اقبال اور جناح اسلامی جمعیتِ طلبہ میں


امیرِ جماعتِ اسلامی سراج الحق نے اسلامی جمعیتِ طلبہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مجھے یقین ہے اگر علامہ اقبال اور قائدِ اعظم محمد علی جناح آج زندہ ہوتے تو وہ بھی اسلامی جمعیتِ طلبہ کے رکن ہوتے کیونکہ جمعیت ہی وہ تنظیم ہے جس نے اقبال اور قائدِ اعظم کے پاکستان کی حفاظت کی ہے‘۔

مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ دونوں اکابرین جمعیت میں ہوتے نہ ہوتے البتہ جناح آج 139 برس اور اقبال 138 برس کے ضرور ہوتے۔ زیادہ امکان ہے کہ اس پیرانہ سالی میں اقبال اور جناح جمعیت کے اجتماعات میں اچھل اچھل کے انقلاب انقلاب اسلامی انقلاب کے فلک شگاف نعرے لگانے کے بجائے جماعتِ اسلامی کی مجلسِ شوری میں لخلخا رہے ہوتے۔

اگر ایسا ہوتا تو پھر سراج الحق صاحب کہاں ہوتے؟ شاید اسی لیے سراج صاحب نے اقبال اور جناح پر صرف جمعیت ہی کے دروازے کھولے ہیں اور وہ بھی جمعیت کی نظامتِ اعلیٰ سے دستکش ہونے کے 24 برس بعد۔ اسے کہتے ہیں کنی بچا کے کھیلنا۔

سراجیہ ویژن کے مطابق آج اگر اقبال اور جناح ہوتے تو زیادہ سے زیادہ بیس اکیس برس کے طالبِ علم ہوتے۔ تو پھر 1947 میں پاکستان کون کس سے کیوں بنواتا؟ سید مودودی تو بہرحال اس موڈ میں نہیں تھے۔ اگر اقبال اور جناح آج کی جمعیت میں ہوتے تو پھر جمعیت کو 68 برس تک اقبال اور جناح کے نہ بنائے ہوئے پاکستان کی حفاظت کا موقع کیسے ملتا اور وہ بھی ایک متحدہ ہندوستان میں؟

سراج صاحب ذرا سا لیٹ ہوگئے کیونکہ ابھی چھ ماہ پہلے ہی جناح صاحب متحدہ قومی موومنٹ میں شامل ہو چکے ہیں۔ بلکہ شمولیت کہنا شاید درست نہ ہو جناح صاحب تو دراصل ایم کیو ایم کے بانی ہیں۔ ثبوت یہ ہے کہ خود جناح صاحب کی جنم بھومی کراچی کے سابق میئر اور قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے سابق پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار بھرے مجمع میں بتا چکے ہیں کہ ’جب خان لیاقت علی خان نے جناح صاحب سے دورانِ علالت پوچھا کہ ہم چلے گئے تو اس ملک کا کیا بنے گا تو قائد نے کہا کہ فکر مکاوا۔ ہم نہ سہی ہمارے بعد الطاف ہو گا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قائدِ تحریک ہی قائدِ اعظم کے ویژن کے صحیح وارث ہیں۔‘

ان حالات میں بہتر ہو اگر دونوں دعویدار (سراج الحق اور فاروق ستار) بیٹھ کے طے کر لیں کہ ان میں سے کون اقبال اور جناح کا فکری وارث ہے۔ اس کے بعد چاہیں تو دونوں رہنما مرحومین سے رکنیت کا فارم باری باری بھروا لیں۔ ویسے بھی سیاست کے فی زمانہ چلن ( بلکہ بد چلنی ) سے لوگ باگ اس قدر بد دل ہو چلے ہیں کہ اب مردوں کو پھر سے زندہ کر کے فعال کرنے سے ہی کام چلے گا۔ وقت کی اس ضرورت سے ایم کیوایم اور جماعتِ اسلامی سے زیادہ بھلا کون واقف ہے؟

سراج الحق کا ویژن دیکھ کر یونہی ذہن میں کچھ سوالات آ رہے ہیں۔

اسلامی جمعیتِ طلبا کا قیام 23 دسمبر 1947 کو لاہور میں عمل میں آیا۔ جناح صاحب اس وقت حیات تھے۔ کیا جمعیت کے پہلے ناظمِ اعلیٰ ظفر اللہ خان نے جناح صاحب کو تاسیسی اجلاس کی سرپرستی کی دعوت دی تاکہ بانیِ پاکستان کو بھی لگ پتہ جائے کہ اب نوجوانوں کی وہ والی تنظیم وجود میں آ گئی ہے جو ان کے پاکستان کی حفاظت کرے گی لہٰذا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کو لپیٹ دیا جائے۔

اگر جناح صاحب پاکستان بننے سے پہلے یا بعد میں جماعتِ اسلامی کو مسلم لیگ میں ضم کرنے کی صلاح دیتے تو مولانا مودودی کیا مان جاتے؟ تو کیا سیدی مودودی نے بھی کبھی جناح صاحب کو جماعتِ اسلامی میں شمولیت کا پیغام بھجوایا یا کبھی زبانی و تحریری، صراحتاً یا اشارتاً یقین دلایا کہ جمعیت کے بچے آپ کے بنائے ہوئے پاکستان کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دیں گے؟

اگر تاریخ خواہشات کے تابع ہو جائے تو مسائل ہی حل ہو جائیں۔ سراج الحق صاحب کے خطاب پر جمعیت کے نوجوانوں نے تالیاں تو خوب بجائیں۔ مگر سراج صاحب کا مقصد کیا زوردار تالیاں پٹوانا ہی تھا؟ اور اب جو میڈیا میں ڈنکا بلکہ ڈنکی پٹ رہا ہے وہ؟

مجھے لگتا ہے آج اگر اقبال اور جناح ہوتے تو نہ ایم کیو ایم میں ہوتے نہ جمعیت میں بلکہ منٹو کے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی طرح کسی درخت پر چڑھے ہوئے ہوتے اور فاروق ستار اور سراج الحق اس درخت کو زور زور سے ہلا رہے ہوتے۔

(6  نومبر 2015)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).