دو محبت کرنے والے اور چیک پوسٹ قالندیا


مجھے یقین نہیں آیا کہ لندن شہر میں بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ اس نے بتایا کہ رات ایک بجے وہ دونوں سو رہے تھے کہ کمرے میں لائٹ جل گئی ۔ چھ مسلح آدمی کھڑے تھے، میری نظروں کے سامنے انہوں نے احمد کو انجکشن لگایا اورٹرالی پر ڈال کرباہر لے گئے ۔ ان سب نے ایمبولینس کے پیرامیڈیکس کی وردی پہنی ہوئی تھی ۔ یہ سب کچھ منٹوں میں ہوگیا مجھے خاموشی سے ایمبولینس میں بیٹھنا پڑا اورایمبولینس تیزی سے نکلتی چلی گئی۔ چاروں طرف سے بند ایمبولیس نہ جانے کن راستوں اور کن علاقوں سے گزرتے ہوئے اس بڑے سے مکان میں پہنچی، مجھے کچھ پتہ نہیں چلا تھا۔

یہ کہہ کر اس کی آواز روہانسی سی ہوگئی تھی۔

”تم کہاں ہو؟ پولیس کو بتایا ہے۔“ میں نے سوال کیا تھا۔

”میں اپنے گھر پر ہوں۔ دو دن تک وہ میرے سامنے احمد سے اس کے بھائی کے بارے میں پوچھتے رہے اور جو کچھ اسے پتہ تھا وہ بتاتا رہا مگر ان کی تسلی نہیں ہوئی تھی۔ پھر اس کے سامنے انہوں نے کہا تھا کہ تمہیں آخری چانس دے رہے ہیں، اپنی بیوی سے مشورہ کرلو۔ اگر بات مانو گے تو اس سے ملاقات ہوگی۔ اگر نہیں مانوگے تو خدا حافظ کہہ دو۔“

بند کمرے میں احمد نے میرے کان میں کہا تھا کہ یہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے لوگ ہیں۔ لگتا ہے مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے جو یہ مجھ سے پوچھنا چاہ رہے ہیں وہ مجھے پتہ نہیں ہے اگر پتہ ہوتا بھی تو میں مرجاتا پر نہیں بتاتا۔ تم اپنا خیال رکھنا۔ تمہیں یہ لوگ کچھ نہیں کریں گے۔ تم ڈینش ہو یورپین ہو۔ تمہیں ٹھکانے لگانا مشکل ہوگا۔ یہ کہہ کر اس نے مجھے گلے لگا لیا، آخری دفعہ میں اس کے گلے لگی تھی۔

آدھے گھنٹے کے بعد وہ لوگ آئے اور احمد کو لے کر چلے گئے۔ پھر مجھے نہ جانے کیسے نیند آ گئی۔ جب آنکھ کھلی تو میں اپنے اپارٹمنٹ میں تھی۔ میں نے فوراً ہی پولیس کو فون کر کے بلایا۔ رپورٹ لکھوائی ہے مگر لگتا ہے کہ پولیس کو میری بات کا یقین نہیں ہے۔ ہمارے اپارٹمنٹ میں احمد کی کوئی بھی چیز نہیں ملی۔ نہ کاغذ، نہ پاسپورٹ اور نہ کپڑے۔ اپارٹمنٹ ایسا لگا تھا جیسے میں برسوں سے یہاں اکیلی رہ رہی ہوں۔

احمد کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ دن، ہفتے، مہینے گزرگئے۔ پولیس کے پاس بھی کسی قسم کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ میں بار بار شارلیٹ کو فون کرتا رہا وہ مجھے بتاتی رہی تھی۔ اس نے ڈنمارک کے سفیر سے ملاقات کرکے اسے سب کچھ بتایا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کوتفصیلات دیں مگر احمد کی کوئی خبر نہیں تھی۔ ڈینش حکومت اورایمنسٹی انٹرنیشنل دونوں ہی بے بس اور لاچار تھے ۔

چھ ماہ گزرنے کے بعد وہ ڈنمارک چلی گئی۔ میرا اس سے فون پر رابطہ تھا۔ ایک برفانی رات کو اس کا فون آیا کہ احمد کی لاش اسرائیل اور فلسطین کی سرحدوں پر واقع چیک پوائنٹ قالندیا کے پاس ملی ہے۔ پچھلے ہفتے وہ احمد کو دفن کر کے فلسطین سے واپس ڈنمارک آئی تھی۔

میں شارلیٹ سے ملنے آیا تھا۔ بس سے اُتر کر میں بہت آسانی سے اس کے چھوٹے سے گھر کے سامنے پہنچ گیا۔ اس نے کہا بھی تھا کہ وہ ایئرپورٹ آجائے گی مگر میں نے اسے منع کردیا۔ یورپ میں پبلک ٹرانسپورٹ کا انتظام ایسا ہے کہ بہت آسانی سے اور بہت جلدی شہر کے مختلف علاقوں میں پہنچا جا سکتا ہے۔ دنیا کے مہذب ممالک میں شہروں میں سفر کی سہولتیں عوام کے لئے بنائی جاتی ہیں نہ کہ خواص کے لئے۔ یہ تو ہمارے جیسے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں عوام مویشیوں کی طرح سفر کرتے ہیں اور امیروں کے لئے سڑکوں کے جال بچھائے جاتے ہیں اور پل بنا کر ان کے لئے راستے صاف کئے جاتے ہیں۔

دروازہ اسی نے کھولا تھا۔ چھوٹے سے کمرے میں ٹیبل کے اوپر احمد سعید کی مسکراتی ہوئی تصویر لگی ہوئی تھی۔ وہ میرے گلے لگ گئی دل بھر کر روئی۔ میں بھی اپنے آنسوﺅں پر قابو نہیں پا سکا۔” وہ چلا گیا لیکن جیسے گیا ہے ایسے نہیں جانا چاہئیے تھا اُسے، مگر فلسطین میں تو روز ہی ایسا ہوتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ یہ سب کچھ لندن میں ہوا۔ صیہونیوں نے لندن میں بھی سب کوخرید لیا ہے۔“ اس نے آہستہ آہستہ رو رو کر رک رک کر کہا تھا۔

مگر وہی کیوں، شارلیٹ، وہی کیوں وہ تو بڑا سیدھا سا آدمی تھا۔ پڑھا لکھا ، نہ مارنے میں نہ جنگ میں، تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے والا جنونی فلسطینوں کے خلاف تھا وہ، مذہبی انتہا پسندی سے نفرت تھی اسے۔ کیوں کیا اس کے ساتھ ایسا انہوں نے؟ میں نے سوال کیا تھا۔

قالیندیا چیک پوسٹ

احمد کے چار بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ احمد اور احمد کے چھوٹے بھائی کے علاوہ سب لوگ فلسطینیوں کی جنگ میں شامل ہیں۔ اس کی ایک بہن چار سال پہلے خودکش بمبار بن کر پانچ صیہونی فوجیوں اور کئی یہودیوں کو موت کا نوالہ بنا چکی ہے۔ احمد کبھی بھی خوش نہیں تھا اس واقعے سے۔ وہ اس قسم کی کارروائیوں کے خلاف تھا۔ اس کا ایک بھائی اسرائیل کی جیل میں ہے۔ دو بہنیں غزہ میں کہیں چھپی ہوئی ہیں اورایک بھائی اسرائیل میں کہیں پر چھپا ہوا ہے۔ وہ احمد سے ان کا پتہ پوچھ رہے تھے۔ وہ احمد کو اسمگل کر کے انگلستان سے اسرائیل لے گئے اورجب مقصد حاصل نہیں ہوا تو اسے مار کر چیک پوسٹ قالندیا پر چھوڑگئے۔ اس کے ماتھے اور سینے پر گولی لگی ہوئی تھی۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ بھاگ رہاتھا۔ اسرائیل کی سیکورٹی کا تقاضہ تھا کہ اسے گولی ماری جائے۔

چیک پوسٹ قالندیا البریا رملا کے مقام پر ہے۔ یہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان بنی ہوئے بہت ساری چیک پوسٹوں میں سے ایک ہے۔ یہ چیک پوسٹ دراصل فلسطینیوں کے اجتماعی ذلت کی گزرگاہیں ہیں جہاں روزانہ ہزاروں فلسطینیوں کو بے عزت کیا جاتا ہے، ان کی حمیت کو دھتکارا جاتا ہے اوراحمد جیسے انسانوں کی لاشوں کوپھینک دیاجاتا ہے۔

یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی پھر دھیرے سے بولی ”یہ پیغام تھا احمد کے بھائیوں، بہنوں اور ان فلسطینیوں کے لئے جو اب آزادی کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں صحیح یا غلط۔ یہ کرکے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں پر قابو پالیں گے۔ وہ قابو توشاید پالیں مگر دل کے اندر جو نفرت کے پہاڑ بن رہے ہیں اونچے سے اونچے ہی ہوتے جارہے ہیں ان پر تو قابو نہیں پایا جا سکتا ہے۔“

وہ ہنس دی تھی عجیب سی ہنسی۔” دوسری جنگ عظیم میں جب نازیوں نے ڈنمارک پر قبضہ کرلیا تو ڈینش لوگوں نے شہری تنظیمیں بنا کر پچانوے فیصد سے زیادہ ڈنمارک کے یہودیوں کو گیس چیمبر ، تشدداور ظلم سے بچایا تھا۔ ان کا جینوسائیڈ نہیں ہونے دیا، انہیں دھواں بن کر فضا میں بکھرنے نہیں دیا۔ یہودیوں کو ہم لوگوں نے ایسے ہی یاد رکھا ۔ ذہین لوگ، جن کی نسل کشی کی کوشش کی گئی۔ جن کا جینوسائیڈ کیا گیا ،جنہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی گئی۔ ذہین لوگ، پڑھنے لکھنے والے، مگر وہ تاثراب ختم ہو رہا ہے۔۔“ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی اس کی نیلی نیلی پتھر جیسی آنکھوں سے آنسو پگھل کر اس کے سرخ وسفید گالوں پر پھسل رہے تھے۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ تھوڑی دیر رُک کر دوبارہ سے آہستہ آہستہ بولی۔ ”اب ہم یورپین کو یہ یاد نہیں ہے صرف وہ بچہ یاد ہے جس کے ہاتھ میں پتھر ہے اور جسے اسرائیلی سپاہی گولی مار رہے ہیں۔ وہ بچی یاد ہے جس کے گھر پر بمباری کرکے اسرائیلیوں نے اس کا سر تن سے جدا کردیا ہے وہ ماں یاد ہے جس کے بچوں کو یہودیوں نے ماردیا ہے۔ یورپ برسوں سے جرمنوں کے جرم کے بوجھ تلے اسرائیل کی حمایت کرتا رہا ہے ان کے ظلم و جبر کی حمایت کی ہے۔ ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو بھی برداشت کیا ہے اسی یورپ نے یہودیوں کو بچایا تھا۔ وہی یورپ فلسطین میں آزادی کا سورج نکلتے ہوئے دیکھے گا اور وہی یورپین فلسطینیوں کے پیچھے کھڑے ہوں گے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کعبہ کے سوداگر اورمسجد نبوی کے تاجر تو کچھ نہیں کرسکے۔ آخر کار یورپ ہی فلسطینیوں کو صہیونیت سے چھٹکارا دلائے گا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4