جمہوریت یا بادشاہت


مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں ایک نالائق آدمی ہوں۔ ایک پاکستانی کے طور پر مجھے آج تک جمہوریت اور بادشاہت کا فرق ہی معلوم نہ ہو سکا۔ پہلے میں ان سیاسی جماعتوں کا ذکر کروں گا جن سے میں نے جمہوریت سیکھنے کی کوشش کی۔

پیپلز پارٹی: یہ وہ جماعت ہے جو سب سے زیادہ جمہوریت پسند کہلاتی ہے۔ یہ  ذالفقارعلی بھٹو سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو پھر زرداری اور آخری اطلاعت تک بلاول اور اس کے بعد بلاول کا بیٹا ہو گا۔

دوسری جمہوریت کا پرچار کرنے والی عوامی نیشنل پارٹی ہے۔ اس کا شجرہ کچھ ایسے ہے۔ سب سے پہلے عبدالغفارخان پھر ولی خان، نسیم ولی خان اور اسفند یار ولی۔

جمعیت علماءاسلام کے مولانافضل الرحمٰن تو مفتی محمود کے انتقال فرماتے ہی چھلانگ مار کر سربراہ کی سیٹ پر آ دھمکے۔

مسلم لیگ کے تو کیا کہنے اولاد تو اولاد بیوی، بھائی، بھتیجے، بھانجے، بیوی کے بھتیجے بھانجے اور داماد سب بھرتی ہو گئے۔

یہی صورت حال کم وبیش تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں حتیٰ کہ ایم این اے اور ایم پی اے کی سیٹوں پر بھی ہے۔ ہر جگہ وارث ہی سیٹ کا حقدار ہوتا ہے۔ جب یہ سوال ان جماعتوں کے چمچوں کڑچھوں سے کیا جاتا ہے تو ان کا جواب بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ ”بھئی سیدھی سی بات ہے عوام انہیں پسند کرتے ہیں۔ “ اس کا مطلب عوام میں سیاسی شعور نہیں۔ مگر ان کا دعویٰ ہے کہ عوام میں بہت سیاسی شعور ہے۔ اب میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں یہ سیاسی شعور ہے یا بادشاہت پسندی۔

میری شہر کے بہت سے لوگوں سے بات ہوئی تو وہ اپنے ایم این اے کی خوبیاں یہ بتاتے ہیں کہ اس نے اپنے حلقے میں بہت کام کیا۔ سڑکیں بنوائیں صفائی کا انتظام پہلے سے اچھا ہو گیا۔ اب جمہوریت کے فامولے کے مطابق یہ کام کونسلر کا ہے یا ممبر قومی اسمبلی کا۔ اس حساب سے تو کونسلر کو قانون سازی کرنی چاہیے۔ گاؤں کے لوگوں کے نزدیک ممبر کا کام تھانے کچہری کے کام میں ان کی مدد کرنا ہے۔

میں غلطی سے ایک ایسی فوتگی میں چلا گیا جہاں بہت سے ممبران اسمبلی بھی تعزیت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ٹی وی مذاکروں میں لڑنے والوں کے درمیان مجھے وہ محبت نظر آئی جس کا میں تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔ دونوں مخالف جماعتوں کے ممبران ایک دوسرے کے سامنے اپنے اپنے کارنامے بیان کر رہے تھے۔ جن میں سے اکثر کسی پلاٹ کے بارے میں تھے کہ انہوں نے چکر چلا کر کیسے پلاٹ پر قبضہ کیا۔ انہیں ملک کی صورت حال سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ بلکہ اکثر کا علم بھی بہت محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ اسی لیے تو ہماری اسمبلیوں کے نوے فیصد ارکان اسمبلی میں بات ہی نہیں کرتے۔

ہمارے ملک میں چپڑاسی کی نوکری کے لیے تو کچھ نہ کچھ قابلیت کا پیمانہ ہے مگر قانون سازی کرنے والے اہم ادارے کے لیے کسی تعلیم یا قابلیت کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ممبران کو دیکھتے ہوئے تو یہ لگتا ہے کہ جس میں کوئی قابلیت نہ ہو وہی سب سے قابل ہے۔ قانون سازی کرنا تو دور کی بات ان میں سے اکثریت تو موجودہ قوانین سے بھی آشنا نہ ہوگی۔

اب ہم آتے ہیں ووٹر کی طرف اس کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ اس کے ووٹ دینے کا مقصد کیا ہے۔ وہ جس کو ووٹ دے رہا ہے اس کا کام کیا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تعداد ان پڑھ لوگوں کی ہے کیا یہ اکثریت اس قابل ہے کہ قابل لوگوں کو منتخب کر سکے۔ مجھ جیسے کم عقل آدمی کا بھی ایک ووٹ ہے ڈاکٹرقدیر جیسے کا بھی ایک۔ ماہر قانون کا بھی ایک ووٹ ہے اور ایک ان پڑھ مزدور کا بھی ایک۔ قرآن میں ہے ”بتاؤ تو کہ علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل مند ہوں“

اب ہم نہ تو عقل والے ہیں نہ ہی عقلمند اس لیے نصیحت بھی حاصل نہیں کرتے۔ اگر ہم اپنے ملک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو سب سے زیادہ ترقی ایوب خان کے دور میں ہوئی کیونکہ اس کے تمام وزیر ٹیکنوکریٹ تھے۔ ہر کام کرنے سے پہلے اس کی پوری طرح کیس سٹڈی ہوتی تھی۔ یہ نہیں کہ بادشاہ سلامت نے کہہ دیا سڑک بنا دو اور سڑک بننی شروع ہو گئی۔ اس تعریف کا یہ مطلب نہیں کہ میں ماشل لاء کا حامی ہوں بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ حکومت قابل لوگوں کے ہاتھ میں ہو اور یہ تب ہی ہو گا جب انہیں منتخب کرنے والوں میں بھی کچھ قابلیت ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).