نواز شریف کے تین سیاسی ٹارگٹ


کیا نوازشریف کا سیاسی ہدف کپتان ہے؟ ایسا سمجھنے والا کچھ بھی ہو سکتا لیکن وہ سیاست نہیں سمجھتا۔ شاید سیاست سمجھتا بھی ہو لیکن کم از کم نواز شریف کو نہیں جانتا۔

سول ملٹری کشمکش کے بارے میں ابھی مزید لکھنا تھا۔ ایک وٹس ایپ میسج آیا کہ ”آپ لاہوری رنگ باز نوازشریف کو ایک عالمی معیار کا سٹریٹجسٹ سمجھ رہے ہیں“۔ میسج پڑھ کر احساس ہوا کہ یہ تو اپنے حریف کو ٹھیک سے جانتے تک نہیں۔ پوری طرح جانے بغیر میچ ڈال رکھا ہے۔

الیکشن لڑنا جیتنا اب اک سائنس کے درجے میں داخل ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے باراک اوبامہ نے غیر روائیتی انداز میں اپنی مہم چلا کر امریکہ کا صدارتی الیکشن جیتا۔ ابھی ہم نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایسا کرتے دیکھا۔ کیسے اس جوان نے سارے میڈیا ماہرین کے منہ پر ان کے تجزیے مل کر جیت اپنے نام کی۔

بھارت میں مودی کی الیکشن مہم بھی کمپین مینیجر نے ڈیزائن کی۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ہونے والے ریفرینڈم جو اب بریکسٹ کے نام سے جانا جاتا۔ اس میں بھی کمپین مینیجرز کا جادو سر چڑھ کر بولا، چھوڑیں۔

گروہی نفسیات کو ابھار کر مرضی کے نتائج حاصل کرنے والے کئی مشہور کمپین مینیجر یا سپن ڈاکٹر ہیں۔ ان میں سے دو حضرات کو لے کر پاکستانی الیکشن میں کودنے کی ایک کوشش ناکام رہی ہے۔

مسلم لیگ نون اپنے قیام کے بعد اپنا دسواں الیکشن لڑنے جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اپنی الیکشن مہم کی ڈیزائنگ کرافٹنگ باہر سے کرا رہی ہے۔ اقتدار سیاست داؤ پر لگی ہو تو یہ سوچنا کہ نون لیگ والے کوئی سستا یا ماٹھا مینیجر پکڑ لیں گے۔ خیال است و محال است بلکہ کس نون لیگی کی مجال است کے ایسا کرے۔

کہانیاں ختم کر کے سیدھا موجودہ حالات پر آ جاتے ہیں۔ نوازشریف نے ایک بیان دیا ہے۔ یہ بہت کیلکیولیٹڈ موو تھی۔ انٹرویو کی ٹائمنگ، اخبار اور صحافی سب بہت سوچ سمجھ کر منتخب کیے گئے تھے۔ اب ہر طرف ہالالالا ہو رہی ہے۔

انگلی اٹھنے کی منتظر پارٹی ساری اب ویلی بیٹھی تھک رہی ہے۔ ساری میڈیا اٹریکشن نوازشریف کی طرف جا چکی ہے۔ کپتان بیٹھا لمبی لمبی ٹویٹ دے رہا کہ او مرو میری طرف بھی دیکھو میرا نواں پاکستان۔ میری شیروانی میں وزیراعظم۔ سیاست کا گھوم چرخڑا ہوا پھر رہا۔

نوازشریف کپتان کو اپنا حریف نہیں سمجھتے۔ ان کے تین حریف ہیں اک مائی لارڈ یعنی عدالت، دوسرا میڈیا اور تیسرا وہ جس کا میں نام تو لینا چاہتا ہوں۔ پر آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔

مائی لارڈ اور مائی گارڈ دونوں کی پوزیشن ایسی ہے کہ وہ بول نہیں سکتے۔ نوازشریف کپتان نہیں ہیں کہ چار سال میں تھکا مارا ہے اپنی پارٹی کو بول بول کر۔ دو ڈھائی سال سے بھائی نے کوئی نیا جملہ کسی تقریر میں نہیں بولا۔ گو نواز گو جیسا نعرہ اس سے جا چکا ہے۔ اب لوٹے ہیں وہ ہے الیکشن ہے اور انگل کا آسرا ہے۔ انگل نہیں تو انگوٹھا سمجھ لیں وہی جسے کالا کر کے ووٹ ڈالنا ہے۔

