احمدیت-برداشت سے عدم برداشت تک: ڈاکٹر ساجد علی کے تجزیے پر تبصرہ


آج محترم ڈاکٹر ساجد علی صاحب کا ایک کالم ’ہم سب‘ پر شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے ’احمدیت : برداشت سے عدم برداشت تک‘۔ اس میں انہوں نے اس بات کا تجزیہ کیا ہے کہ ’سنہ 1935 ء سے پہلے یہ رویہ برداشت کا تھا جو بعد ازاں بتدریج عدم برداشت میں ڈھلتا چلا گیا‘۔

مضمون کے شروع میں لکھتے ہیں کہ ’عربی زبان میں جو لطائف و ظرائف پائے جاتے ہیں ان کا زیادہ تر تعلق نبوت کے انہی دعوے داروں کے ساتھ ہے۔‘ میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ عربی زبان میں زیادہ تر لطائف و ظرائف ان نبوت کے دعوے داروں پر نہیں ہیں۔ عربی میں ابن الجوزی کی کتاب الاذکیا ء کافی مشہور ہے، اس میں کہیں شاذ شاذ ایسی باتوں کا ذکر ہے جو کہ یقیناً ’زیادہ تر‘ کے زمرے میں نہیں آتا۔ خیر، ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے مطالعہ میں زیادہ تر ایسے ہی لطائف و ظرائف گزرے ہوں، مجھے بہر حال اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے محترمہ اختر النسا صاحبہ کی مرتب کردہ کتاب ’اقبال اور زمیندار‘ سے بہت سارے حوالے نقل کئے ہیں جن کے مطابق احمدیوں کو اسلام کا ہی ایک فرقہ متصور کیا گیا ہے بلکہ شدھی کی تحریک میں احمدیہ جماعت کی مساعی کو سراہا بھی گیا ہے مگر یہ کہنا اتنا صحیح نہیں معلوم ہوتا کہ ’ان علما کو اس وقت کبھی اعتراض نہیں ہوا تھا کہ ایک احمدی مسلمانوں کے جلسے میں شریک ہوتا اور خطاب کرتا ہے‘، کیونکہ اس وقت بھی کچھ خاص حلقوں کے علماء کی طرف سے احمدیوں کی شمولیت پر مسلسل اعتراض ہوتا رہتا تھا۔ اس کی کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں۔

6 تا 8 اپریل 1912 کو لکھنؤ میں علامہ شبلی نعمانی نے ایک اجلاس منعقد کرایا۔ اس میں مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی اور ان دونوں نے شرکت بھی کی۔ اس اجلاس کے بارے میں سید سلیمان ندوی صاحب رقم طراز ہیں:

’مولانا یہ چاہتے تھے کہ اشاعت کے کام تمام فرقے مل کر کریں، اسی لئے مرزا بشیر الدین محمود جو اب خلیفہ قادیان ہیں اور خواجہ کمال الدین صاحب تک کی شرکت سے انکار نہیں کیا گیا، اس پر اسی جلسہ کے دوران میں مولانا پر یہ الزام رکھا گیا کہ انہوں نے قادیانیوں کو جلسہ میں کیوں شریک کیا اور ان کو تقریر کی اجازت کیوں دی۔ مگر مولانا شروانی کی ثالثی سے یہ بلا ٹلی۔‘ (حیات شبلی از سید سلیمان ندوی، صفحہ 569)

یہ واقعہ 1912 کا ہے جب کہ ابھی ’مرزا بشیر الدین محمود کا رویہ‘ بھی یار لوگوں کے نزدیک قابل اعتراض نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح شدھی کی تحریک کے دوران بھی علماء کی طرف سے احمدیوں کی مخالفت جاری رہی۔ مولوی ممتاز علی صاحب ایڈیٹر اخبار ’تہذیب نسواں‘ لکھتے ہیں:

’میں نے سنا ہے کہ میدان ارتداد میں ہر فرقہ اسلام نے تبلیغ کے لئے اپنے اپنے نمائندے بھیجے ہیں۔ مناسب جانا کہ میں جس گروہ کے مبلغین کو سب سے زیادہ کامیاب دیکھوں ان میں سے ایک اپنے لئے منتخب کر لوں۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ تبلیغ کے کام میں سب سے زیادہ کامیابی احمدی مبلغوں کو ہوئی ہے اس لئے میں نے سوچا کہ اگر تہذیبی بہنوں کو اعتراض نہ ہوتو وہ ان میں سے کسی ایک مبلغ کا خرچ اپنے ذمہ لے لیں۔ مگر اسی اثناء میں ہمارے علماء نے اعلان شائع کیا کہ احمدی فرقہ کے لوگ سب کافر ہیں اور ان کا کفر ملکانہ راجپوتوں کے کفر سے بھی زیادہ شدید ہے۔ اس زمانہ میں علماء کا یہ کام مسلمان بنانا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو کافر بنانا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دنیا میں ایک بھی ایسا مسلمان نہ ہوگا جس کے متعلق سب علماء دین بالاتفاق یہ کہہ سکیں کہ واقعی یہ ٹھیک مسلمان ہیں۔ ہمارے علماء سے جسے چاہو کافر بنوا لو۔ وہابی کافر، بدعتی کافر، رافضی کافر، خارجی کافر۔ لیکن اگر ان سے چاہو کہ چند کافروں کو مسلمان بنا دو تو یہ کام ان سے نہیں ہو سکتا۔‘ (تہذیب نسواں لاہور، 2مئی 1925)

اس حوالہ سے پتا چلتا ہے کہ شدھی کی تحریک کے زمانے میں بھی علماء احمدیوں کے کفر کے اعلان کرتے پھرتے تھے۔ اخبار ’زمیندار‘ میں ہی ’مجلس نمائیندگان تبلیغ‘ اور باقی جماعتوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے لکھا ہے:

’اگرچہ سوامی شردھا نند آریہ سماجی ہیں لیکن آریہ سماج کی جماعتوں کے علاوہ سناتن دھرم جینی وغیرہ بھی ان کے شریک کار ہیں اور آج تک ان لوگوں میں اختلاف کی ایک آواز بھی بلند نہیں ہوئی۔ سناتن دھرم والوں نے کبھی شکایت نہیں کی کہ سوامی شردھانند ملکانوں کو آریہ بنا رہے ہیں۔ پرتاپ، کیسری اور تیج کے فائل اٹھا کر دیکھئے۔ ہم دعوی سے کہتے ہیں کہ آپ کو ایک تحریر ایک خبر ایک اطلاع ایک مراسلہ بھی ایسا نہیں ملے گا جس سے ہندو مبلغین کا ذرہ برابر باہمی اختلاف ظاہر ہو لیکن ’زمیندار‘، ’سیاست‘، ’وکیل‘ اور دوسرے اسلامی اخبارات کی جلدیں پڑھئے تو آپ پر بار بار اس ا فسوسناک حقیقت کا انکشاف ہوگا کہ ایک انجمن دوسری انجمن کو حلقہ ارتداد میں کام کرتے دیکھنا گوارا نہیں کرتی۔ خدا کا کام ہے لیکن بندوں نے اسے ذاتی اختلاف اور ذاتی شہرت پسندی کی جولانگاہ بنا رکھا ہے۔ کیا یہ سر پیٹنے کا مقام نہیں ؟ ہم ’مجلس نمائیندگان تبلیغ‘ اور دوسری تمام تبلیغی انجمنوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اگر احمدی مبلغین ملکانوں کو احمدی بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کو بگڑنے کا کوئی حق نہیں۔ جس طرح آپ ان کو حنفی و اہلحدیث بنانے کا حق رکھتے ہیں احمدی مبلغین ان لوگوں پر اپنا کیش و مذہب پیش کرنے میں آزاد ہیں اور ہندو ہو جانے سے ہزار درجے بہتر ہے کہ ایک مسلمان احمدی ہو جائے۔۔۔ سیاسی نقطہ نگاہ سے بھی دیکھ لیجئے۔ اگر چھ لاکھ ملکانے مسلمانوں کی کسی جماعت میں شامل ہو جائیں تو مسلمان شمار کئے جائیں گے۔ لیکن اگر ہندو ہوگئے تو فریق ثانی کی طاقت میں اضافہ کا باعث ہوں گے۔ مسلمانوں کے مقاصد سیاسی کی حفاظت کے دعویدار بتائیں کہ صواب کی راہ کون سی ہے؟‘ (زمیندار، 17مئی1923)

اس حوالے سے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ احمدیوں کی ملکانہ میں تبلیغی سرگرمیوں کی وجہ سے بہت ساری جماعتوں کو نہ صرف مسئلہ تھا بلکہ وہ اس کا کھل کر اظہار بھی کر رہی تھیں جس کی وجہ سے زمیندار کو اس معاملے میں بات کرنی پڑی۔ عبدالمجید سالک صاحب بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’ملکانہ راجپوتوں میں انسداد ارتداد اور تبلیغ اسلام کا کام شروع ہوا۔ بریلوی، دیوبندی، شیعہ، احمدی، لاہوری احمدی، میر نیرنگ کی جمعیتہ تبلیغ الاسلام کے مبلغ غرض ہر فرقے اور ہر جماعت کے کارکن آگرہ اور نواحی علاقوں میں پھیل گئے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ مل جل کر اسلام کی خدمت کرتے لیکن ان جماعتوں نے وہاں آپس میں لڑنا شروع کر دیا۔ صرف احمدی مبلغین تو کچھ کام کرتے تھے اور باقی تمام فرقوں کے لوگ یا آپس میں مصروف پیکار تھے یا احمدیوں کے خلاف کفر کے فتوے شائع کرتے تھے۔‘ (سرگزشت، از عبدالمجید سالک صاحب، صفحہ 220)

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2