احمدیت-برداشت سے عدم برداشت تک: ڈاکٹر ساجد علی کے تجزیے پر تبصرہ


ان حوالہ جات سے یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ گو کچھ علما ء کو اصولی طور احمدیوں کی شدھی کی تحریک میں شمولیت پر اعتراض نہیں تھا مگر اسی دور میں احمدیوں کے خلاف کفر کے فتوے شائع کئے گئے اور لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ یاد رہے کہ شدھی کی تحریک سے بہت پہلے ہی ’’مرزا بشیر الدین محمود کا رویہ‘ کھل کر سامنے آ چکا تھا اور ان کے جن حوالوں پر آج تک اعتراض کیا جاتا ہے وہ تحریریں اس سے بہت پہلے کی ہیں اس لئے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ان تحریروں کے ردعمل میں علماء نے کافر سمجھنا شروع کیا۔

شدھی تحریک کے سات سال بعد بھی، 1931 میں احمدیہ جماعت کے خلیفہ دوم مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو علامہ اقبال کی تجویز پر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا صدر بنایا گیا اور علامہ اقبال اس کمیٹی کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ اس وقت سے بہت سال پہلے ہی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی وہ تمام تحریریں منظر عام پر آ چکی تھیں جن پر علماء کو اعتراض ہوتا ہے۔ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی صدارت پر کچھ حلقے یقیناً خوش نہیں تھے اور سول اینڈ ملٹری گزٹ اخبار کی 4 مئی 1933 کی اشاعت میں یہ بیان شائع ہوا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے بعض ارکان نے ایک درخواست بھیجی ہے کہ آئندہ کشمیر کمیٹی کا صدر غیر قادیانی ہوا کرے۔ کشمیر کمیٹی کے 7 مئی 1933 کے اجلاس میں مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اپنا استعفی پیش کر دیا جس کو کمیٹی نے افسوس کے ساتھ قبول کیا اور ساتھ ہی سول اینڈ ملٹری گزٹ میں شائع شدہ خبر سے لاتعلقی کا بھی اظہار کیا۔ مگر یہ بات پھر بھی پایہ یقین کو پہنچ جاتی ہے کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی صدارت سے کچھ لوگ خوش نہیں تھے کیونکہ مجلس احرار اسلام کے ایک رسالہ میں لکھا ہے:

’کشمیر کمیٹی کی بنیاد 1931 میں چند اعتدال پسند دوستوں نے رکھی تھی۔ میاں سر محمد شفیع، سر فضل حسین، میاں امیرالدین اور شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال کے ساتھ قادیان کے خلیفہ بشیر الدین محمود بھی اس ادارہ میں شامل تھے۔ اس کمیٹی کے انتخاب سے مرزا بشیر الدین محمودکو صدر اور عبدالرحیم درد (مرزائی) کو سیکرٹری منتخب کیا گیا۔۔۔ حضرت امیر شریعت ڈاکٹر اقبال کو مرشد اور ڈاکٹر اقبال حضرت شاہ صاحب کو پیر جی کہا کرتے تھے۔ کشمیر کمیٹی کے سلسلہ میں ان دونوں کے درمیان چودھری افضل حق کی معیت میں کئی ملاقاتیں ہوئیں اور طے پایا کہ بشیر الدین محمود اور عبدالرحیم درد کو اگر ان کی موجودہ ذمہ داری سے نہ ہٹایا گیا تو کشمیر کے 32 لاکھ مظلوم مسلمان کفر و ارتداد کا شکار ہو جائیں گے ۔۔۔ لہذا بہتر ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کی باگ ڈور مجلس احرار کے سپرد کی جائے۔‘ (رسالہ ’تبصرہ‘ لاہور، اکتوبر 1965)

سر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کا رکن منتخب ہونے کے بعد علامہ اقبال کی احمدیوں کی مخالفت پورے زور و شورسے سامنے آئی بلکہ انہوں نے اس پر کچھ مضامین بھی تحریر کئے جو آج تک ہمارے مولوی حضرات سینے سے لگائے پھرتے ہیں۔علامہ اقبال کی مخالفت تو سمجھ بھی آتی ہے کیونکہ وہ خود اس منصب کے خواہاں تھے مگر دوسرے علماء کا صرف اس بات پر احمدیوں کو دائرہ اسلام سے باہر سمجھنا شروع ہو جانا قرین قیاس نہیں لگتا۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی تحریرات بھی اس کی محرک نہیں ہو سکتیں کیونکہ ان تحریرات کے بہت برس بعد تک کچھ علماء احمدیوں کے ساتھ ( اگر مگر کے ساتھ، کچھ معاملات میں صرف) مسلمانوں والا سلوک ہی روا رکھتے تھے۔

ڈاکٹر صاحب اپنے مضمون کی آخری سطر میں لکھتے ہیں کہ ’تاریخی طور پر یہ بات شائد درست ہو کہ دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کا آغاز احمدیوں کی طرف سے ہوا تھا۔‘ میرا جتنا احمدیت کے لٹریچر کا اور اس کی مخالفت میں لکھے گئے لٹریچر کا مطالعہ ہے، میں یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کفر کے فتوے کی ابتدا علماء کی طرف سے ہوئی تھی، اور مرزا صاحب کے 1891 میں دعاوی کی اشاعت کے دوران ہی مولوی حسین بٹالوی نے برصغیر کا دورہ کر کے 200 کے قریب علماء سے کفر کا فتوی لے کر شائع کرادیا تھا۔ میرے سامنے اس وقت کتاب ہے ’فتاوی ختم نبوت‘ جلد دوم، مرتبہ مولانا مفتی سعید احمد جلالپوری صاحب شائع کردہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ۔ اس کے پیش لفظ میں مولانا اللہ وسایا قاسم صاحب نے احمدیوں کے خلاف فتاوی کی لسٹ دی ہے، اس لسٹ میں سے پہلے تین فتاوی یہ ہیں:

1) فتاوی قادریہ از مولانا محمد قادری، اشاعت تاریخ ہجری 1301، اشاعت تاریخ عیسوی 1883

2) رجم الشیاطین براغلوطات البراہین از مولانا غلام دستگیر قصوری ، اشاعت تاریخ ہجری صفر 1302، اشاعت تاریخ عیسوی نومبر 1884

3) فتاوی علمائے پنجاب و ہندوستان از مولانا محمد حسین بٹالوی ، اشاعت تاریخ ہجری 1307/8، اشاعت تاریخ عیسوی 1890

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کے مسیح و مہدی کے دعاوی سے بہت پہلے سے ہی کفر کے فتاوی شروع ہو گئے تھے اور ان دعاوی کے دوران ہی مولانا محمد حسین بٹالوی صاحب نے ایک لمبا چوڑا کفر کا فتوی بھی شائع کرا دیا تھا۔ اس تحقیق کی بنیاد پر میری ڈاکٹر صاحب سے درخواست ہے کہ اپنی رائے کے ثبوت میں دلائل مہیا کریں یا ان کتب کو دیکھ کر اپنی رائے سے دست برداری اختیار کریں۔

مضمون کے آخر میں ڈاکٹر ساجد علی صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے غیر متعصب ہو کر جماعت احمدیہ کی امت مسلمہ کے لئے مساعی کا کھلے دل سے اعتراف کیا اور اس پر قیمتی حوالہ جات بھی مہیا کئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2