سبحان اللہ! ہندوستان میں اردو مشرف بہ اسلام ہو گئی


میں نے کبھی کہا تھا کہ ہندوستان میں اردو کے فروغ میں مدارس اسلامیہ کا بڑا ہاتھ ہے، میں اب بھی اس سے انکار نہیں کرتا لیکن فی الحال ہم وہیل چیئر پر بیٹھی ہوئی اس اردو زبان کے متعلق بات نہیں کر رہے ہیں جس کی جیب مذہبی خزانوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ “منہاج العربیہ” اور “تسہیل المصادر” رٹتے رٹتے مدرسوں کے طلبا کی اردو بحیثیت محرر اور بطور خاص بحیثیت مقرر کافی اچھی ہو جاتی ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ طلبا اردو کو عربی اور فارسی کے توسط سے سیکھنے کا شرف حاصل کرتے ہیں۔ انھیں اردو زبان سے کچھ کوئی خاص لینا دینا نہیں ہوتا۔ یہ محض “اسلامیات” پڑھنے کے لیے اس زبان کو سیکھنے پر مجبور ہیں۔ اس کا ایک اور برا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو زبان میں قصداً عربی اور فارسی کا تسلط قائم کیا جاتا رہا اور دوسری طرف ہندی الفاظ کا اخراج عمل میں آتا رہا۔ حتیٰ کہ یہ مدارس کے طلبا اور اساتذہ اردو بولتے ہوئے بھی مخرج کی ادائیگی اسی طرح کرتے ہیں، جس طرح انھیں عربی الفاظ کو ادا کرنے کی عادت ڈال دی گئی ہے؛ چنانچہ یہ اردو نہیں بولتے، کوئی اور زبان ہی بولتے ہیں۔

میں ان ہندوستانی یونیورسٹیوں کی بھی بات نہیں کررہا ہوں جہاں اردو پڑھنے والے بیشتر طلبا کا مقصد زبان و ادب میں ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر کے انھیں یونیورسٹیوں میں لیکچرر کے منصب پر فائز ہونا ہے۔ ایک بار فضیل جعفری نے ان یونیورسٹیوں کو جہالت مینو فیکچر کرنے والی ایسی فیکٹریاں کہاتھا جہاں سے ہر سال جہلا کی ایک بڑی کھیپ نکلتی ہے اور انھی یونیورسٹیوں میں مزدوری پر معمور ہوجاتی ہے تاکہ نئی کھیپ تیار کی جا سکے۔ بات تلخ ہے لیکن یہی حقیقت ہے۔

معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے کتنی پیاری بات کہی ہے کہ کسی بھی زبان میں لکھا جانے والا لٹریچر اس زبان کے بولنے والے لوگوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ذہنی پختگی کے کس درجہ پر ہیں۔ اگر زبان میں نئے الفاظ و اصطلاحات کا اضافہ رہتا ہے تو اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سماج میں نئے خیالات، افکار اور نظریات کو روشناس کرایا جارہا ہے۔ اگر زبان ایک جگہ ٹھہر جائے اور اس کے الفاظ و اصطلاحات میں جمود آجائے تو اس سے معاشرے کی پسماندگی کا اظہار ہوتا ہے۔ انیسویں صدی کے جرمنی دانشوروں نے جرمن زبان کو صرف ادب کے بل بوتے پر نہیں بلکہ فلسفہ، تاریخ، سائنس اور دوسرے علوم پر کتابیں لکھ کر اسے معیاری زبان بنایا۔ بیسویں صدی میں عربی زبان کو لبنان کے عیسائی دانشوروں نے نئے علوم سے مالا مال کیا۔ بلاشبہ اردو میں یورپ کی زبانوں سے سائنس، ٹیکنالوجی، سماجی علوم اور ادب کے تراجم ہوئے لیکن محض ترجموں کے ذریعہ کسی زبان کو اہم نہیں بنایا جا سکتا۔ تراجم زبان کو مقروض بنا دیتے ہیں، جب تک کسی زبان میں بنیادی تحقیقی کام نہ ہو، اس کے بولنے والوں کی ذہنی ترقی نہیں ہوسکتی۔