نوازشریف اب پریشر بڑھائیں گے۔ بولیں گے کھل کے بولیں گے بول بول کر چیلنج کریں گے۔
چار مارشل لا رہے ہیں۔ ایک مشرف والا تو نوازشریف نے خود بھگتا ہے اور ضیا والے میں مزے کیے ہیں۔ کارگل ہے، دھرنے ہیں شدت پسندی ہے۔ ریجنل پالیسی ہے، نان سٹیٹ ایکٹر ہیں۔ وہ ان سب پر بولیں گے۔
ابھی تو ممبئی پر لے دے ہو رہی ہے۔ پٹھان کوٹ والا قصہ تو اور بھی مزاحیہ ہے۔ جب وہ پیچھے سے گھوم کر آ کے ڈان لیکس سے لگ گیا تو پھر؟

ابھی تو اقامے والے فیصلے پر ہی دھوم مچی ہے۔ دھول اڑ رہی۔ جب کارکے ریکوڈک اور بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے دیے گئے عدالتی فیصلوں کا ذکر شروع ہوا تو رونق لگ جائے گی۔ ہماری آزاد عدلیہ کے ہاتھوں دس سے پندرہ کھرب روپے کی پھکی پڑی ہے۔ جو خیر سے پاکستانی ٹیکس پیئر نے کھانی ہے۔

میڈیا نے کرپشن کے خلاف بہت لمبی مہم چلائی ہے۔ آج کل اسی میڈیا کو اچھا مینیج کیا جا رہا ہے۔ اس مینیجمنٹ کی وجہ سے میڈیا تیزی سے اپنی کشش کھو رہا ہے۔ مسلم لیگ نواز یقینی طور پر میڈیا کی کرپشن مہم کا دوسرا رخ سامنے لائے گی۔

صرف اک مثال پیش ہے۔ توانائی کے شدید بحران کے باوجود پیپلز پارٹی کے دور میں ہماری ایکسپورٹ بیس ارب ڈالر سے بڑھ گئی تھیں۔ اس بحران سے نپٹنے کے لیے پی پی نے ایل این جی کے سودے کیے۔ اب ظاہر ہے جیالے سودے کریں گے تو گول گول تو ہوں گے۔ میڈیا پر مہم چلی اور سودے منسوخ ہو گئے۔

لوگوں نے اک لمبی لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھگتا۔ صنعتیں بند ہوئیں لوگ بیروزگار ہوئے۔ ایکسپورٹ پچیس ارب ڈالر سے گر کے اج کل پندرہ ارب ڈالر پر پھر رہی ہیں۔ زیادہ نہیں ایک ارب ڈالر کا ہی نقصان سالانہ ہوا ہو تو اس کے روپے بنا لیں۔ جیالوں نے کتنا کھا لینا تھا۔

میڈیا ٹکے ٹوکری ہو جانا ایسی کسی اچھی مہم کے چلنے پر۔ لوگ ویسے بھی حقیقت جاننے کو سوشل میڈیا پر جا رہے ہیں۔ وہ بھی آپ بند کریں گے تو میلے کی شوقین یہ قوم افواہیں دم کر کے بھاپ لے گی۔ جلسے بڑے ہونے لگیں گے۔

ان تینوں ٹارگٹ پر نشانے لگا کر نوازشریف قومی ہی نہیں عالمی مظلوم بھی بننا چاہیں گے۔ وہ اپنی کوششوں سے شاید نہ بن سکیں لیکن صورتحال کو ہینڈل کرنے والے انہیں ضرور بنا کر دم لیں گے۔

کپتان کا وزیراعظم بننا اب عین ممکن لگ رہا۔ لوٹے پر لوٹا رکھ کر وہ وزیراعظم تو بن جائے گا۔ جیل کے اندر بیٹھا نواز شریف اس کے لیے ڈراؤنا خواب ہو گا۔ جو دہی کھاتا اندر بیٹھا ہر وہ بات کر رہا ہو گا جو ساری دنیا کو سیدھی دل میں لگ رہی ہو گی۔

جب باہر سے ایسی حمایت مل رہی ہو تو پھر کسے پروا ہوتی ہے کہ اپوزیشن میں اس کی کتنی نشستیں ہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi