ممتا کے تقاضے یا ممتا سے ہمارے مطالبے


ماں کی گالی اور ماں کا پیار یہ وہ لفظ ہیں ، جن کا پدرانہ کلچر کی بنیاد پر پنپنے والی ہر زبان میں بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ ‘ماما میا’ ، ‘اوئی ماں’ ، ‘نی مائے’ اور ‘تیری ماں کی۔۔۔۔۔‘ جیسے عمومی ایکسپریشنز سے لگتا ہے کہ حیرت اور مصیبت کے عالم میں لوگ غالباً خدا کے بعد سب سے زیادہ ماں کو ہی پکارتے ہیں۔ اگرچہ پاپائے روم کیتھولک دنیا کے مقدس باپ کہلاتے ہیں لیکن آج تک میں نے کسی مسیحی کو بھی ماں کے مقابلے میں پوپ کا نام لیتے نہیں سنا۔

ماں سے مخاطب شاہ حسین کی کافی ’مائے نی میں کینوں آکھاں‘ کو ہی لیں، یہ وہ کلام ہے، جو میڈیا والے سیلاب کے ریلے میں ڈوبتے دیہات سے لے کر گمنام ایکٹروں کے بڑھاپے کے دکھوں تک تقریباً ہر جگہ ہی چلا دیتے ہیں۔

امریکا کے ‘بے بی بوم’ نے جہاں اس ملک کو جنگ کی تباہی سے نفسیاتی سکون بخشا، وہیں کارپوریشنز کو خواتین میں بچے سے بے مثال محبت کرتی ماں کا تصور دیا۔ ’سوسائٹی کے لیے سودمند‘ ماں کا تصور امریکا یا اس دور تک ہی محدود نہیں۔ ملک و قوم کی خاطر لخت جگر کی شہادت کے لیے تیار کرنے والی ماؤں کی ’عظمت‘ اور ’اعلی درجوں‘ کی داستانیں بھارتی و پاکستانی کلچر کا بھی قدیم حصہ ہیں۔

اس کلچر میں ماں بننا ایک عورت کی تکمیل اور نہ بن سکنا اس کی تذلیل گردانا جاتا ہے یہ الگ بات ہے کہ ماں بننے یا نہ بننے کا اختیار عموماً خواتین کے پاس نہیں ہوتا۔ پاکستان میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی تعداد انتہائی زیادہ ہے اور ماوں کی عظمت کے گن گانے والے اس معاشرے میں بیشتر اوقات حاملہ عورت کی نگہداشت کی ذمہ داری اس کے والدین پر ڈال دی جاتی ہے۔ بچے کی ڈیلیوری کے بعد ماں بنے والی عورت کو بھی توجہ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ٹی وی پر چلنے والی چائلڈ کیئر پراڈکس کے مقابلے میں ماؤں کی صحت کا خیال رکھنے والی مصنوعات خال خال ہی نظر آئیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کو سبز ستارہ کی گولیاں میسر ہوں نہ ہو لیکن جہاں ڈالڈا نہ ہو وہاں ممتا ضرور امتحان میں پڑ جاتی ہے ۔

پاک و ہند میں ماں کا تصور اس قدر virtuous ہے کہ کسی کی تذلیل کے لیے بھی اس کی ماں کو مخاطب کیا جاتا ہے اور اگر بھولے سےعورت کو تعظیم دینے کا ارادہ کر بھی لیا جائے تو اس کا بلند ترین معیار یہ ہے کہ اس کو ماں کا خطاب دے دیا جائے۔ فاطمہ جناح جنہوں نے ساری عمر شادی نہیں کی اور ایک منفرد انداز میں آزاد مسلم عورت کی زندگی گزاری۔ ان کو بن بیاہے ہی پوری قوم، وہ بھی پاکستان جیسی ‘اتھری قوم’ کی ماں بنا کر تو عزت دی گی مگر انتخابات میں آمر ایوب خان نے نہ صرف عورت ہونے کی بنا پر انہیں صدارت کے لیے نااہل قرار دے دیا بلکہ سرکاری مشینری کے ذریعے پاپولر ووٹ ہونے کے باوجود ‘قوم کی ماں’ کو سیاست کے میدان سے ہراساں کر کے نکال دیا۔

اسی طرح مدَر ٹریسا کے نیک کاموں پہ اس شکی دنیا نے شاید اس لیے انگلی نہیں اٹھائی کہ اس بھلی خاتون کی انسانیت پر مہر لگانے کے لیے چاہنے والوں نے پہلے ہی ‘مدر’ کا خطاب دے دیا تھا۔ شاید اسی لیے منیشا کوئرالہ نے ’ ٹیلی فون دھن میں’ کمل ہاسن سے مدَر ٹریسا کو چھوڑ کے کسی اور عورت کا نام نہ لینے کا وعدہ لیا تھا ۔ ماں جو ہوئی، تو شک کیسا۔

ممتا کی ڈی کنسٹرکشن

ذرا ڈی کنسٹرکٹ کریں تو یہ بھی نظر آتا ہے کہ مارکیٹ پروڈکٹس کو ماں کی ممتا میں پیک کرکے فیشن ایبل ماڈل خواتین کے ہاتھوں بیچے جانے کے باوجود خود یہ خواتین ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتی ہیں کہ کہیں وہ چار بچوں کی اماں تو نہیں نظر آ رہیں۔ ماں کے استحصال کا اندازہ اس سے بھی ہو سکتا ہے کہ جن جن چیزوں کو ہم نے ماں کہہ کر حق جتایا ان کا حال ہی برا کر دیا مثلاً دھرتی ماں، ماں بولی، ماں جیسی ریاست وغیرہ وغیرہ ۔ بھلا ہو ممتا کلکرنی کا کہ ممتا کا کوئی تو اور معنی بھی سامنے آیا۔

ہندوستان پاکستان کا پاپولر کلچر ماں کو جنم اور قربانی دینے والی ہستی کے استھان پر تو بٹھاتا ہے لیکن صرف اولاد کے لاڈ اور دکھ اٹھانے کو یا بچوں کے باپ کا دل بہلانے کے لیے۔ میا یشودھا کے کشن اور کنہیا کی بڑے روماینٹسائنز کرنے والی کالی ماتا کو بھی اگر پاپولرآئیز کرلیں تو شاید ماں کو قربانی و ایثار کا پیکر سمجھنے والے اسی ماں کے غیظ و غضب کی طاقت اور غیر معمولی شکتی سے بھی آگاہ ہوں۔

فلموں میں بیٹے کے لیے ولن کی گولی کھا لینے والی ماں کو دیکھ کے پلنے والوں کو قندیل بلوچ جیسی ‘منچلی اور سیکسی’ ماں بھلا کیسے برداشت ہو سکتی ہے۔ قندیل بلوچ کو جہاں کئی طعنے دیے گئے وہیں ایک یہ بھی تھا کہ توبہ توبہ کیسی ماں تھی اپنے بچے کو چھوڑ کر واہیاتی کے کام میں مگن ہو گئی۔

عجیب بات ہے کہ جنوبی ایشیائی عوام خود تو بیک وقت ‘جے ماتا کی اور تیری ماں کی***’ کرتے ہیں لیکن دنیا بھر کے ’انفرادیت پسند‘ معاشروں کو فیملی سسٹم الٹ پلٹ کرنے، خصوصاً ماں کا روایتی خانگی رول تبدیل کرنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ اس میں فرسودہ معاشرتی روایات نے تو کردار ادا کیا ہی لیکن ساتھ ہی مذہب نے اس بیانیے کو مزید تقویت دی۔

 ماں صرف قربانی ہی کا نام نہیں، ماں جنسی یا جذباتی خواہش رکھنے والی چاہت اور برابر کی عزت و مقام کا ’ان کہا‘ مطالبہ بھی ہوتا ہے۔ بلاشبہ ماں کی محبت ذاتی غرض سے مبرا ہوتی ہے لیکن ماں کی زندگی تو ذاتی مقصد سے ماورا نہیں۔ تاہم عورت کی انٹیوٹیو صلاحیت کا اعتراف ’ماں ہمیشہ جانتی ہے‘ سے میں مکمل متفق ہوں۔ کبھی کبھی معاشرے کو بھی جاننے کی کوشش کرنا چاہیے کہ مائیں آخر اتنا سب کچھ کیسے جان لیتی ہیں اور ان کے اوپر سب کرنے اور سب سنبھالنے کا بوجھ لادنے کی وجہ کیا ماؤں کے انفرادی حقوق سے انکار و فرار تو نہیں؟

جی کافی سنکی گفتگو لگتی ہے نا ماں جیسے مقدس رشتے کے بارے میں؟ مگر جب 60 کی دہائی میں بیٹی فریڈن نے ماں کے روپ میں عورت کی گھریلو غلامی کی نشاندہی کی تھی تو بھی سماج کو کافی اچنبھا ہوا تھا۔ ممتا ہی ہے، جس نے عورت کو گھر کی چار دیواری میں قید کرنے کا بہانہ تلاشا۔ ساتھ ہی بالخصوص پرائیویٹ کمپنیوں میں کسی ملازم خاتون کا ماں بننا ایک بوجھ تصور کیا جاتا ہے، کیونکہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ ماں ان کے لیے تو کم از کم ایک دو سال کے لیے بے کار ہی ہو گئی ہے یا اپنے کام میں دل نہیں لگا سکتی۔

جہاں تک ماں کی ممتا کا سوال ہے تو ممتا کا سب سے پہلا مطالبہ تو یہ ہے کہ ماں کے تصور و ذمہ داری میں بھی صنفی برابری اور حساسیت  (sensitization ) کے معیارات اپنائے جائیں۔ باپ کی باپتا کو بھی ترویج دی جائے تاکہ اماں صرف تلو میں پکائیں ہی نہیں بلکہ کبھی کبھار آرام سے بیٹھ کر کھا بھی سکیں۔ دنیا بھرمیں بدلتے صنفی رویوں اور ورک پلیسز پر خواتین کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ماں کے ہاتھ کے پکوان کے ساتھ ساتھ بحیثیت فرد اس کی اپنی زندگی کے پلان کا بھی سوچنا ہوگا۔ ماں بننا ایک فطری عمل تو ہے لیکن اس عمل سے گزرنے یا نہ گزرنے کے انتخاب کا عورت کو مکمل حق ہونا چاہیے۔ ہمارے معاشروں میں تو کئی مرتبہ ساتھی کے ساتھ ’ساتھی‘ کا نہ ہونا بھی ماں بننے کا سبب بن جاتا ہے۔

دریہ ہاشمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

دریہ ہاشمی

دریہ ہاشمی نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم پائی۔ بعد ازاں بون یونیورسٹی جرمنی سے انٹرنیشنل میڈیا سٹڈیز میں ماسٹرز کیا۔ فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کرتی ہیں۔

duriya-hashmi has 3 posts and counting.See all posts by duriya-hashmi