گھنٹی والی ڈاچی اور فریب کار بانسری


اُس نے مجھے پیر کی تصویر وٹس ایپ کی، عجیب بے ڈھب سا آدمی تھا، آنکھیں بھینگی سی۔ کچھ کچھ اُس کے ’سرتاج‘ کا سا۔ میں نے اِستفسار کیا، ایسی نازک اور حسین عورت اُس پر کیسے فدا ہوگئی، یہ میری سمجھ سے بالا ہے۔ اُس نے جواب دیا، کہ پیر نے اُسے تعویذ گھول کے پلا دیے تھے۔

کئی دنوں کی ریاضت کے بعد، شوہر سے رابطہ کرکے اسے کسی نہ کسی طرح یہ یقین دلایا کہ پیر سے جسمانی تعلق نہ تھا، ہم بوس و کنار تک ہی پہنچے تھے۔ گرچہ یہ جھوٹ تھا۔ اِس دوران لڑکی کا سسر فوت ہوگیا؛ سانحے دِل پگھلادیتے ہیں۔ شوہر نے اسے معاف کرکے گھر میں جگہ دے دی۔ ازدواجی تعلق کی گاڑی چلنے لگی۔ بتاتی ہے، کہ شوہر کو بیچ بیچ میں دورہ پڑجاتا تھا، وہ کہتا تھا کہ مجھے جب جب خیال آتا ہے کہ تم پیر کے ساتھ۔۔۔ تو یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ انسانی کردار بھی رنگ بہ رنگ ہیں، ایک طرف بیوی کا پیر سے لذت کا وقتی ناتا پسند نہ آیا تھا، تو دوسری طرف وہ ہرجائی اسی پیر کا معتقد بنا گھومتا رہا۔

شادی کے ڈیڑھ سال بعد اُن کے یہاں لڑکا پیدا ہوا۔ تیسرے سال حمل ٹھیرا تو شوہر نے ضد کرلی کہ ابارشن کروالو، مجھے مزید اولاد نہیں چاہیے۔ کیوں کہ اس دوران اس کے شوہر کا دِل کسی اور میں جا اَٹکا تھا؛ وہ لذت کی اُن راہوں سے آشنا ہوا، جس کے لیے اُس کی منکوحہ تیار نہ ہوتی تھی۔ ایسے میں وہ گھر میں کم اور باہر زیادہ وقت دینے لگا تھا۔ اُسے اسقاط حمل کا پہلا خوف ناک تجربہ ابھی یاد تھا۔ لڑائی جھگڑے ہونے لگے؛ ایسے میں بیوی کی بے وفائی کا تذکرہ بھی ہوجاتا، کہ وہ پیر کے ساتھ منہ کالا کر آئی ہے، تبھی وہ کسی اور عورت سے ربط رکھ کے بدلہ لے رہا ہے۔ اُدھر شوہر کی محبوبہ کا مطالبہ تھا، اسے طلاق دو گے تو میرے پاس آنا۔ محبوبہ کا دل رکھنے کے لیے اُس نے ٹیلے فون کال ملا کر بیوی کو کئی کئی بار طلاق دی۔ بیوی نے رو دھو کے ماں کو پکارا؛ وہ ساس کے سامنے منکر ہوگیا کہ میں نے طلاق دی ہی نہیں۔ اکیلے میں بیوی کو سمجھایا کہ تم حاملہ ہو، میرے کہنے سے بھی طلاق نہیں ہوسکتی۔ الغرض! اِس دوران اُن کے یہاں بیٹی نے جنم لیا۔ شوہر نے اُسے گھر سے نکال دیا، کہ اُس کے ساتھ رہنے سے اُس کی محبوبہ ناراض ہوتی ہے۔

اِس بار وہ ماں کے گھر نہیں گئی، بلکہ باپ سے رابطہ کیا، جس نے بچپن میں اُسے ماں کے ساتھ جانے دیا تھا۔ باپ نے دوسری شادی کر رکھی تھی، اُس میں سے بھی اولاد تھی۔

’’اِس سے پہلے مجھے اپنے حُسن کا اِدراک نہیں تھا۔ اب میرے باپ نے بتایا کہ میں کیا ہوں، کتنی حسین ہوں، کتنی دِل کش ہوں‘‘۔

ایک دن اُس کا باپ نہا کر غسل خانے سے باہر آیا، تو وہ صحن میں بیٹھی، اپنے بچوں کو کھیلا رہی تھی۔ باپ کے بدن سے صرف تولیہ لپٹا دیکھ کر اُس کی ایسی ہنسی چھوٹی کہ رُکنے کا نام نہ لیا۔ باپ نے خفت مٹانے کو کہا، کہ کیوں ہنستی ہو، تم بھی میرے بدن کا حصہ ہو۔ میرے جیسی ہو۔

