گھنٹی والی ڈاچی اور فریب کار بانسری


’’مشکل سی ہے‘‘۔ اُس نے ایک لمحے کے لیے پلکیں جھکائیں۔

’’مشکل سی؟ کیا مطلب‘‘؟

اُس نے ایک نظر اوپر برتھ پر ڈالی، جیسے یقین کرلینا چاہتی ہو، کہ اُس کی آواز سننے والا کوئی اور ہوش میں تو نہیں ہے۔ اِس دوران مجھے یہ پوچھنے کا موقع مل گیا۔

’’یہ آپ کے‘‘؟

’’سرتاج‘‘۔ اُس نے جھٹ سے بتادیا۔

میرا ردعمل ایسا تھا، جیسے یقین نہ آیا ہو، وہ میری صورت تک کے لطف اندوز ہوئی۔

’’سر کے تاج‘‘ اس نے یوں واضح کیا، جیسے مذاق کرتی ہو، اور ساتھ ہی اپنی ہنسی کو دبادیا۔ میں بھی مسکرائے بغیر نہ رہا۔ اُس لڑکی کو پہناوے کا سلیقہ تھا، جب کہ اُس کا ’سرتاج‘ ظاہر میں اس طبقے کا لگتا تھا، جنھیں پہننے کا طریقہ سلیقہ نہیں ہوتا، چاہے کتنے بھی متمول ہوں۔ میرے ذہن میں جھماکا ہوا، ضرور یہ اپنے بے ڈول رشتے کا ماجرا کہنا چاہتی ہے۔

’’اچھا! تو یہ کہانی ہے، آپ کی! آپ کی شادی آپ کے گھر والوں نے پیسا دیکھ کے کردی! ہے ناں‘‘؟ آپ نے دیکھا ہوگا، جب کسی گلوکار کا انٹرویو لیا جارہا ہو، تو وہ کیمرے کے سامنے کسمسا کے بات کرتا ہے، لیکن جونھی اسے گانے کے لیے کہا جائے، اس کا اعتماد دیکھنے لائق ہوتا ہے۔ میرے اندر کا فسانہ جو بیدار ہوگیا تھا اور کہانی کہنے والے کا اعتماد بھی۔

’’بہت جلد باز ہیں، آپ۔ بہت جلدی نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ میں نے تو سنا تھا، کہانیاں لکھنے والے وہ دیکھ لیتے ہیں، جو سب نہیں دیکھ پاتے۔ آپ تو وہی دیکھ رہے ہیں، جو سب دیکھتے ہیں‘‘۔

مجھے اس لڑکی کا انداز مسحور کرگیا۔ ’’اچھا! آپ کہیے، میں صرف سنوں گا‘‘۔

رات طویل تھی، اور ٹرین کی کھٹا کھٹ کے علاوہ ہمارے بیچ میں کوئی مخل نہ تھا۔ اس نے کہانی کا آغاز کہیں اور سے کیا تھا، جو بھی ہو، تھا تو میں اجنبی ہی؛ ایک ملاقات میں کوئی اپنا دِل کیوں کھول کے رکھ دے گا۔ اس نے کچھ قصہ اُس رات سنایا؛ کچھ دو تین مہینوں کے بیچ کے وقفوں میں۔

وہ اٹھارہ انیس سال کی تھی جب کوئی اُسے کالج کے گیٹ سے نکلتا دیکھ کر اُس پر فدا ہوگیا، وہاں وہ اپنی کزن سے ملنے آیا تھا۔ اُس سے ربط بڑھایا؛ ٹکڑوں میں سنی اُس کی ہڈ بیتی طویل ہے، مختصر یہ کہ لڑکا لڑکی کے خاندان کی شدید مخالفت کے باوجود دونوں کی منگنی ہوگئی، جس میں لڑکی کے خاندان کے کچھ لوگ شریک ہوئے۔ لڑکے کے گھر والوں نے آنے سے انکار کردیا۔ محبوب رُخصتی اور نکاح سے پہلے قربت کا خواہش مند ہوا۔ نہ نہ کی تکرار کام نہ آئی، چاہتے نہ چاہتے ’جُرم‘ سرزد ہوگیا۔ اُس کا کہنا ہے کہ وہ محض محبوب کی خواہش پوری کرتی تھی، خود حظ نہ اُٹھاتی تھی، ایک بار، محض ایک بار لُطف لیا، اور اس کی سزا یہ ملی کہ حمل ٹھیر گیا۔ اَن چاہے نے اپنے ہونے کا اعلان کیا تو غیر قانونی طریقے سے اسقاط کروایا گیا۔ اتائیوں کے ہتھے چڑھی، کیس بگڑ گیا، چار مہینے میں چار بار اذیت ناک مرحلے سے گزرنا پڑا۔ اس سانحے کی بھنک عاشق معشوق کے سوا کسی اور کے کان میں نہ پڑی۔

اپنی سی کوشش کے باوجود، لڑکا گھر والوں کو منانے میں ناکام رہا، تو لڑکی کے اہل خانہ نے رشتہ ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ لڑکی کے مَن میں تھا کہ اب میں کسی نیک نام کے قابل کہاں رہ گئی ہوں، وہ ماں کے سامنے ڈٹ گئی۔ رُخصتی ہوئی؛ لڑکے کے گھر والے اِس بار بھی شریک نہ تھے۔ لڑکی شادی سے پہلے جنسی عمل کے ’بھیانک‘ نتائج بھگت چکی تھی، اِس لیے یہ عمل خوف کی صورت رگ و پے میں سرایت تھا۔ شادی کے پہلے ہی مہینے میاں بیوی کے جھگڑے شروع ہوگئے۔ میکے کس منہ سے جاتی؛ اپنی ایک سہیلی سے اِس مجبوری کا ذکر کیا، تو وہ اسے اپنے ایک عزیز کے پاس لے گئی، جو دم درُود کرتا تھا۔ کیا ہوا کیا نہیں، اس کی تفصیل میں کیا جانا۔ پیر کے ہاتھ میں شفا تھی، اُس نے اُسے ’لذت‘ کے مفہوم سے آشنا کیا۔

”میں اُن لمحات میں اُس کے ساتھ بے خود ہوجاتی تھی، اُس کی تڑپ رہتی تھی، لیکن اب اُن چار مہینوں کی چار ’ملاقاتوں‘ کو یاد کروں، تو اپنے آپ سے گھِن آتی ہے“۔

پہلے اُس پیر نے اُس کے شوہر سے دوستی کی، آئے دن ملاقات کرتا رہا۔ شوہر کو الگ سے کہتا کہ یہ عورت تمھارے قابل نہیں ہے، اور بیوی کو الگ سے سمجھاتا، کہ تمھارے شوہر نے تم جیسی فرشتہ صورت کی قدر نہ کی۔ پیر کہتا تھا اپنے شوہر سے طلاق لے کر مجھ سے شادی کرلو۔ وہ تیار بھی تھی، اُس کا کہنا تھا، مجھے اپنے شوہر سے نفرت ہونے لگی تھی، جس کی خاطر میں نے ہر طرح کا سمجھوتا کیا، خاندان بھر کی باتیں سنیں، اور وہ بالکل اس کے برعکس نکلا، جس جس بات کا دعوا کرتا تھا۔

کہتے ہیں ناں، عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے۔ ایک روز پیر کا کیا ٹیکسٹ میسیج اُس کے شوہر کے ہاتھ لگ گیا، جس میں بے تابی کا اظہار کیا گیا تھا، کہ۔۔۔۔ اُس ٹیکسٹ میسیج میں اُن کی قربت کے لمحات کا ذکر تھا۔ شوہر نے لڑکی کی ماں کو بلا بھیجا، اور اُس کی بیٹی کے کرتوت بیان کیے۔ ماں دھَک سے رہ گئی، کہ یہ کیا ہوا۔ اِس دوران پیر نے رابطہ کرنے کی کوشش کی، تو لڑکی نے اُسے صاف انکار کردیا کہ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گی، لہاذا میرا پیچھا چھوڑ دو؛ پیر نے پیچھا چھوڑ دیا۔

برسوں کی کہانی سننے کے لیے وہ رات نہایت مختصر تھی۔ پھر کراچی اور راول پنڈی کے درمیان فاصلہ ہی کتنا ہے۔ ریل وے اسٹیشن پر بچھڑنے سے پہلے ہم ٹیلے فون نمبروں کا تبادلہ کرچکے تھے۔ یوں ہمارے درمیان رابطے کا امکان رہا۔

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran