الیکشن کے بارے میں عوام کیا سوچتے ہیں؟


اسی سال جولائی کے مہینے میں الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ انتخابی دھڑے بندیاں زور شور سے جاری ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نا اہل ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کی مدت رمضان کے مہینے میں مکمل ہو جائے گی اور اسی مہینے نگران سیٹ اپ بن جائے گا۔ نیوز چینلز پر الیکشن دو ہزار اٹھارہ کے بارے میں ہر روز ٹاک شوز ہورہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ الیکشن دو ہزار اٹھارہ کے بارے میں عوام کیا سوچ رہے ہیں؟ میں نے اور میرے ایک دوست نے لاہور کے مختلف علاقوں میں الیکشن دو ہزار اٹھارہ کے بارے میں مختلف لوگوں سے اس حوالے سے کچھ سوالات کیے۔ عوام کا ردعمل ٹی وی ٹاک شوز سے مختلف تھا۔

اچھرہ بازار کے مختلف دکانداروں سے جب ہم نے یہ سوال کیا کہ وہ نوازشریف کی سیاست کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں تو ان میں سے اکثریت کا کہنا تھا کہ عدلیہ۔ اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا یہ تمام عناصر نوازشریف کے خلاف متحد ہو چکے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ نوازشریف ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نا اہل ہو جائیں۔ لیکن وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ وہ نوازشریف کو ہی ووٹ ڈالیں گے۔ عوام کی اکثریت کا یہ ردعمل یہ بتاتا ہے کہ نوازشریف کی مزاحمتی سیاست سے انہیں اور مسلم لیگ ن کو فائدہ ہورہا ہے۔ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ نوازشریف کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے۔ عدلیہ۔ فوج اور میڈیا کے بارے میں عوام کا یہ سوچنا کہ یہ پی ٹی آئی کی حکومت لانا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔

جب میں نے فروٹ بیچنے والے شخص سے اس بارے میں سوال کیا کہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں وہ کس پارٹی اور رہنما کو ووٹ ڈالیں گے؟ تو اس نے جواب دیا۔ وہ تو نوازشریف کو ووٹ دیں گے۔ نوازشریف کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ فلاں طاقتور ادارہ کررہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نوازشریف کے خلاف شدت سے مزین پروپگنڈہ عوام میں کس طرح کا تاثر پیدا کررہا ہے۔

جب عوام سے سوال کیا گیا کہ نوازشریف تو زندگی بھر کے لئے نا اہل ہو گئے ہیں تو پھر انہیں ووٹ دینے کا کیا فائدہ؟ اس پر عوامی ردعمل یہ تھا کہ وہ نوازشریف کو ووٹ دے کر طاقتوروں کو یہ پیغام دیںگے کہ حقیقی طاقتور وہ نہیں بلکہ ہم ہیں۔ نوازشریف کے خلاف جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ سوچی سمجھی سازش ہے۔ خادم حسین رضوی کے بارے میں عوامی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اسے طاقتور اداروں نے لانچ کیا ہے جس کا مقصد مسلم لیگ ن اور نوازشریف کے ووٹرز کو تقسیم کرنا ہے۔ وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے تحریک لبیک پاکستان کا کارڈ بھی نوازشریف کی سیاست کو خطرناک حد تک نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ فیض آباد دھرنے اور لاہور میں تحریک لبیک کی سرگرمیوں سے عوام باخبر ہوچکے ہیں۔

خادم حسین رضوی کے رویوں پر بھی عوام نالاں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ مذہبی رہنما تھوڑی سی سیٹیں لے بھی گیا تو اس سے ملک میں نفرت۔ تقسیم۔ تشدد اور تعصب کی نفرت پروان چڑھے گی۔ عوام سے جب پوچھا گیا کہ وہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں تو اس پر ان کے جوابات دلچسپ و عجیب تھے۔ کسی نے کہا فوج۔ عدلیہ اور میڈیا کی کوشش ہے کہ عمران وزیر اعظم بن جائیں۔ کسی کا کہنا تھا کہ عمران خان وزیر اعظم بننے کے اہل نہیں۔ ان کا کام صرف شریف فیملی کو گالیاں دینا ہے۔ اس لئے وہ عمران خان کو ووٹ نہیں دیں گے۔ کچھ افراد کے مطابق نوازشریف کو ووٹ دینے کا مقصد جمہوری قوتوں کو سپورٹ کرنا ہے۔ ووٹ کا تقدس بڑھانا ہے۔ اس لئے وہ نوازشریف کے ساتھ ہیں۔

