کوئی معنی نہیں محبت کے


بالآخر بڑی تگ و دو کے بعد، میں نے کھاری کا ٹھکانا ڈھونڈ ہی لیا تھا۔ سلے ان سلے کپڑے، جا بہ جا بکھری بوریوں کے دہانوں سے زبانیں باہر نکالے پڑے تھے۔ نیلم بلاک، علامہ اقبال ٹاون کی اس کوٹھی میں کھاری نے کارخانہ بنایا ہوا تھا۔ کارخانہ کیا، درزی خانہ کہیے۔ امپورٹ ایکسپورٹ کا کام کرنے والی فیکٹریوں کا ردی مال، سستے داموں اُٹھا کر، ان کی تراش خراش کر کے صنعتی نمایش میں بیچنا، کھاری کا روزگار تھا۔ کھاری یعنی مشتاق سے میری واقفیت صنعتی نمایش میں ہوئی تھی۔

بچپن میں میرے گھر سے زرا فاصلے پر خانہ بدوش اپنے خیمے لگایا کرتے تھے، تو میں دُور ہی دُور سے ان کی بود و باش دیکھ کر اس قدر متاثر تھا، کہ دل کے کسی گوشے میں چھپی ہزاروں خواہشوں میں سے، ایک اس خواہش نے بھی جنم لیا، کہ میں خانہ بدوش کی سی زندگی گزاروں۔ نمایشوں میں اسٹال لگا کر میری یہ خواہش پوری ہوئی۔ شہر شہر گھوم کر اسٹال لگانا؛ بارش، جھکڑ، طوفان، گرمی سردی کے تلخ ذائقوں سے آشنا ہونا ہو، تو خانہ بہ دوش ہو دیکھیے۔ چھت کی نعمت کیا ہے، یہ خانہ بدوش ہی جان سکتا ہے۔

مغرب کا وقت تھا، درزی خانے کے تمام کاری گر جا چکے تھے؛ کھاری کو کچھ حساب کتاب کرنا تھا، لہذا تھوڑی سی مہلت طلب کی۔ مجھ پر بھی کچھ سستی اور کچھ تھکن سوار تھی، کہ وہیں کپڑوں کے ڈھیر پر چڑھ کے سو گیا۔ معلوم نہیں دس پندرہ منٹ یا گھنٹا آدھے گھنٹے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو وہ باورچی خانے میں مصروف تھا۔ اُس کا گھر جلو گاوں میں تھا، لیکن وہ ہفتے میں ایک دو بار ہی گھر جاتا تھا، یا جب ضرورت پڑے، ورنہ یہی سکونت تھی۔ ہم نے اِدھر اُدھر کی باتیں کیں، کھانا تیار ہوگیا، تو مل کے کھایا۔ طعام کے بعد ہم دونوں آرام دہ حالت میں نیم دراز تھے، کہ نا معلوم وہ کون سی لہر آئی، جس میں بہہ کر مشتاق عرف کھاری نے رِینو کا ذکر چھیڑ دیا۔

رِینو سے اُس کی ملاقات بنکاک میں ہوئی تھی؛ وہ وہاں کلودِنگ کی خریداری کے لیے گیا تھا۔ کوئی دَور تھا، کہ تھائی لینڈ سے امپورٹڈ گارمینٹس خرید کر لوکل مارکیٹ میں سپلائی کرنا نفع بخش کاروبار تھا۔ کھاری نے بنکاک میں جس سِکھ سے سامان خریدا، رِینو اس کی جواں سالہ بھتیجی تھی؛ وہ چچا کے اسٹور پر کام کرتی تھی۔ جب دونوں کا تعارف ہوا، تو رِینو یہ جان کر بہت شادمان ہوئی، کہ مشتاق کا تعلق جلو گاوں سے ہے۔ رِینو کے دادا نے 1947ء میں جلو سے اُس پار بھارت کے گاوں میں ہجرت کی تھی۔ ریڈکلف کی کھینچی لکیر پھلانگتے ہی پیچھے کا منظر غیر کا ہوگیا تھا۔

پردیس میں کوئی ہم زبان ملے تو آدمی جلد کھل جاتا ہے۔ کھاری نے اُسے بتایا کہ اس کا پردادا سِکھ تھا، جس کی موڑھی اب بھی جلو گاوں میں موجود ہے۔ دادا نے اِسلام قبول کرلیا تھا، ورنہ ان کا خاندان بھی انڈیا میں ہوتا۔ جتنے دن کھاری کا وہاں قیام رہا، رِینو نے اُسے بھرپور کمپنی دی، اور پاکستان آنے پر میزبانی کرنے کا وعدہ لیا۔ کھاری کا خیال تھا، کہ یہ منہ دیکھے کی باتیں ہیں، بھلا کب ایسا ہوگا، کہ رِینو پاکستان چلی آئے۔ ویسے بھی ہندُستان، پاکستان کے بیچ میں ویزے کی سختیاں ہیں۔ رِینو کے پاس انگلستان کی شہریت تھی، اُسے پاکستانی ویزا حاصل کرنے میں چنداں دُشواری نہ ہوئی۔

جلو گاوں تب بھی لاہور شہر سے باہر تھا، اور اب جب کہ آبادی میں بلا کا اضافہ ہوچکا ہے، لاہور شہر کی سرحدیں پھیل گئی ہیں، تو بھی جلو شہر سے باہر ہے۔ جلو سے آگے بی آر بی نہر پار کرجائیں تو تھوڑی دُوری پر ہند پاک کی بین الاقوامی سرحد ہے۔ رِینو پاکستان میں اپنے اجداد کے نشاں ڈھونڈتے آئی تھی؛ یہاں سے اس کے ابا کی نسبت تھی۔ بارڈر کے اُس پار رِینو کا وہ گاوں تھا، جہاں اس کے دادا نے ہجرت کی تھی، لیکن یہاں سے لکیر پار کر کے وہاں نہیں جایا جاسکتا تھا۔ تفریق کا یہی نقصان ہے، کہ فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔

وہ پنجابن تھی، لیکن تھائی لینڈ میں پروان چڑھنے کے سبب، انگریزی پہناوے کی خوگر تھی۔ گاوں والوں کے لیے جینز پہنے لڑکی، کسی اعجوبے سے کیا کم ہوگی۔ مشتاق عرف کھاری جواں سال تھا، اور بالی عمر میں زمانے کی پروا کسے ہوئی ہے۔ وہ اسے موٹر بائک پر بٹھائے لاہور شہر کی سیر کراتا رہا۔
’رِینو جتنے دِن یہاں رہی میں اُسے لاہور گھمانے لے جاتا۔ ہم روز نہرو نہر نکل پڑتے‘۔

کھاری سامنے کی دیوار پر نظریں گاڑے تصور ہی تصور میں کچھ دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔ دیوار گویا فلم کا پردہ تھا، جس پر رینو اور مشتاق نہر کی سڑک پر موٹر بائک پر سوار چلتے پھرتے جاتے دکھائی دیے۔

’اُسے لاہور بہت پسند آیا تھا۔ میں اُسے گڑھی شاہو میں حافظ جوس شاپ لے جاتا۔ اُس زمانے میں ڈیٹنگ کے لیے وہ پوائنٹ بہت مقبول تھا۔ بڑی عجیب لڑکی تھی، وہ۔بڑی کانفیڈینٹ۔ پہلے دن کی بات ہے، رِینو کے گلاس سے جوس ختم ہوگیا، اس کے باوجود وہ اَسٹرا کو پیندے میں سڑک سڑک کی آوازیں نکالتے گھماتی رہی۔ میں پینڈو حیران تھا، کہ بنکاک میں پلی بڑھی لڑکی کیسی پینڈوانہ حرکت کررہی ہے؛ ہم تو یہاں سیون اپ کی بوتل میں کچھ باقی رہنے دیتے ہیں، کہ ندیدے نہ دکھائی پڑیں۔ مجھے حیران ہوتا دیکھ کر وہ کھِلکھِلا کر ہنسی۔ اُسے ایسی اُلٹی سیدھی حرکتیں کرنے میں لطف آتا تھا۔

ایسے ہی ایک دِن ویٹر کے ہاتھ سے شیشے کا گلاس چھوٹ کر گرا۔ رِینو چونک کر متوجہ ہوئی۔ فورا بولی، سنا تم نے؟ کتنی پیاری آواز تھی! اِس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتا، اُس نے میز پر رکھا شیشے کا خالی گلاس فرش پر چھوڑ دیا۔ چھناکے کی آواز آئی، رِینونے بچوں کی طرح خوشی کا اظہار کیا۔ بس ایسی تھی، وہ۔ مست قلندر‘۔

میں دِل چسپی سے رِینو اور اس کے بارے میں سوال کرتا رہا۔ رِینو وہیں ٹھیری تھی، کھاری کے گھر۔ باقی تو سب ٹھیک تھا، گھر بھر کو رِینو اچھی لگی تھی؛ کھاری کی بہنیں بھی رِینو سے گھل مِل گئیں تھیں۔ اور رِینو کو بھی پاکستان بہت پسند آیا تھا۔ (جب کہ اس نے لاہور ہی کے چند مقامات دیکھے تھے) کھاری کو رِینو بھا گئی تھی۔ (جب کہ وہ اس کے پردادا کی ہم مسلک تھی)
’پھر؟ تم نے رِینو کو شادی کی پیش کش کی‘؟
’میری دادی کو رِینو پسند نہیں آئی تھی۔ ایک تو وہ سکھنی تھی۔ پھر اس کا جینز پہنا؛ کھِلکھِلا کے ہنسنا؛ بے تکلف ہونا، دادی کو کھلتا تھا۔ دادی کہتی تھیں، اسے واپس بھیجو‘۔

مجھے کھاری کی دادی کو دیکھے بغیر ہی اُن سے بیزاری محسوس ہوئی۔
’رِینو کو اس بات کا پتا تھا؟ دادی کی ناپسندیدگی کا‘؟
’نہیں! اِتنا تو خیال تھا، مہمان کا‘۔

کھاری رات بھر رِینو کی باتیں کرتا رہا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو تفصیل سے بیان کیا۔ کھاری ہی کو نہیں، رِینو کو بھی اُس سے محبت ہوگئی تھی۔ رِینو اس کے لیے مسلمان ہونے کو تیار تھی؛ اُس کا مذہب، اُس کا پاکستان کھاری ہی تھا۔ ویزا ختم ہونا تھا، ہوگیا۔ وہ یہ وعدہ لے کر لوٹ گئی، کہ اُس کا مشتاق اُسے ہمیشہ کے لیے پاکستان بلا لے گا، اور دھمکی کے انداز میں کہا تھا، اگر نہ بلایا تو وہ خود آئے گی، اُسے اغوا کر کے بنکاک لے جائے گی۔ کھاری والد کا تابع فرمان تھا، اور اس کے والد پر دادی کا حکم چلتا تھا۔ رِینو نے جانے سے پہلے اسے ایک گفٹ پیک بھی دیا تھا، الوداعی تحفہ۔
’مجھے اتنی تمیز بھی نہ تھی، کہ میں اسے کوئی تحفہ دے کر بھیجتا۔ اُلٹا اُس نے، مجھے‘۔۔

کچھ عرصے بعد، ایک دِن کھاری نے ہمت دکھائی۔ پی سی او سے مختصر سی کال کر کے رِینو سے کَہ دیا، وہ اُس کا انتظار نہ کرے۔ اُس کے بعد کھاری کبھی بنکاک نہیں گیا۔

میں اس کی زندگی کیوں برباد کرتا، کہیں وہ میرا انتظار ہی نہ کرتی رہ جاتی‘۔
اتنا کَہ کر وہ کچھ لینے کے لیے اُٹھا۔ تھوڑی دیر میں نہ لوٹا تو اِس دوران مجھے نیند آ گئی۔

تمہید ختم ہوئی، اب فسانہ سنیے۔ اوپر کے واقعے کے کوئی سال سوا سال بعد میں جلو میں کھاری کا مہمان ہوا۔ اُس نے مجھے اپنے پردادا کی موڑھی دکھائی، جو سکھ مذہب سے تھے۔ موڑھی دیکھتے ہی مجھے رِینو کا خیال آیا، جو اپنے پرکھوں کا وطن دیکھنے آئی تھی، اور دِل ہار کے چلی گئی۔ رات گئے گھر کے دوسرے کونے میں بنے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے، میں نے کھاری سے رِینو کا ذکر چھیڑ دیا۔ وہ اُٹھا، اور الماری سے گفٹ پیک نکال کرمجھے دکھایا، جو رِینو نے جانے سے پہلے اسے دیا تھا۔ بوٹوں کے ڈبے سے زرا بڑے سائز کا گتے کا ڈبا، جس پر رنگین پنی لپٹی تھی، جوں کا توں بند تھا، جیسے کھولا ہی نہ گیا ہو۔ پیکنگ کی جلد خستہ حال ہوگئی تھی۔ ڈبے کا ایک کونا چکنا، بھورا مٹیالا رنگت کا ہو چلا تھا، شاید چاکلیٹ ہو، جو پگھل کر یہاں اپنا نشان چھوڑ گئی تھی۔

’اسے ابھی تک کھولا کیوں نہیں‘؟
یہ کہتے میں نے پیکٹ پر بندھے رِبن پر ہاتھ ڈالا۔ کھاری نے برق کی سی رفتار سے میرے ہاتھ سے وہ ڈبا جھپٹ لیا۔
’نہیں! اِسے کھولنا مت‘۔
’کیوں؟ دیکھو تو سہی، اِس میں کیا ہے‘!

’نہیں‘۔ اُس نے مضبوط لہجے میں جواب دیا۔ ’میں نے رِینو سے کہا تھا، جب تم آو گی، تب اسے ایک ساتھ کھولیں گے‘۔
’لیکن۔۔ اب تو؟ اب وہ؟ تین چار سال ہوگئے ہیں‘؟! میں اُس پگلے سے اور کیا کہتا۔

’کیا پتا، کسی روز یہ ممکن ہوجائے۔ ہوسکتا ہے وہ آ ہی جائے۔ تب رِینو کیا کہے گی؛ میں نے اُس کا انتظار بھی نہیں کیا‘!؟ کھاری کے لہجے میں حسرت تھی۔
’اور اگر رِینو نہ آئی تو؟ کب تک‘؟

وہ کچھ کہنا چاہتا تھا، کَہ نہ پایا؛ اُس کے ہونٹ کپکپا کے رہ گئے۔ میں نے دھیان ہٹالیا، جیسے ہم معمول کی بات کر رہے تھے۔ میں ایک دوست کو یہ احساس نہیں دلانا چاہتا تھا، کہ میں نے اُس کی آنکھوں میں اُترتی نمی کو دیکھ لیا ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran