بی بی سواری کو بیٹھنے دیں


جن خواتین و حضرات کو ملک کے مختلف حصوں میں چلنے والی ”نان اے سی“ بسوں پر سفر کا اتفاق ہوا ہے وہ با خوبی جانتے ہیں کہ ان بسوں کا اپنا ایک کلچر اور اپنے کردار ہوتے ہیں۔ جب آپ نذیر عنائت اللہ، وڑائچ طیارہ، منٹھار کوچ، کارواں یا نیوخان ( یہ نیو پاکستان والا خان نہیں ہے) وغیرہ وغیرہ میں سفر کر تے ہیں تو وقتاً فوقتاً  اپنا اپنا سودا بیچنے والےخضر صورت حضرات ان بسوں میں سوار ہوتے ہیں۔ ان میں تاریخ انسانی کے سب سے قابل حکیم  شامل ہیں جو اپنی دوائی کی ایک ہی خوراک سے غیر پوشیدہ، پوشیدہ اور شدید پوشیدہ  امراض کا علا ج کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بعض حکماء کان کی میل نکالنے والی دوائی سے  دانتوں کے درد، مسوڑھوں کے خون اور دانتوں کے میل کا علاج کرنے کی پیش کش کرتےہیں۔ اِ سی دوائی سے آپ بواسیر، خارش، بچوں کے پیچس اور یادداشت بڑھانے کا کام بھی لے سکتے ہیں۔ عموماً ایسی ادویات بیچنے والے اللہ کی قسموں کے ساتھ روزِ قیامت اپنا گریبان بھی آپ کے ہاتھ میں تھمانے   کی دلفریب  پیش کش کرتے ہیں۔

اس  کے علاوہ اِن بسوں میں دنیا کے سب سے اچھے کھانے مہیا کرنے والے چڑھتے اترتے رہتے ہیں۔ یہ چرب زبان آ پ کو قائل کر لیتے ہیں کہ من و سلوٰی بس ایک پروپیگنڈا ہے۔ جو مزہ ان کی نان ٹِکی، دال، پکوڑوں وغیرہ میں ہےوہ ہر مردِ دانا کا انتخاب ہے۔ اِن شاہی بیڑوں کا سب سے اہم کردار کنڈیکٹر کہلاتا ہے۔ اس کے  فرائض میں بس کو سواریوں سے بھرنا، بس میں کون سودا بیچ سکتا ہے اور کتنی دیر رک سکتا ہے، کرایہ وصول کرنا اور  سواریوں کی نشستوں کے چناؤ کی ذمہ داری شامل ہے۔ پانچ منٹ میں بس کے چلنے کا کہہ کر کئی کئی گھنٹے سواریوں کو بٹھائے رکھنے کا فن بھی کوئی کنڈیکٹر سے سیکھے۔ بس کھچا کھچ بھر کر بھی ان کو کاروباری نقطہ نظر سے اطمینان نہیں ہوتا۔ جب آپ کو لگتا ہے کہ مزید کوئی سواری  بٹھاناتو دور کی بات، کھڑی کرنے کی جگہ بھی نہیں ہے، دفعتاً کنڈیکٹر صاحب ایک دو زنانہ سواریوں کو نشست پر بیٹھنے کے سنہرے خواب دکھا کر بس میں گھسا لیتے ہیں۔

یہ وہ وقت ہوتا ہے جب پرانی فنکار سواریاں سوتی بن جاتی ہیں۔ جب کہ اناڑی سوار کنڈیکٹر کی بے شرمی پر گھورتے ہوئے  اُسے دل ہی دل میں کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ کنڈیکٹر ان گھورنے والی سواریوں میں سے اچانک کسی سواری کو کہتا ہے بھائی جان! ” بی بی سواری کو بیٹھنے دیں“۔ اگر وہ سواری آرام سے اٹھ جائے تو ٹھیک ورنہ کنڈیکٹر کا لہجہ لمحہ بہ لمحہ کرخت ہوتا جاتا ہے۔ آخر میں دھکے اور گالیاں بھی پڑ سکتی ہیں۔ ان نازک لمحات میں سواری چاہے کنڈیکٹر کو جتنا مرضی برا بھلا کہے، اسے نشست بی بی سواری کو دینی ہی ہوتی ہے۔ اس سارے عمل میں سودا بیچنے والے کنڈیکٹر کی حمایت میں اپنا زورِ بیاں اور زورِبازو استعمال کرتے ہیں۔

مملکت خدادادپاکستان بھی ایسی  ہی نان اے سی  بس ہے  جس میں بہت سے کنڈیکٹر ہیں۔ مثلاً آپ بے روز گارہیں، بیمار ہیں، غمگین ہیں یا دنیا کی بے ثباتی پر کھَول رہے ہیں اچانک سیاسی کنڈیکٹر ٹی وی اسکرین پر آ کرکہتا ہے بھائی صاحب یہ ساری فکریں چھوڑیں اور ”جمہوریت کی بی بی سواری“ کو جگہ دیں۔ قانونی کنڈیکٹر ”آئین و قانون  کی بی بی سواری“ کے نام پربغیر کسی ہچکچاہٹ کے آپ کو بس سے ہی اتار دیتا ہے۔ جرنیلی کنڈیکٹر ”حب الوطنی کی بی بی سواری“ کے نام پرنا صرف آپ کو سائیڈ پر کھڑا کر دیتاہے بلکہ آپ کی نشست پر خود بیٹھ جاتا ہے۔ اگر دل چاہے تو ہر کچھ دیر کے بعد  یہ کنڈیکٹر پارلیمانی ڈرائیور پر مختلف الزامات لگا کر ڈرائیونگ سیٹ پر بھی براجمان ہو جاتا ہے۔ ایسے میں سودا بیچنے والے  ڈرائیور کو بے وفا قرار دے کر  کنڈیکٹر کی حمایت کرتے ہیں اور اپنے ضمیر کو یہ کہہ کر مطمئن کرتےہیں

کر کے حلال مرغ، کھال بیچتا ہوں میں
ایک بے وفا کی خاطر دال بیچتا ہوں میں

مگر ان سب سے مختلف مذہبی کنڈیکٹر ہوتا ہے۔ اسے سودا بیچنے والوں کی مدد بھی درکار نہیں ہوتی۔ یہ ”مذہب کی بی بی سواری“ کا کہہ کر  آپ کو اٹھاتا ہے اور اگر اسے ضرورت ہو تو آپ اٹھتے نہیں اٹھ جاتے ہیں کیونکہ ان کے کہے ہوئے پر باقی سواریاں بھی عمل کروانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اکثر اوقات بس میں ایک سے زیادہ کنڈیکٹر ہوتے ہیں ان کی آپس میں بنے یا نہ بنے نقصان سواری کا ہی ہوتا ہے۔ سیاسی کنڈیکٹر کو پارلیمانی ڈرائیور کا ساجھے دار سمجھا جاتا ہے۔ وہ ساتھ ساتھ ڈرائیور کی خدمات اداکرتا رہتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کمزور پارلیمانی ڈرائیور عملاً بس میں ہونے والے تمام واقعات سے الگ تھلگ رہتا ہے۔ بس کہاں رکے گی، کتنی دیر رکے گی، دوسری بسوں سے آگے چلے گی یا پیچھے، کب ریس لگانی ہے، یہ تمام معاملات کنڈیکٹر ہی دیکھتا ہے۔ کبھی کبھار سواریوں کو خوش کرنے کے لیے ڈرائیور کنڈیکٹر کو گیدڑ بھبکی دے دیتا ہے مگر چند لمحوں بعد ہی کنڈیکٹر آواز لگاتا ہے، ” یہ بندہ بی بی سواری کو جگہ نہیں دے رہا، گاڑی روکو، اسے اتارنا ہے“ اور ڈرائیور  بنا کسی رد و کد کے گاڑی روک دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).