اردو زبان کی نشوونما میں دہلی اور لکھنؤ کی اشرافیہ کا حصہ ہے، لہٰذا ابتدا میں زبان آرائی کو تخلیق کا کارنامہ سمجھا جاتا تھا۔ اردو زبان کا دوسرا اہم موضوع مذہب تھا بلکہ اب بھی ہے۔ چنانچہ شعر و شاعری، داستانوں اور مذہبی عقائد نے اردو زبان کو اپنا لیا اور اسے بولنے والوں کا یہی مخصوص ذہن بنا دیا۔

ذرا اپنے گرو پیش کا جائزہ لیں اور بتائیں کہ کیا آج بھی ہمارے یہاں سے شائع ہونے والے بیشتر اردو اخباروں کو مسلمانوں کے مسائل کی جذباتی نمائندگی سے فرصت ہے؟ کیا ان اردو اخباروں کے صفحات مذہبی ایام میں اسلامی تہواروں کے مخصوص ضمیمے نہیں نکالتے؟ کیا دوسرے ہندوستانی تہواروں پر یہ اخبار یہی اہتمام کرتے ہیں؟ کیا بیشتر مشاعروں کا آغاز تلاوت قرآن، حمد و نعت سے نہیں کیا جاتا؟ کیا ان مشاعروں میں شامل غیر مسلم شعرا ذہنی طور پر اردو کو مسلمانوں کی زبان نہیں سمجھ بیٹھے ہیں کہ اپنے تماشائیوں کو خوش کرنے کے لیے قصداً مسلمانوں کے سیاسی اور سماجی جذبات کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں، حتیٰ کہ بعض غیر مسلم شعرا تو مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے حمد اور نعت بھی پڑھنا شروع کردیتے ہیں اور تماشائیوں میں شامل مدارس کے طلبا اور اساتذہ کی ایک کثیر جماعت جھوم جھوم کر اچھل اچھل کر داد کے ڈونگرے برساتے ہیں؟ ماشا اللہ، سبحان اللہ، الحمد اللہ وغیرہ جیسی مخصوص اسلامی اصطلاحات اردو زبان کے اندر اس حد تک سرایت کرچکی ہیں کہ ایک روشن خیال ادیب بھی اس کی گرفت سے خود کو آزاد نہیں کر پاتا۔ میں جب بیمار پڑا تو فیس بک پر بیشتر ادیبوں نے اللہ سے میری صحت عاجلہ و کاملہ کی دعائیں مانگیں، اور جب کوئی چل بستا ہے تو اکثر اس کی مغفرت کی دعائیں مانگتے ہوئے لوگ نظر آتے ہیں، حتیٰ کہ کسی اچھے شعر یا نثر پارے پر “اللہ جزائے خیر دے” کی گردان بھی کرتے ہوئے لوگ مل جائیں گے۔ دراصل ہمارا پورا معاشرہ “ہمپٹی ڈمپٹی” کی طرح مذہب کی دیوار پر چڑھ بیٹھا ہے جس سے وہ اترنے کی کوشش کرنا بھول چکا ہے۔

سوال اٹھتا ہے کہ پھر اردو کا وہ سیکولر رویہ کہاں ہے جسے ثابت کرنے کے لیے آپ کلاسیکی ادب سے جدید ادب تک غیر مسلم ادیبوں اور شاعروں کے اسمائے گرامی گنواتے پھرتے ہیں؟ پھر آپ آر ایس ایس سے شاکی کیوں ہیں جو اردو کو مسلمانوں کی زبان ثابت کرنے پر عرصہ دراز سے محنت کررہی ہے؟ یہ کام تو خود آپ کر رہے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر کر رہے ہیں۔

اردو بولنے والوں کے اس ذہنی رویے نے اسے دیگر سماجی علوم سے قطع تعلق کردیا ہے۔ اردو کا شاعر یا ادیب فراٹے سے کلاسیکی ادب، ترقی پسند ادب، جدید اور مابعد جدیدیت پر بات کرلے گا، فلسفہ کو بھی کچھ لوگ ضمناً قبول کرلیں گے لیکن سائنس، ٹیکنالوجی، سیاسیات، عمرانیات، الٰہیات وغیرہ پر بات کرتے ہوئے ہکلانا شروع کردیتے ہیں۔ ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ ژاں پال سارتر سے پاکستان کا ایک ادیب ملاقات کرنے پہنچا۔ سارتر نے اسے آدھ گھنٹے کا وقت دیا تھا۔ رسمی گفتگو کے بعد سارتر نے حضرت ادیب سے دریافت کیا کہ جنوبی ایشیا میں موجود سیاسی کشمکش کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ادیب صاحب نے بڑے فخر سے منھ بناتے ہوئے کہا، “جناب، میں شعر و ادب کا بندہ ہوں، مجھے سیاست سے کیا سروکار؟” سارتر اپنی جگہ سے فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگیا کہ “جو شخص اپنے گردو پیش سے اتنا لاتعلق ہو، اس کے ادیب ہونے پر بھی مجھے شک ہے۔”

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمارے اردو ادیبوں کا سماجی، تاریخی اور سیاسی شعور صفر ہے، بلکہ میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ یہ شعور صرف ادب کے حوالے سے ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی کے افسانوں اور ناولوں کو دیکھیے تو ان کے تاریخی شعور کا پتہ چلتا ہے اور بھی کئی ہیں جن کی تخلیقات میں ان کے سماجی، تاریخی اور سیاسی شعور کی جھلک نمایاں ہوتی ہے، لیکن یہ صرف تخلیق ادب تک محدود رہتی ہے، ادیب کی شخصیت اسے انگیز نہیں کر پاتی۔ اس کی مثال بالکل مدرسہ کے ان طلبا کی سی ہے جو محض اسلامیات کا مطالعہ کے لیے اردو زبان کا شعور رکھتے ہیں اور بقدر ضرورت رکھتے ہیں۔ میں یہاں ‘ادیب کا منصب’ یا ‘ادب اور زندگی’ یا جدلیاتی مادیت جیسے فرسودہ موضوعات پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا لیکن آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ فرانسیسی ادیب و دانشور احمق تھے جنھوں نے شہنشاہ لوئی چہار دہم کی بعض جنگوں کی مخالفت کی؟ نپولین کے تشدد کی مزاحمت کی؟ نطشے تو شاید آپ کی نظر میں گھامڑ ہی ہو گا، جس نے جرمنوں کی فرانسیسی انقلاب کی مخالفت کرنے پر برطانوی ارباب اقتدار کو لتاڑا؟ یہ صرف تاریخی کہانیاں نہیں ہیں؛ عصر حاضر میں ایڈورڈ سعید، مارٹن لوتھر کنگ، نوم چامسکی، طارق علی اور اروندھتی رائے جیسے لوگوں نے اعزازات، انعامات، خطابات اور مراعات کو ٹھوکر مار کر اپنی ساری زندگی اپنے لکھے ہوئے کو جینے میں لگا دی، کیا انھوں نے اپنا وقت ضائع کیا؟ امریکی ادب اور سماجیات پر ہارپر لی (Harper Lee)  کا کیا اثر ہے، اسی بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے ناول “To Kill a Mockingbird” کی اشاعت کے فوراً بعد ہی سارے امریکہ میں سیاہ فاموں کے حقوق کی جدوجہد زور پکڑ گئی اور گذشتہ پچاس سال میں انسانی حقوق کی کئی تحریکیں اس کے زیر اثر رہیں۔ ہمیں ایڈورڈ سعید کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ایک فلسطینی عیسائی تھا لیکن اس نے اپنی ساری زندگی ہر فلسطینی بشمول مسلمان، کے حق کے لیے قربان کردی۔ مثالیں اور بھی ہیں لیکن یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اردو زبان اس منظر نامے سے خالی کیوں ہے؟

اشعر نجمی، ممبئی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اشعر نجمی، ممبئی، ہندوستان

اشعر نجمی ممبئی کے سہ ماہی جریدے ”اثبات“ کے مدیر ہیں۔

ashar-najmi has 4 posts and counting.See all posts by ashar-najmi