نہیں بیٹا… ڈاکہ پڑا ہے ڈاکہ


\"zeeshanمجھے اچھی طرح سے یاد ہے جب انیس سو ننانوے میں نواز شریف کی ایک جمہوری حکومت پر ایک بائیسویں گریڈ کے فوجی افسر نے شب خون مارا تھا تو اس وقت میری عمر محض تیرہ برس تھی۔ شام کا وقت تھا اور پی ٹی وی پر معین اختر کا مزاحیہ ڈرامہ سچ مچ چل رہا تھا کہ ایک دم ٹی وی کی نشریات رک گئیں۔ کچھ دیر انتظار کیا نشریات بحال نہ ہوئیں تو میں باہر کی تازہ ہوا کھانے کو نکل گیا۔ راستے میں مجھے میرے ایک کزن ملے، انہوں نے بتایا کہ مارشل لاء لگ گیا ہے۔ یہ سن کر اتنی خوشی ہوئی تھی کہ بیان سے باہر ہے۔ میں نے کہا یہ تو بہت اچھی خبر ہے … ان کا جواب تھا نہیں بیٹا سمجھو ڈاکہ پڑا ہے ڈاکہ۔ میں نے کہا وہ کرپٹ تھا۔ یقین کریں مجھے اس وقت نہیں پتا تھا کہ نواز شریف نے کیا کرپشن کی ہے مگر یہی سنا تھا کہ نواز شریف کرپٹ ہے، بے نظیر چور ہے اور سیاستدان غدار ہیں۔ میرے کزن مجھے سمجھاتے رہے اور مجھے اب بھی یاد ہے ان کا وہ چہرہ جس میں اضطراب تھا، بے چینی تھی اور غصہ تھا۔ وہ تاریخی حوالے دیتے رہے، میں نے سنی ان سنی کی اور دل ہی دل میں کہا کہ ان کے دماغ کو کتابیں کھا گئی ہیں۔ ان سے بمشکل اجازت چاہی اور میں مرکزی بازار کو جا نکلا۔ وہاں جا کر میں نے مفت میں بانٹے گئے لڈو کھائے اور اپنے ہم جولیوں کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا کہ سیاستدان واقعی چور ہیں۔

رات کو اپنے بستر پر لیٹا نئے فوجی آمر کا خاکہ سوچتا رہا اور پاکستان کو جلد سے جلد کرپشن سے صاف و شفاف دیکھنے کی آرزو میں ہی نیند آ گئی۔ صبح اٹھا سب سے پہلے اخبار میں جنرل صاحب کا چہرہ دیکھا، دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ چہرے سے تو ہیرو نہیں لگتا۔ خیر وقت گزرتا گیا، سکول مکمل کیا اور پھر کالج کی آزاد منش دنیا۔ بی ایس سی کے اختمامی دن تھے اور مشرف کا زوال آنے کو تھا۔ اس وقت پوری قوم متفق تھی کہ ہمارے مسائل کی جڑ یہی مشرف ہے۔ اکثر لوگ کہتے تھے کہ مشرف چلا جائے آدھے مسئلے اسی وقت ختم ہو جائیں گے۔ وکلا تحریک میں بے سمت مگر انصاف کی منتظر قوم کی بے چینی حیران کن تھی۔ مشرف ولن بن چکا تھا اور اس سے خلاصی ضروری تھی۔

مشرف چلا گیا اور پیپلز پارٹی کی حکومت آ گئی۔ وقت گزرتا گیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت پر ہم سب نے جائز و ناجائز تنقید کی کیونکہ اس وقت چھاپہ مار دستوں کا کوئی ڈر نہیں تھا اور جمہوریت تنقید کے معاملے میں یقینا بے باک ہے۔ زرداری حکومت پر تنقید کرنے والوں میں جمہوریت پسندوں اور آمریت پسندوں کی تقسیم ہر گز نہ تھی۔ یہ جو کہتے ہیں کہ جب سیاسی حکومت کی بازپرسی ہوتی ہے تو جمہوریت پسند آمریت کا ڈراوا پیدا کر کے کرپٹ لوگوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، انہیں برائے مہربانی زرداری حکومت میں جمہوریت پسندوں کا مؤقف ملاحظہ کرنا چاہئے۔ پیپلز پارٹی کا اب بھی جمہوریت پسندوں سے گلہ ہے کہ انہوں نے ہم پر ہم وقت تنقید کی جبکہ نواز شریف کو تحفظ دیتے ہیں۔

دیکھئے کرپشن ایک خطرناک انسانی رجحان ہے، کسی بھی ادارے میں کوئی بھی فرد کرپشن کر سکتا ہے، اس لالچ سے محفوظ ہونے کی ضمانت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ اور کرپشن صرف مالی ہی نہیں اخلاقی بھی ہوتی ہے، مثال کے طور پر اگر میں کہیں جاب کرتا ہوں۔ دوران آفس اگر میں کام چوری کرتا ہوں اور سست ہوں تو یہ بھی کرپشن کی ایک قسم ہے۔

