سپریم کورٹ گڑے مردے کیوں اکھاڑنا چاہتی ہے؟


سپریم کورٹ کا یہ حکم حیران کن ہے کہ 22 برس کی تاخیر کے بعد اسے اصغر خان کیس میں اٹھائے گئے نکات اور 2012 میں اس حوالے سے دیئے گئے فیصلہ پر عمل درآمد کا خیال آیا ہے۔ چیف جسٹس کا یہ حکم اپنی ٹائمنگ کے لحاظ سے بھی دلچسپی کا باعث ہو گا۔ کیونکہ اصغر خان کیس میں فوج کے افسروں پر سیاسی عمل میں مداخلت کا الزام ثابت ہونے کے علاوہ اس وقت ملک کے عدالتی نظام کی زد پر آئے ہوئے نواز شریف کا نام بھی ان لوگوں میں شامل ہے جن پر فوجی اداروں سے رشوت وصول کرنے کا الزام عائد ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ حکومت کے پاس صرف مئی کے چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں، اس کے بعد انتخابات کے انعقاد کے لئے عبوری حکومت قائم کی جائے گی۔ اس وقت سپریم کورٹ کی طرف سے آنے والا ہر فیصلہ یا ججوں کے ریمارکس جولائی میں متوقع انتخابات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ نواز شریف کی طرف سے مسلسل اس حوالے سے نشاندہی کی جارہی ہے لیکن عدالتی جہاد کا عہد کرنے والے چیف جسٹس نے ہر قسم کی الزام تراشی یا تشویش کو نظر انداز اور مسترد کرنے کی بھی قسم کھا رکھی ہے۔

اس پس منظر میں چھ برس تک اس مقدمہ پر جنرل بیگ اور جنرل درانی کی نظر ثانی کی اپیل کو ’سرد خانہ ‘ میں رکھنے کے بعد کل اسے اچانک مسترد کردیا گیا۔ آج اس کیس پر 2012 میں دئیے گئے حکم پر عمل درآمد کے حوالے سے چیف جسٹس ثاقب نثار نے غیر روائیتی پھرتی اور سخت گیری کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے حکم دیا ہے کہ حکومت ایک ہفتہ کے اندر کابینہ کا خصوصی اجلاس منعقد کرکے یہ فیصلہ کرے کہ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے 2012 کے حکم کے مطابق سابقہ آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے خلاف کیا کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف پر اس معاملہ پر سخت برہمی کا اظہار بھی کیا کہ حکومت اب تک اس معاملہ میں کیوں کوئی کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اکتوبر 2012 میں اصغر خان کیس میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ایک مختصر حکم میں قرار دیا تھا کہ ان دونوں افراد نے نوے کی دہائی میں پیپلز پارٹی کو انتخابات میں شکست دلوانے کے لئے سیاست دانوں میں 14 کروڑ روپے تقسیم کئے تھے۔

ائرمارشل (ر) اصغر خان نے یہ پیٹیشن 1996 میں دائر کی تھی لیکن سپریم کورٹ میں اس کی شنوائی کی نوبت عدلیہ بحالی تحریک کے نتیجے میں دوبارہ چیف جسٹس بننے والے افتخار چوہدری کی سیاسی معاملات میں دلچسپی کی وجہ سے ہی آسکی تھی۔ اس سے پہلے یہ مقدمہ عدالت عظمیٰ کے سرد خانہ میں پڑا رہا تھا۔ سولہ برس بعد اس مقدمہ پر فیصلہ کو تاریخی نوعیت کا حکم قرار دیا گیا تھا کیوں کہ اس میں فوج کے دو اعلیٰ افسروں کی طرف سے آئین شکنی کی نشاندہی کرتے ہوئے حکومت سے ان کے خلاف 1973 کی آئینی حدود کے اندر کارروائی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ تاہم یہ نکتہ قانون دانوں کے لئے قابل غور ہونا چاہئے کہ جب سپریم کورٹ چھ برس تک اس حکم کے خلاف دائر ہونے والی درخواستوں پر غور اور فیصلہ کرنے میں ناکام رہی تو حکومت یا کوئی سرکاری ادارہ ایک ایسے معاملہ پر کیوں کر کارروائی کرسکتا تھا جس پر سپریم کورٹ کا ’حتمی‘ فیصلہ سامنے نہیں آیا تھا۔ اور اگر سپریم کورٹ 1996 میں دائر کی گئی درخواست پر 2012 میں ہونے والے فیصلہ کو اس قدر اہم اور قوم کی تقدیر بدلنے والا سمجھتی تھی تو اس کے خلاف درخواستوں کو سرد خانے میں ڈالنے کی کیا وجہ تھی۔

اصغر خان کیس ملکی سیاست میں فوجی ادروں کی مداخلت کے حوالے سے بنیادی اہمیت کا حامل کہا جاسکتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اصغر خان خود پاک فضائیہ کے سابق سربراہ رہے تھے اور انہوں نے دو فوجی افسروں پر براہ راست الزامات عائد کئے تھے۔ 1996 میں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اس درخواست کی بنیاد 1994 میں قومی اسمبلی میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے وزیر داخلہ ریٹائرڈ جنرل نصیر اللہ بابر کا یہ بیان تھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ 1990 کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد بنوانے کے لئے آئی ایس آئی نے 14 کروڑ روپے تقسیم کئے تھے تاکہ پیپلز پارٹی کو شکست دلوائی جاسکے۔ اس الزام کی حساسیت اور سیاست میں فوج کی مداخلت یا سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے اس کی اہمیت کے باوجود سپریم کورٹ نے 16 برس تک اس معاملہ کو لٹکائے رکھا۔ بالآخر ایک ایسے چیف جسٹس کو اس درخواست پر فیصلہ کرنے کا اعزاز حاصل ہؤا جو خود ایک فوجی آمر کے خلاف چلنے والی عدلیہ بحالی تحریک کے نتیجہ میں چیف جسٹس کے عہدے پر بحال ہوئے تھے۔

باقی اداریہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali