سپریم کورٹ گڑے مردے کیوں اکھاڑنا چاہتی ہے؟


جسٹس (ر) افتخار چوہدری نے 2009 میں بحالی کے بعد غیر معمولی جوڈیشل ایکٹو ازم کا مظاہرہ کیا تھا اور ان کے متعدد فیصلے آج تک متنازعہ بھی ہیں۔ تاہم اصغر خان کیس میں ان کے حکم کو اس حوالے سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے کہ اس میں پہلی مرتبہ ایسے فوجی افسروں کے خلاف ا ٓئین شکنی کے الزام میں تحقیقات اور کارروائی کرنے کا حکم دیا گیا تھا جو اس وقت بھی بقید حیات تھے اور اب بھی زندہ ہیں۔ ان میں سے ایک فوج کا سابق سربراہ بھی رہ چکا ہے۔ اس دلیرانہ فیصلہ میں بھی سپریم کورٹ نے ان سابقہ فوجی افسروں کی آئین شکنی کا خود نوٹس لینے کی بجائے ، اس کی ذمہ داری سول حکومت پر ڈالنا زیادہ ضروری سمجھا تھا۔ اسی لئے اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت اور بعد میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سول ملٹری تعلقات کی حساسیت کی وجہ سے اس معاملہ میں الجھنا ضروری نہیں سمجھا۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے بھی کل سے پہلے اس معاملہ کو اہمیت دینے یا اس پر عملدرآمد کے حوالے سے چستی دکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اب چیف جسٹس ثاقب نثار اس قدر مستعد ہوئے ہیں کہ انہوں نے حکم دیا ہے کہ وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کرکے اس معاملہ پر فیصلہ کیا جائے اور سپریم کورٹ کو اس بارے میں مطلع کیا جائے۔ جب اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے واجب الاحترام عدالت کی توجہ اس نکتہ پر مبذول کروانے کی کوشش کی کہ کابینہ کے منعقد ہونے والے اجلاس کا ایجنڈا طے کیا جاچکا ہے اس لئے حکومت کو اس بارے میں حتمی جواب دینے کے لئے دو ہفتے کا وقت دیا جائے تو چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کرکے ایک ہفتہ کے اندر فیصلہ کیا جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کے پاس تو اب صرف تین ہفتے رہ گئے ہیں تو اسے دو ہفتے کی مہلت کیسے دی جاسکتی ہے۔ یہ جاننے کے باوجود چیف جسٹس یہ اعتراف کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ جو حکومت تین ہفتے بعد ر خصت ہونے والی ہے ، وہ 22 سال پرانے قضیے کا حل کیسے نکال سکتی ہے۔ یا یہ کہ جس معاملہ پر سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنے میں 16 برس اور نظر ثانی کی درخواست مسترد کرنے میں 6 برس صرف ہوئے ہیں ، اس پر اپنی مدت کے اختتام تک پہنچی ہوئی حکومت کیسے اور کیا اقدام کرسکتی ہے۔

عدالت میں کارروائی کے دوران جب اصغر خان کے خاندان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اسے آئین شکنی کا معاملہ قرار دیا تو چیف جسٹس کو یہ ریمارکس دینے پڑے کہ یہ معاملہ آئین توڑنے کی بجائے بد عنوانی کا ہے۔ یہ ریمارکس ایک طرح سے فوج یا اس کے سابقہ جرنیلوں کو آئین شکنی کے سنگین جرم سے ’بری الذمہ ‘ قرار دینے کی بالواسطہ کوشش ہی کہی جا سکتی ہے۔ ورنہ چیف جسٹس ایسے سنگین معاملہ پر اتنا واضح تبصرہ کیسے کرسکتے ہیں، جس کی نہ تو تحقیقات ہوئی ہیں اور نہ ہی استغاثہ نے اس بارے میں اپنا مؤقف پیش کیا ہے۔ عدالت اور جج تو اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنے کے قابل ہوں گے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے جس فیصلہ پر عمل کرنے کا حکم دیا جارہا ہے اس میں آئین شکنی کا حوالہ دیا گیا ہے لیکن موجودہ چیف جسٹس اسے بدعنوانی کا معاملہ قرار دے رہے ہیں۔ گویا حکومت یا استغاثہ کے لئے تحقیق و تفتیش اور الزام فریم کرنے کے حوالے سے حدود مقرر کی جارہی ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ تبصرہ کس حد تک ججوں کے ضابطہ اخلاق اور ملک کی آئینی حدود کے اندر ہے۔ اس سوال کا جواب دیگر اداروں کی طرح ملک کی عدلیہ کی حدود مقرر کرنے کے حوالے سے بے حد اہم ہو گا۔ نواز شریف اس بارے میں کہہ چکے ہیں کہ ان کی پارٹی انتخاب جیت گئی تو وہ عدالتوں کی حدود اور ججوں کے احتساب کے بارےمیں قانون سازی کرے گی۔

یہ بھی اس ملک کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے کہ سپریم کورٹ ملک کی منتخب حکومت کو کابینہ کا خصوصی اجلاس منعقد کرکے ایک خاص معاملہ پر ’مخصوص‘ فیصلہ کرنے کا حکم دے رہی ہے۔ ہو سکے تو چیف جسٹس ثاقب نثار ایک سو موٹو کے ذریعے چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس حکم کی آئینی حیثیت پر بھی کوئی فیصلہ صادر کرنے کی کوشش کریں۔ اصغر خان کیس سیاست میں فوج کی مداخلت کی افسوسناک کہانی کا صرف ایک ہلکا سا عکس ہے۔ لیکن یہ داستان بہت المناک ہے اور ملکی سیاست پر اس کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ جب بھی اس معاملہ کے حقائق سامنے لائے جائیں گے تو فوجی اداروں کی زور زبردستی اور سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی مجبوریوں اور مفاد پرستی کی کہانیوں کے علاوہ عدالتوں اور ججوں کے گھناؤنے چہروں سے بھی پردے اٹھانے پڑیں گے۔ چیف جسٹس کے احکامات اگر موجودہ سیاسی منظر نامہ میں مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن پر اثر انداز ہونے کے منصوبہ کا حصہ نہیں ہیں اور وہ واقعی سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت کی روک تھام کرنا چاہتے ہیں تو صرف اصغر خان کیس میں حکومت پر دباؤ ڈالنے اور اٹارنی جنرل کو ڈانٹنے سے کام نہیں چلے گا۔ تب انہیں ججوں سمیت اس کہانی کے سب کرداروں کے کارناموں کو سامنے لانا ہو گا۔

جسٹس ثاقب نثار اس داغدار کہانی کو انجام تک پہنچانے کے کام کا آغاز کرنا چاہتے ہیں تو ان کے پاس ایک سے زیادہ مواقع موجود ہیں۔ وہ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے معاملہ کو انجام تک پہنچانے میں پھرتی دکھا سکتے ہیں۔ یا ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلہ کے خلاف اپیل پر سماعت کرکے نیا فیصلہ صادر کر سکتے ہیں۔ یا تو وہ حوصلہ کریں اور قومی اسمبلی کی متفقہ قرار داد کو یہ کہہ کر مسترد کردیں کہ بھٹو کی پھانسی عدالتی قتل نہیں تھا۔ یا سپریم کورٹ کے 1979 کے فیصلہ کو کالعدم قرار دے کر اعلان کریں کہ ان کے پیشروؤں نے ایک فوجی آمر کے حکم پر سجدہ ریز ہو کر قانون اور آئین کی خلاف ورزی کی تھی۔ اگر سپریم کورٹ اور چیف جسٹس یہ اقدام کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے تو انہیں اصغر خان کیس میں حکومت کو مطعون کرنے اور گڑے مردے اکھاڑنے کی نیم دلانہ کوشش سے بھی گریز کرنا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali