بے ادب آمر


اچھا، انگریزی کے جولین بارنز کے غیرمعمولی The Porcupine کو بھلا کون بھول سکتا ہے جہاں مشرقی یوروپ کا آمر لاطینی امریکا کا شریک سفر معلوم ہونے لگتا ہے۔ یہ ناول ادب کے طالب علموں ہی نہیں بلکہ عام پڑھنے والوں کے لیے بھی جانے پہچانے ہیں، لیکن ایک علیحدہ ہی رنگ ان ناولوں کا ہے جو افریقہ کے آمروں کے بارے میں لکھے گئے ایشیا سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں کی طرح ان ملکوں کی تاریخ کے بارے میں میری معلومات ادھوری ہیں اور ان کے ادب کے بارے میں بھی۔ جدید ادب کا یہ گوشہ کتنا متنّوع اور کیسی عجائبات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے، اس کا تھوڑا سا اندازہ بھی ہوا تو Unmasking the African Dictator  نام کی کتاب سے ہوا جس کے مصنف کا نام Ndigirigi ہے۔ یہ کتاب بھی میں نے یوں اٹھا لی تھی کہ اس پر کینیا کے بے مثال ناول نگار Ngugi Wa Thiongo کا مقدمہ تھا۔ دنیا کے سربرآوردہ ناول نگاروں کی فہرست میں نگوگی کا نام بھی درج ہے، چاہے نوبیل انعام کی کمیٹی کو اس کی خبر دیر سے ملے۔

ایسی کتابوں کے ہم پلّہ نہیں تو ان کا ہم مزاج، حسن منظر کا نیا ناول حبس اس وقت مجھے یاد آرہا ہے جو نسل کشی اور ظالم اسرائیلی رہ نما کی تصویر کشی ایسے عالم میں کرتا ہے جب وہ قریب المرگ ہے اور موت کی آہٹ کے ساتھ اپنی پچھلی زندگی کے ورق الٹ رہا ہے۔

’’حبس‘‘ میں ذکر اسرائیل کا ہے مگر مجھے پاکستان بہت یاد آیا۔ میں اپنے چشم تصوّر سے کیلڈر کی کتاب میں ایک نیا باب پڑھنے لگا جو ابھی مصنف نے لکھا نہیں ہے، پاکستان کے آمروں کے بارے میں پورا ایک مطالعہ۔ اپنے قیام کے بعد سے پاکستان زیادہ تر کسی نہ کسی آمر کے زیرسایہ رہا ہے اور آمریت کے نام نہاد فیوض و برکات سے ہم نہ صرف واقف ہیں بلکہ ان کی ترمیم و تنسیخ کی شکار پیداوار بھی۔ لیکن ہمارے آمروں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو حریفِ مرد مئے افگن عشق ہو اور ان آمروں کے بعد صلّا کہہ سکے جن کے ادبی شوق کا ذکر ہوا۔ ہمارےآمروں کے شوق اور بہت رہے، قرطاس و قلم سے دور۔ مجھے اپنے آمروں سے شکوہ ہے۔ ان کی وجہ سے مجھے احساس محرومی ہورہا ہے کہ اتنے چھوٹے چھوٹے سے ملک اپنے آمروں کی وجہ سے اس جائزے میں شامل ہوگئے مگر پاکستان کا نام کہیں نہیں آنے پایا۔ وہ ایک بار پھر ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کو دھوکا دے گئے۔

قسم کھانے کو ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ چند لیڈروں نے اپنی سوانح حیات ضرور مرتّب کرنے کی کوشش کی، اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرنے اور آنے والی نسلوں کے سامنے سرخ رو ہونے کے لیے۔ لیکن ان آمروں کو اس کی داد بھی نہیں دی جا سکتی کہ سینہ با سینہ یہ روایت بھی چلتی رہ ہے کہ کس آمر کی کتاب اصل میں کس نے لکھی تھی۔ دوسروں کے لکھے ہر آمر ناحق کیوں پکڑا جائے؟ ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک، ایک زمانے میں ان کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں، لاکھوں کی تعداد میں چھپتی ہیں۔ اب یہ پرانی کتابوں کے ٹھیلوں پر کبھی کبھار نظر آتی ہیں تو میر کا شعر یاد آتا ہے

اب کہیں جنگلوں میں ملتے نہیں

حضرتِ خضر مرگئے شاید

ایسے آمروں کے نقاد خانے میں پاکستان کے بعض لکھنے والوں کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔ سابق مشرقی پاکستان کے ناول نگار شوکت عثمان کا ناول ’’غلام کی ہنسی‘‘ جس پر ایوب حکومت نے پہلے تو انعام دیا پھر سمجھ میں آگیا تو پابندی لگا دی۔ محمد حنیف کا ناول جس میں طیارے کے ساتھ آمر صاحب بھی فضا میں پھٹ جاتے ہیں کیونکہ آم کی پیٹی آمر کے لیے رکھی گئی تھی۔ ایک پوری داستان پاکستان کے ان ادیبوں کے بارے میں لکھی جا سکتی ہے جو کسی نہ کسی موقع پر آمروں کے ہاتھ مضبوط کرنے لگے، ان کی آواز میں آواز ملانے لگے۔ ایسی فہرست میں اتنے بڑے بڑے نام آئیں گے کہ ہم شرمندگی کے مارے سر جھکائے رہیں گے۔ اس نسخے کو اکسیر کی شکل بھی ضیاء الحق کے دور میں ملی جب ادبی کانفرنس میں طلبی کا حکم نامہ جاری ہونے لگا، کچھ لوگوں کو اس طرح نوازا جانے لگا۔ ایسے ہی ایک موقع پر صاحب موصوف نے ادبی نقد و نظر کے میدان میں اپنے جوہر دکھائے اور احمد ندیم قاسمی جیسے ادیب کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدے ’’فنون‘‘ میں سے اختر حسین جعفری کی نظم کا اقتباس سنا کر دھمکی آمیز بیان بھی دیا۔ افسوس کہ اس میدان نقد و نظر میں انھوں نے اپنی اُبھرتی ہوئی صلاحیتوں کو مزید فروغ نہیں دیا ورنہ ہماری تنقید نہیں تو طنز و مزاح پر بہت خوش گوار اثر مرّتب ہوتا اور زمانۂ حال کی پژمردگی تھوڑی بہت دور ہو جاتی۔ حیف نگاہِ مرد مومن سے تقدیریں بدلتے بدلتے رہ گئیں۔ آمر نے ایک بار پھر مایوس کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3