مریم صفدر کے بارے میں بھی عوام کا تاثر مثبت ہے۔ لاہور کے مختلف علاقوں کے شہریوں کے مطابق وہ بہادر خاتون ہیں۔ جو طاقتوروں کو للکارتی ہیں۔ اس لئے طاقتور میڈیا پر اس خاتون کی کردار کشی کروا رہے ہیں۔ یہ تو صرف لاہور کے سینکروں افراد کی اکثریتی رائے تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا سارے پنجاب میں یہی تاثر پھیل رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق پنجاب میں نوازشریف طاقتور ہو گئے ہیں۔ بدقسمتی سے لوگوں کے اندر فوج کے حوالے سے کچھ منفی رویئے جنم لے رہے ہیں۔ لوگ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے۔ فوج کرارہی ہے۔ مبصرین کی یہ رائے اگر درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نوازشریف کا بیانیہ عوام میں مقبولیت حاصل کررہا ہے۔

کچھ مبصرین کے مطابق نوازشریف اگر پنجاب میں دوتہائی اکثریت کے خواہش مند ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ مزاحمت کی سیاست کا کاروبار کرتے رہیں۔ مظلومیت کا کارڈ کھیلتے رہیں۔ جب عوام سے یہ پوچھا گیا کہ وہ نوازشریف کو بڑا لیڈر سمجھتے ہیں یا شہباز شریف اور چوہدری نثار کو۔ تو اکثریت کی رائے یہ تھی کہ نوازشریف ہی کو وہ دوبارہ وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ چوہدری نثار کے بارے میں عوام کی رائے یہ تھی کہ انہوں نے مشکل وقت میں نوازشریف کو دھوکہ دیا۔ وہ کسی اور قوت کے نمائندے ہیں اور انہی کے اشارے پر ناچتے ہیں۔ شہباز شریف کے بارے میں زیادہ تر شہریوں کا کہنا تھا کہ وہ کسی صورت نوازشریف کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ عوام سے جب پوچھا گیا کہ نوازشریف جب یہ کہتے ہیں کہ وہ نظریاتی ہو گئے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے؟ اس پر کم پڑھے لکھے شہریوں کا کہنا تھا کہ وہ حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں۔ ایسی جمہوریت جو کسی طاقتور ادارے کے اشاروں سے پاک ہو۔ تعلیم یافتہ افراد کے مطابق نواز شریف سب طاقتور قوتوں کے خوف سے آزاد ہو گئے ہیں۔ اور صرف حقیقی جمہوریت کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔

مبصرین کی رائے یہ ہے کہ نوازشریف کو اگر جیل بھیج دیا گیا تو اس سے وہ پنجاب میں کلین سویپ کرجائیں گے۔ انہیں ہمدردی کا ووٹ ملے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا نوازشریف جیل یاترا کریں گے؟ مبصرین کے مطابق پنجاب کے عوام میں پی ٹی آئی کے لئے ہمدردی خوفناک حد تک کم ہو گئی ہے۔ اور نواز شریف کے حق میں عوام زیادہ جوشیلے دیکھائی دے رہے ہیں۔ نوازشریف کو الیکشن کمپین نہ بھی کرنے دی گئی۔ نظر بند کردیا گیا یا جیل بھیج دیا گیا تو اس کا بھی انہیں ڈبل فائدہ ہوگا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ جس حد تک نواز شریف کی میڈیا اور طاقتور اداروں کی جانب سے اپوزیشن کی گئی ہے۔ اس سے مسلم لیگ ن اور نوازشریف کو الیکشن میں بہت فائدہ ہونے جارہا ہے۔ جہلم سے لاہور تک نوازشریف کے حق میں ایک عوامی لہر ہے۔ جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی پیپلز پارٹی کے ووٹ چھین لے گی۔ لیکن مسلم لیگ ن کے ووٹوں کو تقسیم نہیں کیا جائے گا۔

مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ الیکشن دو ہزار اٹھارہ میں پی ٹی آئی کا وہ حال ہوگا جو دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں پنجاب میں پی ٹی آئی کا ہوا تھا۔ نوازشریف کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے داماد کی زبان کو لگام دیں۔ کیونکہ کیپٹن صفدر کے سیاسی اور مذہبی بیانات نوازشریف بیانیئے کے لئے خطرناک ہیں۔ یہ کنفیوثن پھیل رہا ہے کہ نوازشریف جمہوریت۔ لبرل ریاست اور نئے سوشل کنٹریکٹ کی بات کررہے ہیں۔ جبکہ کیپٹن صفدر تحریک لبیک والوں کو طاقتور بنا رہا ہے۔ یہ تو عوام اور مبصرین کی سیاست کے بارے میں رائے ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ الیکشن میں کیا ہوتا ہے اور آگے کس طرح کی دھڑے بندیاں ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).