کون سا لمحہ تھا، کون سا پل، وہ یہ بتانے سے قاصر رہی؛ بس اِتنا کہا، ”میں بچپن سے باپ کے پیار کو ترسی تھی، اب اُس کے بازو پہ سر رکھ کے سوتی تھی۔ اُسے چومتی تھی، وہ مجھے چُومتا تھا کہ ہم صدیوں بعد ملے تھے۔ سمجھنے کے لیے اسے بوس و کنار کہ لو، لیکن تم نہیں سمجھو گے، نہ میں سمجھا پاوں گی“۔

یہیں سے کب پیش رفت ہوئی یاد نہیں۔ اِس دوران اُس کے باپ نے اُسے تربیت دینا شروع کی کہ شوہر کا دِل کیسے جیتا جاسکتا ہے۔ باپ نے اسے سکھایا کہ مرد کو کیسے فیض یاب کرتے ہیں، تاکہ وہ کسی اور عورت کی طرف نہ دیکھے۔ یہ وہ نیک نیتی کے جذبے سے کررہا تھا، تا کہ اپنے شوہر کے گھر سکھی رہے۔ اِس دوران شوہر نے طلاق کے کاغذ بھیج دیے، باپ نے بیٹی کی تربیت کرنا نہ چھوڑا۔ تماشا یہ ہوا کہ وہ اپنے ہی باپ کے بچے کی ماں بننے والی ہوگئی۔ روئی پیٹی کہ بچہ ضایع نہیں کروں گی، لیکن ایک بار پھر اسقاط حمل کے عمل سے گزری۔ اسے باپ سے بھی نفرت ہوگئی۔ یہ مرد بوجھ دینا جانتے ہیں، بوجھ اٹھاتے نہیں۔

باپ کے گھر سے نکلی، پھر ماں کے یہاں پناہ لی۔ دِل کشی پہلے سے سوا تھی؛ اب کے یہ احساس بھی کہ اس سا کوئی اور نہیں۔ بہت سوں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا، لیکن اُنھیں یہ کہ کر ٹھکراتی رہی، کہ وہ اُس کے لائق نہیں ہیں۔ بتایا کہ میں اب اتنی تربیت یافتہ ہوگئی تھی، کہ کسی کے پیار کے جال میں نہیں پھنسنا تھا؛ مجھے متمول شخص کی تلاش تھی؛ آسودگی کی تمنا؛ دولت مند کے یہاں آسودگی تو ہو گی، یہ اُس کا یقین تھا۔ وہ شخص جو ٹرین میں ساتھ تھا، وہ اُس کا آسودہ حال ’سرتاج‘ تھا۔

”پھر؟ تمھیں آسودگی حاصل ہوئی‘‘؟

’’آسودگی کسے کہتے ہیں‘‘؟ اس نے گویا خود سے پوچھا۔

’’مجھے کیا معلوم، تمھی کہو‘‘؟

 میرے سوال کرنے پر وہ دیر تک چپ رہی۔ جب اپنی بات سمجھانے کے لیے لفظ اکٹھے کرلیے تو کہا۔

’’میرے لیے ایک معما ہے، معما یہ کہ پہلے شوہر کے ساتھ گزارے لمحوں کا مزہ یاد نہیں؛ نہ اس کے دیے درد کا شکوہ ہے۔ نہ باپ سے لی ’تربیت‘ کا افسوس؛ پر کیا ہے، کہ مجھے وہ پیر نہیں بھولتا، جس کی قربت میں، مَیں اپنے ہوش گنوا بیٹھتی تھی۔ قسم لے لو، مجھے نفرت ہے اُس سے، گرچہ اس نے مجھے لذت سے آشنا کیا۔ اب میں وہی لذت ڈھونڈتی پھرتی ہوں، وہ لذت نہیں ملتی، کہیں نہیں ہے۔ تم بتا سکتے ہو، کیوں‘‘؟

کوئی آپ کو رازداں بنالے، مشورہ چاہے، سوال کرے تو بعض اوقات بڑی تکلیف دہ صورت حال سے گزرنا پڑتا ہے۔ آپ پر ایک اذیت ناک کیفیت طاری ہوجاتی ہے، جب بہت سوچنے پر، بہت چاہتے ہوئے بھی ایک ’’کیوں‘‘ کا جواب نہیں تلاش کر پاتے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran