پاکستان کی شہریت صرف پچاس روپے میں حاصل کریں


گذشتہ دو ماہ سے نادرا کے چیئرمین عثمان مبین نے شناختی کارڈ بنانے کے لئے رائج انڈر ویریفیکیشن پالیسی ختم کردی ہے جس سے پاکستان میں بسنے والے برمی، بنگالی، بہاری، افغانی، ایرانی، چیچن، ہندوستانی، ازبک سب صرف پچاس روپے کا ایک حلف نامہ جمع کروا کے اور دو گواہوں کے ساتھ آکر پاکستان کا شناختی کارڈ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کا ثبوت اس تحریر کے ساتھ منسلک ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان کے شہری ہیں اور پاسپورٹ بنوا کر پوری دنیا میں سفر کر سکتے ہیں پھر ان میں کوئی کلبھوشن یادیو ہو یا کوئی اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ شہریت دینے کے لئے کراچی میں رات گئے تک نادرا کے مراکز کھلا رکھنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں اور یہ کام بڑی شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔

پاکستان کے سابقہ وزیر داخلہ چودھری شجاعت نے اس طرح کے کام کی اجازت دینے سے قطعی انکار کر دیا تھا اور عثمان مبین کو ان کے عہدے سے بھی ہٹا دیا تھا مگر ان کے جانے کے بعد دوبارہ یہ کام شروع ہے جس کی منظوری نہ پارلیامنٹ نے دی ہے نہ کسی عدالے نے۔ انڈر ویریفیکیشن پالیسی اصل میں سٹیزن شپ ایکٹ 1951 کے تحت پالیسی ہے جس کا لاگو ہونا تمام ضروری ہے۔

ملک کی مذہبی جماعتیں دوسرے ملکوں کے رہواسیوں کو پاکستان شہریت دینے کے حق میں ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بھی اس عمل کی حامی ہیں اور آنے والے الیکشن میں ان کو ان نئے پاکستانیوں سے ووٹ ملنے کی لالچ ہے۔ سندھ پیپلز پارٹی کھل کر اس عمل کی حمایت کر رہی ہے اور سندھ اسیمبلی میں سندھ کے سینئر وزیر نثار کھڑو بیان دے چکے ہیں کہ ان غیر ملکیوں کو پاکستان کی شہریت ملنی چاہیے۔

حیرت اس بات پر ہے کہ پہلے ہی مسائل میں گھرے پاکستان کی شہریت بنا کسی تصدیق کے بغیر کسی قانونی منظوری کے دینا ملکی سلامتی کے لئے کتنا بڑا اشو ہے۔ دنیا میں اگر مذہب کی بنیاد پر ہی شہریت دی جاتی تو لبیا، سعودی عرب، بحرین، مالدیپ، اومان، قطر اور صومالیہ ایسے ملک ہیں جن کی آبادی سو فیصد مسلمان ہے مگر یہ ممالک اپنے ملکوں کی شہریت دینا تو دور کی بات پاکستان کے مزدوروں کو بھی اپنے ملکوں سے اس طرح نکالتے ہیں کہ چپل تک پہننے نہیں دیتے اس کے علاوہ، الجیریا، ایران، ترکی تیونس کی آبادی بھی نناوے فیصد مسلمان ہے مگر کہیں پر بھی وہاں کی شہریت اتنی سستی اور آسان نہیں جتنی پاکستان میں ہے۔

سندھ کے قوم پرست گزشتہ دو ماہ سے کراچی سمیت پورے سندھ میں نادرا کے اس عمل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں مگر اردو میڈیا ان کو ہمیشہ کی طرح بلیک آؤٹ کیے ہوئے ہے۔ غیر ملکیوں کوشہریت دینے کے اس عمل کے خلاف کراچی میں سائیں جی ایم سید کے گھر حیدر منزل پر ان کے پوتے سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراھ سید جلال محمود شاھ کی قیادت میں سندھ سندھ یونائیٹڈ پارٹی، عوامی جمہوری پارٹی، جیے سندھ قومی محاذ، سندھ ترقی پسند پارٹی، سندھی ادبی سنگت، جیئی سندھ محاذ سرور سہتو گروپ، جیے سندھ تحریک، جیئی سندھ لبرل فرنٹ، سندھ ساگر پارٹی، نیشنل پارٹی، عوامی راج پارٹی، جیے سندھ محاذ ریاض چانڈیو گروپ، جیے سندھ قوم پرسٹ پارٹی، سول سوسائٹی، سندھ کے لوک فنکار اور وکیلوں کے گروپس پر مشتمل سندھ ایکشن کمیٹی گذشتہ تین ماہ سے تشکیل پا چکی ہے جو نادرا کے خلاف مسلسل احتجاج میں ہے اور آج کے دن بھی کراچی پریس کلب کے باہر سینکڑوں کی تعداد میں مختلف پارٹیوں کے رہنما اور کارکن بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔

سندھ کے قوم پرستوں کا موقف ہے کہ غیر ملکیوں کوشہریت دینے کا عمل پاکستان کے سٹیزن شپ ایکٹ 1951 کی نفی ہے اور یہ عمل کسی مجاز ادارے کی منظوری کے سوا گورنر سندھ زبیر احمد، وزیر داخلہ احسن اقبال، اور چیئرمین نادرا عثمان مبین غیر قانونی طور پر شروع کیے ہوئے ہیں اور پیپلز پارٹی کی ان کو اس لئے حمایت حاصل ہے کراچی کے اورنگی ٹاؤن، جہاں ان غیر ملکیوں کی اکثریت بستی ہے سے ان کو آئندہ الیکشن میں ووٹ ملنے کا یقین دلایا گیا ہے۔

آج اس تحریر کے کچھ گھنٹوں بعد سندھ ایکشن کمیٹی کراچی پریس کلب کے سامنے اپنی تین روزہ بھوک ہڑتال ختم کر کے گورنر ہاؤس کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کرچکی ہے، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنما زین شاہ، ممبر سندھ اسیمبلی حاجی شفیع جاموٹ، عوامی جمہوری پارٹی کے سربراہ امان اللہ شیخ، جیے سندھ قومی محاذ کے ڈاکٹر نیاز کالانی، سندھ ترقی پسند پارٹی، سندھی ادبی سنگت، جیئی سندھ محاذ سرور سہتو گروپ، جیے سندھ تحریک، جیئی سندھلبرل فرنٹ، سندھ ساگر پارٹی، نیشنل پارٹی، عوامی راج پارٹی، جیے سندھ محاذ ریاض چانڈیو گروپ، جیے سندھ قوم پرسٹ پارٹی کے رہنما، سول سوسائٹی، سندھ کے لوک فنکار اور سینکڑوں کارکن اس وقت کراچی پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال کیمپ پر موجود ہیں۔ سندھ کے قوم پرستوں کی آواز کمزور سھی پاکستانی میڈیا ان کی خبر تک نہیں دے رہا مگر اخلاقی طور پر ان کا کیس مضبوط ہے بھلے ان سنا کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).