بارے کچھ لبرل احباب کا بیان ہو جائے


کرپشن کے حوالے سے ایک بدنام محکمے کے دو ا فسران نماز جمعہ کے بعد ایک مسجد میں بیٹھے تھے ۔ اُن میں سے ایک افسر ہاتھ اُٹھائے بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ اور بہت گڑگڑا کر دعا مانگ رہا تھا ۔دوسرے افسر کی اُس پر نظر پڑی تو وہ گھبرا گیا ۔وہ فوراً اس کے پاس گیا اور اسے خبردار کرتے ہوئے کہنے لگا ، ’’ میاں ! دُعا میں خشوع و خضوع اپنی جگہ بڑی اچھی چیز ہے لیکن دیکھنا کہیں حلال روزی نہ مانگ لینا ورنہ بھوکے مر و گے ‘‘۔ ہمارے لبرل اور سیکولر دوست احباب کی اکثریت بظاہر پڑھے لکھے اور صاحبِ مطالعہ حضرات پر مشتمل ہے لیکن ان میں سے ایسے حضرات کی تعداد کو آٹے میں نمک کے برابر کہنا بھی شاید مبالغہ ہو گا جنہوں نے دینِ اسلام کا مطالعہ کر رکھا ہے ۔مذہبِ اسلام کے پُرخلوص اور یکسوئی پر مبنی مطالعے سے باز رہنے کی وجہ شاید یہ ہے کہ اوپر بیان کیے گئے لطیفے میں مذکور افسر کی طرح انہیں خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے مبادا ان پہ

ہدایت کی ’’ چھینٹ ‘‘ پڑنے سے ان کا ’’صاف ‘‘ دامن ’ میلا ‘ نہ ہو جائے ۔ہمارے ان لبرل احباب میں سے بعض کے مطالعے کی وسعت قابل رشک ہوتی ہے لیکن ہماری ناقص رائے میں ان کی رسائی ’’ علمِ نافع ‘‘ تک نہیں ہوتی ۔ اور ظاہر ہے کہ ایسا مطالعہ جو علمِ نافع کے حصول کا باعث بنتا ہے اس کے لیے حُسنِ نیت کے علاوہ موضوعات کا درست انتخاب بھی ضروروی ہوتا ہے ۔یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے جو ایک بار افلاطون نے کہی تھی کہ ایسا تمام علم جس کا مقصد اچھائی اور نیکی نہ ہو وہ برائی بن جاتا ہے ۔

ہمارے ہاں آئے دن کوئی نہ کوئی نظریہ یا نعرہ سات سمندر پار کسی ملک سے ’’ امپورٹ ‘‘ ہو کر آتا ہے اور پھر ہمارے یہی لبرل اور نام نہاد روشن خیال دوست اس نعرے کی سپورٹ میں اپنا پورا زور لگا دیتے ہیں ۔ ایسا کرتے ہوئے یہ حضرات بڑا بنیادی اور واضع جغرافیائی اور تہذیبی فرق بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھتے ۔ وطنِ عزیز کا نظریہ پیش کرنے اور خواب دکھانے والے حکیم الامت علامہ اقبال نے بہت پہلے اعلان کر دیا تھا :

اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ

بعدازاں تشکیلِ پاکستان کی جدوجہد کے دوران قائدِاعظم ؒ نے متعدد بار اس بات کا اعادہ کیا کہ وطنِ عزیز سے مراد ایک ایسے خطّہ ارضی کا حصول ہے جہاں رہائش پزیر مسلمان اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے مطابق گزار سکیں ۔ قائدِاعظم کے ارشادات کے مطابق پاکستان کا تصور ایک اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر ذہنوں میں ابھرتا ہے ۔تخلیقِ پاکستان کے اس پس منظر کو اگر پیشِ نظر رکھا جائے تو کسی بھی ایسے نظریے یا نعرے جو حصولِ پاکستان کے ان بنیادی مقاصد کے خلاف ہو کو اختیار کرنا بہت عجیب اور بے حد نا مناسب دکھائی دیتا ہے ۔

اس تمہید کی ضرورت یوں پیش آئی کہ اگلے دن وطنِ عزیز میں ایک نعرہ متعارف کروانے کی کوشش کی گئی ۔ نعرہ تھا ’’ میرا جسم میری مرضی ‘‘۔ ہمارے نام نہاد روشن خیال ، ماڈرن اور لبرل طبقے میں سے کچھ آوازیں اس نعرے کی حمایت میں اُٹھیں۔ جب کہ دوسری جانب ہماری تہذیب و ثقافت اور اقدار سے جڑے لوگوں کی طرف سے اس نعرے کے خلاف آوازیں اُبھریں ۔ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو ’’ میرا جسم میری مرضی ‘‘ ایک ایسا Slogan ہے جو مغربی معاشرت اور طرزِ فکر کا آئینہ دار ہے ۔ یہ ہماری تہذیب اور بنیادی اقدار کے ساتھ کسی طور لگّا نہیں کھاتا۔ہماری ہاں اس کی جگہ یوں بھی نہیں بنتی کہ ایک اسلامی معاشرے میں ایک فرد تو کیا پوری قوم کا ’’ جسم ‘‘ بھی اپنی مرضی کرنے کا متحمّل نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ اسلامی معاشرے کے لیے بنیادی طور پر ضروری ہے کہ وہ اپنے قاعدے قوانین مرتب کرنے کے لیے اپنی مرضی کی بجائے قرآن و سُنت سے روشنی حاصل کرے گا ۔پھر ہم دیکھتے ہیں کہ حال ہی میں یہ چیز سامنے آئی ہے کہ دیگر معاشروں کی طرح ہمیں “Me Too” جیسے مسائل کا سامنا ہے ۔ اس طرح کے مسائل کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اس بنیادی نقطے کی طرف بھی کئی لوگوں نے توجہ دلائی ہے کہ اگر مذکورہ بالا نعرے یعنی ’’ میرا جسم میری مرضی ‘‘ کی تشہیر کی جائے اور اس پر عمل ہو نا شروع ہو تو یہ Me Too جیسے ایشوز پیدا کرنے کے لیے ایک بڑی وجہ بن سکتا ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ یہاں اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ برداشت اور رواداری کے فروغ کی جتنی ضرورت ہمیں ہے وہ بہت کم کسی اور معاشرے کو ہو گی ۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں مختلف مسالک ، عقائد اور سیاسی نظریات کے حامل افراد موجود ہوں وہاں امن و سکون اور سلیقے سے رہنا بے حد ضروری ہے ۔ ایسے میں نبی رحمتؐ کی سیرت مبارک ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے ۔ خاص طور پر آپؐ کی مدنی زندگی بہترین مثال اور مشعلِ راہ ہے ۔ مصیبت یہ ہے کہ ہم لوگ بحث اور جھگڑے کا فرق محسوس نہیں کرتے ۔ Healthy Discussion زندہ معاشروں کا حُسن آتی ہے ۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں دورانِ بحث کسی معمولی سے سیاسی یا معاشرتی مسئلے پر اختلاف کی صورت میں ناک بھنویں چڑھا کر اور تیوریاں بدل کر ایک دوسرے پر حملے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس اندازِ بحث سے عدم برداشت اور نفرت بھرا طرز فکر فروغ پاتا ہے اور اسی نے ہمارے خوبصورت معاشرے کا چہرہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).