نو عمر دلہنوں کے نفسیاتی مسائل


نفسیاتی معالجین کی تازہ ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ وہ لڑکیاں جن کی شادیاں اٹھارہ سال کی عمر سے قبل ہو جاتی ہیں، وہ وقت گزرنے کے ساتھ کئی جسمانی عارضوں کے علاوہ نفسیاتی مسائل کا سامنا کرتی ہیں۔ اٹھارہ سال کی عمر میں جن لڑکیوں کی شادیاں ہوتی ہیں وہ ذہنی طور پر خاصی صحت مند رہتی ہیں اور ان کو نفسیاتی پیچیدگیوں کا سامنا کم کرنا پڑتا ہے۔

اس خصوصی ریسرچ میں فوکس ایشیا اور افریقہ کے وہ ممالک تھے جہاں بچپن کی شادیاں رواج میں ہیں۔ کم عمری کی شادیوں سے متعلق نئی ریسرچ بچوں کے بین الاقوامی طبی جریدے پیڈیارٹکس میں شائع کی گئی ہے۔ اس ریسرچ کے لیے حکومتی سطح پر کی جانے والی اعلیٰ ریسرچ کو معیار بنایا گیا تھا۔ اس ریسرچ میں امریکہ اور فرانس کےنفسیاتی محققین خصوصیت سے پیش پیش تھے۔

نفسیاتی معالجین کا خیال ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر میں یا اس کے بعد جن لڑکیوں کی شادیاں ہوتی ہیں وہ ذہنی اعتبار سے کئی سماجی و معاشرتی مسائل کے علاوہ طبی معاملات کی سوج بوجھ بھی رکھتی ہیں اور یہ فہم و فراست ان کی خانگی زندگی میں پریشانیوں سے بچنے میں مدگار ہوتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں کم عمری میں شادی کرنے والی لڑکیاں ڈپریشن کے علاوہ کئی اندرونی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔

یہ امر دلچسپ ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر میں کی جانے والی شادی اور اس سے کم عمر میں شادی دلہنوں کے نفسیاتی و جسمانی عوارض سے متعلق یہ پہلی اہم ریسرچ ہے جس کے نتائج کو خاصی اسٹڈی کے بعد عام کیا گیا ہے۔ اس ریسرچ میں امریکہ میں نوعمری میں ماں بننے والی لڑکیوں کی سوچ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ امریکہ کی سیاہ فام آبادیوں کے خاص طبقوں میں نوعمری میں لڑکیوں کی شادیاں کرنے کا رواج موجود ہے۔

ریسرچرز نے اس تحقیق کے لیے ہزاروں خواتین کے براہ راست انٹرویو بھی کیے۔ اس کے علاوہ سوالناموں کو بھی مکمل کیا گیا۔ ریسرچ کے مطابق کم عمری میں شادیاں کرنے والی لڑکیاں بعض اوقات ایسی نفسیاتی صورت حال کا سامنا کرتی ہیں کہ وہ اپنے خاندانوں اور معاشروں میں مس فٹ ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ریسرچرز نے یہ بھی ضرور واضح کیا ہے کہ نوعمری میں شادی کرنے والی ہر لڑکی ضروری نہیں کہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو لیکن زیادہ تر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی شادیوں سے نفسیاتی عوارض جنم لیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).