پوری دنیا میں سب سے زیادہ الزام کرپشن کا ریاستی اداروں بشمول سیاستدانوں پر لگتا ہے کیونکہ ریاستی عہدے میں اختیار بھی ہوتا ہے اور اقتدار بھی۔ جدید سوشل سائنسز میں ریاست کو ایک لازمی برائی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بغیر سماج کا نظم قائم رکھنا تقریبا ناممکن ہے۔ ریاست کو مطلق العنان بنانے سے روکنے کے لئے ہی ایک آزاد سیاست کا تصور قائم کیا گیا ہے۔ ایک لبرل سیاست میں کسی کی اجارہ داری ممکن نہیں، ہر سیاستدان کو پارلیمان کی رکنیت کے لئے شہریوں کی تائید درکار ہوتی ہے۔ سیاست عوام کی ترجمان ہوتی ہے جو اندھی ریاستی طاقتوں کو نکیل ڈالتی ہے- آزادی مساوات اور انصاف جو ہم انسانوں کی آرزو ہے اس کا راستہ ایک مہذب سیاست سے ہی گزرتا ہے۔ آزادی مساوات اور انصاف ریاستی اندھا دھند طاقت کے آگے بے بس ہو جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ریاستیں اپنی فطرت میں آمر ہوتی ہیں جبکہ سیاست عوام دوست اور جمہور دوست ہوتی ہے جو ریاستی جبر سے شہریوں کا تحفظ کرتی ہیں، کیونکہ ریاست کی طاقت ناگزیر جبر میں ہے جبکہ سیاست کی بنیاد شہریوں کی رضاکارانہ ہاں میں ہے۔ دنیا میں کہیں بھی انسانی حقوق کی جدوجہد سیاسی جدوجہد کے بغیر کامیاب نہیں ہوئی۔

قصہ مختصر نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی۔ راحیل شریف جیسا جنرل نواز شریف کا انتخاب ہے۔ ایک طاقتور اور مصمم ارادے کا مالک جنرل اس قوم کی ضرورت تھا کیونکہ ہم سلامتی کے مسائل میں دھنسے ہوئے تھے جو یقینا سلامتی کے اجارہ دار اداروں کے پیدا کردہ تھے۔ کبھی کبھار یہ شک بھی جان کو آ جاتا تھا کہ کہیں یہ ملک ٹوٹ ہی نہ جائے، بکھر ہی نہ جائے۔ اس وقت ایک کمزور جنرنل کے بجائے طاقتور جنرل کا انتخاب ایک سیاستدان کی حسن بصیرت تھی۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہیئت مقتدرہ کا انتخاب ہمیشہ کمزور سیاستدان ہوتے ہیں جو چھڑی کے اشارے پر ایک چمڑی بدل کر دوسری پہن لیں۔

ان سترہ برسوں میں بہت کچھ بدلا ہے، اگر نہیں بدلا تو وہ ہے ہمارا احساس کمتری جو ہنوز قائم ہے۔ ہماری مثال اس بچے کی سی ہے جسے کمرہ انتخاب سے ڈر لگتا ہو اور وہ چاہتا ہے کہ اس کا پرچہ کوئی اور حل کر دے تاکہ اس نفسیاتی آزمائش سے بچ جائے جس کا ایک کمرہ امتحان میں ہر کامیاب طالب علم کامیابی سے سامنا کرتا ہے۔ جمہوریت میں الیکشن ہی سب سے بڑا احتساب ہیں، صرف مالی احتساب نہیں، ایک سیاستدان کی ہر میدان میں کارکردگی کا احتساب- اس کے لئے ہر شہری کے پاس ووٹ کی طاقت ہے جو روئے زمین پر کسی اور طاقت کے پاس نہیں۔ ہر الیکشن اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ سنجیدگی اور اخلاص سے احتساب کرے اور جسے نااہل سمجھتا ہے اسے اس نظام سے نکال پھینکے۔ مگر ہم اس ذمہ داری سے ڈرے اور سہمے بیٹھے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ایک بے نکیل ریاست کے ایک بے قابو ادارے سے کوئی مسیحا برآمد ہو اور ہمارا پرچہ حل کر دے۔ ایسا نہ پہلے ممکن ہوا اور نہ اب ہو گا، وہ الٹا پہلے کی طرح آپ کو کمرہ امتحان سے ہی نکال دے گا اور سب لازمی پرچے کوٹ لکھپت جیسی جیلوں میں پھینکوا دے گا، کچھ پھانسی گھاٹ میں جھول جائیں گے اور کچھ باہر پھینکوا دیئے جائیں گے-

اور اب میں جب اپنے دوستوں کو جمہوریت و آمریت کی موٹی موٹی باتیں سناتا ہوں تو وہ بھی مجھے نظر انداز کر کے میرے پاس سے ویسے ہی گزر جاتے ہیں جیسے میں انیس سو نناوے میں اپنے کزن کے پاس سے یہ کہتے ہوئے گزر گیا تھا کہ اسے کتابوں نے خراب کر دیا ہے۔ ہر ایک کو جلدی ہے کہ وہ اگلے پڑاؤ پر خوش خبری کے لڈو کھائے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments