گامزن ہیں ) اور اوپر سے سرکار نے سرکاری تعلیمی شعبہ کی تنخواہیں، مراعات اور حالات ایسے رکھے ہیں کہ اس میں کوئی قابل بندہ آنا ہی نہیں چاہتا اور آئے بھی تو ٹکتا نہیں۔

جو بچہ سب سے کند ذہن ہوگا یا تعلیمی بھگوڑا ہوگا اس کو وہ مدرسے میں داخل کروا دیتے ہیں اور پھر وہ وہاں پر اپنے ہی جیسی تاریخ رکھنے والے استاد کی مار کھا کھا کر ایک سکہ بند مولوی بن جاتا ہے۔ تشدد پسند مولوی۔ اور کسی مسجد یا مدرسے کا چارج سنبھال کے آگے یہی فیض بانٹنا شروع کر دیتا ہے اور یہ سلسہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ ایسا مولوی کونسا دین دکھائے گا ہمیں؟ کیا دے گا ہمارے بچوں کو؟ ان کے ہاتھ میں ہماری مذہبی تربیت کی باگ دوڑ ہے تو پھر یہی ہو گا جو ہو رہا ہے۔ ہم مذہب کے ساتھ ہیرا پھیری کا یہ رویہ کب ترک کریں گے؟ اپنے لائق بچوں اور اعلی تعلیم یافتہ بچوں کو سکول اور مذہب کی تعلیم کے لئے مختص کیوں نہیں کرتے ہم؟ اور یہ سکول اور مدرسے کا فرق کیوں نہیں مٹا دیتے۔ دونوں میں ایک اور یکساں نصاب رائج کرنا ہوگا۔ یہ سوچ ترک کرنا ہوگی کہ دینی تعلیم کا دنیاوی تعلیم اور زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق تو جنت اور جہنم سے ہے۔

یقین کیجیے اسی منفی سوچ نے آج ہمیں اس نہج پر پہنچادیا ہے کہ کچھ مذہب کے ٹھیکیدار اپنے سیاسی ایجنڈوں کی تکمیل کے لئے ہمیں دنیا میں ہی جہنم واصل کر چکے۔ یہ ہے مذہب اور مذہبی سوجھ بوجھ سے لا علمی کا انجام مگر ہم سمجھتے نہیں ہیں۔ کوئی بھی کبھی کسی کو بھی مذہب کو نام پر قتل کروا سکتا ہے۔ یہاں ایک ٹرینڈ چل نکلا ہے کہ جس کو قابو کرنے کا کوئی اور حل نہیں اس پر توہین رسالت کا ٹیگ لگا دو لمحوں میں مارا جائے گا۔ ہمیں بحثیت قوم سرکاری سطح پر اس مسئلے کا حل نکالنا ہو گا۔ مناسب دینی تعلیم کو عمومی اور ناموس رسالت کے قانون اور اس کی تشریح کو خصوصی طور پر نصاب کا حصہ بنانا ہوگا تا کہ مزید کبھی بھی اور کوئی بھی ہمیں اپنا ذاتی دین اور اپنی ذاتی تشریح نہ سکھائے۔ مگر یہاں تو عالم یہ ہے کہ آئے روز کسی نا کسی کو مذہب اور توہین رسالت کو نام پر بغیر تصدیق کے مار دیا جاتا ہے اور ہماری اکثرییت یا تو کم علمی کی وجہ سے اس کھیل کا حصہ بن جاتی ہے یا پھر اس خوف سے خاموش ہو جاتی ہے کہ کہیں حرف احتجاج بلند کرنے کی پاداش میں اسے بھی ایسے ہی کسی الزام کا سامنا نا کرنا پڑ جائےاور ہمارے ہاں اس الزام کا مطلب موت کا پروانا ہے۔ کب تک جییں گے ہم خوف میں؟

اس خوف کا ایک ہی توڑ ہے اور وہ ہے دین اسلام اور توہین رسالت کے قانون سے زیادہ سے زیادہ آگاہی۔ دین اور دین پر عمل کرنے کو بیگانگی تصور کرنا بند کیجیے اور دین کی سوجھ بوجھ کو بحیثیت مسلمان انفرادی و اجتماعی ذمہ داری تصور کرنا شروع کیجیے اس کو عید شبرات جمعہ اور جنازہ پڑھنے سے آگے بھی سمجھیے یہ ایک پورا ضابطہ حیات ہے۔ یقین کیجیے جس دن ہم ”پیچھے اس امام کے“ کی نیت کو محض نماز با جماعت تک محدود کر دیا اور دین و دینی تعلیم کو اپنی ذاتی و اجتماعی زندگیوں پر اطلاق کے لیے سمجھنا شروع کر دیا تو اس دن کے بعد نا کوئی مشال خان مارا جائے گا اور نا کسی آپا نثار فاطمہ کے بیٹے پر قاتلانہ حملہ ہوگا۔ اور نہ کوئی ہمارے اجتماعی قومی ذہنی بانجھ پن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے افسوسناک واقعات پر افسوس کرنے کی بجائے سیاست چمکائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).